57

اسرائیل کی بدترین جارحیت – ایکسپریس اردو

[ad_1]

پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے79ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت نے انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا ہے، معصوم بچوں، عورتوں اور نہتے شہریوں کے قتل پر خاموش نہیں رہا جا سکتا ،اسرائیلی جارحیت کو طوالت دینے والوں کے ہاتھ بھی غزہ کے بچوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔

انھوں نے واضح کیا کہ نہتے فلسطینیوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، عالمی برادری کو پائیدار امن اور دو ریاستی حل کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا۔ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے مطالبہ کیا کہ ایسی فلسطینی ریاست قائم کی جائے جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو اور فلسطین کو اقوام متحدہ کا مستقل رکن تسلیم کیا جائے۔

اسرائیل جس طرح مشرق وسطیٰ کے خطے میں طاقت کا استعمال کر رہا ہے، وہ اس پورے خطے میں جنگ کے خطرات کو بڑھا رہا ہے۔ گزشتہ روز اسرائیل نے جنوبی لبنان میں ایک کارروائی کی ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اس کارروائی میں لبنان کی تنظیم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ شہید ہو گئے ہیں جب کہ حالات کی نزاکت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایران کے رہبر آیت اللہ علی خامنائی کو بھی محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔

یوں مشرق وسطیٰ جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے درست کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد میں ناکامی نے مشرق وسطیٰ کو مزید خطرات سے دوچار کر دیا ہے، اسرائیل کو اپنی جارحیت بڑھانے کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت اس بات کا اعلان ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ معاملہ اب غزہ تک محدود نہیں رہا ہے۔ اسرائیل نے لبنان میں بھی جنگ کے بادل بھڑکا دیے ہیں۔

اس سے پہلے اسرائیل نے پیجر دھماکے کر کے حزب اللہ کے کئی لوگوں کو شہید کیا تھا جس میں ایرانی بھی شامل تھے۔ اسرائیل نے ایران کے اندر بھی کارروائی کر کے کئی اہم لوگوں کو نشانہ بنایا ہے۔ لازمی بات ہے کہ حزب اللہ، ایران، یمن کی حوثی انتظامیہ اور حماس اتنے بھاری نقصانات اٹھانے کے بعد خاموش نہیں رہیں گے۔ ان کی طرف سے جوابی کارروائی لازمی ہو چکی ہے۔ مسلم ممالک کے لیے بھی بہت مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ ان کے لیے بھی غیرجانبدار رہنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔

امریکا میں چونکہ اس وقت صدارتی الیکشن ہونے والے ہیں، جوبائیڈن انتظامیہ کا کردار ایک نگران حکومت والا بن چکا ہے۔ جوبائیڈن انتظامیہ عالمی سیاست میں کوئی حتمی فیصلہ لینے کے قابل نہیں ہے۔ اس کا فائدہ اسرائیل نے اٹھایا ہے اور وہ من مانی کر رہا ہے۔ نیتن یاہو انتظامیہ نے حماس کے خلاف سخت مؤقف رکھا اور غزہ میں جنگ بندی نہیں کی۔ اس کے نتیجے میں لڑائی پھیل گئی اور اس میں حزب اللہ بھی شامل ہو گئی۔

ایران پر بھی الزام عائد کیے گئے کہ وہ فلسطینیوں کی حمایت کر رہا ہے۔ اسرائیل نے ایران کے اندر بھی موساد کے ذریعے کارروائیاں شروع کر دیں۔ امریکا کی بے جا حمایت اور بائیڈن انتظامیہ کی کمزور پالیسی کے نتیجے میں یمن کی حوثی حکومت کو بھی خطرات محسوس ہوئے۔ یوں جنگ کا دائرہ کار غزہ سے تہران تک پھیلنا شروع ہوا اور اب یہ خطرہ سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ اسرائیل نے جو اقدامات کر دیے ہیں، اس کا نتیجہ بڑی جنگ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران تنازع کشمیر کا بھی ذکر کیا۔ انھوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ مسئلہ کشمیر بھی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے، کشمیریوں کے حق خود ارادیت سے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادیں موجود ہیں، یہ طے ہوا تھا کہ کشمیریوں کو حق خودارادیت ملے گا، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، 9 لاکھ بھارتی فوجی مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو جابرانہ اقدامات کے ساتھ دہشت زدہ کر رہے ہیں، جن میں طویل کرفیو، ماورائے عدالت قتل اور ہزاروں کشمیری نوجوانوں کا اغوا شامل ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی مذموم کوششیں ہو رہی ہیں، غیر مقامی افراد کو کشمیر میں آباد کیا جا رہا ہے،یہ پرانا حربہ تمام قابض طاقتوں نے اپنایا، لیکن یہ ہمیشہ ناکام رہا ہے۔ جموں و کشمیر میں بھی یہ انشاء اللہ ناکام ہوگا! بھارتی جبر کے باوجود کشمیر کے عوام برہان وانی کے نظریئے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ بھارت کے جارحانہ عزائم سے خطے کے امن کو خطرات ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کی مثبت تجاویز کا بھارت نے جواب نہیں دیا۔ پاکستان بھارت کے غیر قانونی قبضے کے خلاف کشمیری عوام کی جائز جدوجہد کی حمایت جاری رکھے گا۔ اس میں شک نہیں کہ کشمیری عوام کی آزادی کا مقصد پورا ہوگا۔ پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر پر عملدرآمد کے لیے پرعزم ہے۔

کشمیر کا تنازع پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی جنگوں کا باعث بن چکا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے بھی تمام رکن ممالک اس صورت حال سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ اصولی طور پر تو اقوام عالم کو کشمیر کا تنازع خوش اسلوبی سے طے کروانا چاہیے تھا۔ اگر یہ تنازع بروقت حل ہو چکا ہوتا تو جنوبی ایشیا میں امن قائم ہو جاتا۔

سارک جیسی تنظیم بھی کام کرتی اور اس کے ثمرات سے سارک کے رکن ممالک فائدہ اٹھا کر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوتے لیکن طاقت ور اقوام کی مصحلت پسندی اور موقع پرستی کی وجہ سے کشمیر کا تنازع حل نہ ہو سکا جس کی وجہ سے آج بھی جنوبی ایشیا مسائل کا شکار ہے۔ یہی نہیں بلکہ افغانستان پر بھی امریکا اور یورپ نے توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے اس ملک میں دہشت گرد تنظیموں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ آج بھی افغانستان کی وجہ سے خطے کے ممالک مسائل کا شکار ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی توجہ اس جانب دلاتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بھاری قیمت ادا کی ہے۔

ہمارے بہادر جوان، بچے اور شہری اس ناسور کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے ہیں،فتنہ الخوارج کے عزائم کو ہر قیمت پر ناکام بنایا جائے گا۔ہر قسم کی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں ۔عزم استحکام کے ذریعے امن و سلامتی یقینی بنائیں گے،افغان عبوری حکومت اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروپوں کا خاتمہ کرے۔افغانستان میں موجود داعش، القاعدہ، بی ایل اے، مجید بریگیڈ، فتنہ الخوارج اور دیگر دہشت گرد گروپ امن کے لیے خطرہ ہیں۔

وزیراعظم نے دیگر عالمی ایشوز پر بھی بات کی اور کہا کہ موجودہ حالات میں دنیا کو بے پناہ چیلنجز درپیش ہیں، یوکرائن جنگ نے بھی عالمی مسائل پیدا کیے ہیں،موسمیاتی تبدیلیوں سے درپیش چیلنجز میں بھی اضافہ ہوا ہے، دو سال قبل تباہ کن سیلاب سے پاکستان میں 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ عالمی شراکت داروں کے ساتھ مل کر پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے لیے پرعزم ہیں۔100 سے زائد ترقی پذیر ملک قرضوں کے چنگل میں ہیں،عالمی مالیاتی نظام میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ انھوں نے اقوام متحدہ کو بتایا کہ موثر پالیسیوں کی بدولت پاکستان کی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے،معاشی اشاریئے بہتر اور مہنگائی میں کمی ہوئی ہے،بحرانی صورتحال میں معیشت سنبھالی، آج ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔

درپیش چیلنجز کو مواقع میں تبدیل کرنا ہماری ترجیح ہے۔ اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلے پر کام جاری ہے، زراعت، ٹیکنالوجی، آئی ٹی، قابل تجدید توانائی، معدنیات کے شعبوں کی ترقی پر توجہ دے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستانی وفد نے اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کے خطاب کے لیے آنے پر احتجاجاً واک آؤٹ کر دیا اور اسمبلی سے باہر چلے گئے۔ اس موقع پر دیگر ممالک کے وفود نے بھی احتجاجاً نیتن یاہو کی تقریر کا بائیکاٹ کیا۔نیتن یاہو کے اسٹیج پرآتے ہی درجنوں سفارتکار جنرل اسمبلی ہال سے باہر نکل گئے۔

وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں جو باتیں کی ہیں، ان کی سنگینی واضح ہے۔ اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے اس کا نتیجہ سوائے تباہی کے کچھ نہیں نکلے گا۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ اقوام متحدہ میں پاکستان نے نیتن یاہو کے خطاب کا بائیکاٹ کیا تو دیگر ممالک نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ یوں اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو پر واضح ہو گیا کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک اسرائیلی حکومت کی ظالمانہ اور جارحانہ پالیسیوں کے حق میں نہیں ہیں۔ امریکا اور یورپ کی حکومتوں کو بھی ان سنگین حالات کا ادراک کرتے ہوئے اسرائیل کی حمایت سے ہاتھ اٹھانا ہو گا ورنہ مشرق وسطیٰ کے اس آتش فشاں کی لپیٹ میں یورپ بھی آ سکتا ہے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں