[ad_1]
وارن بفٹ دنیا کے نامور سرمایہ کار ہیں‘ یہ امریکا کے شہر اوماہا میں رہتے ہیں‘ یہ امریکا کی 9 بڑی کمپنیوں کے چیئرمین‘ سی ای او یا سربراہ ہیں‘ یہ 2000 سے دنیا کے دس امیر ترین لوگوں کی فہرست میں آ رہے ہیں‘ یہ غریب والدین کی اولاد تھے‘ سرمایہ کاری جینز میں تھی‘بچپن میں بچوں کو کوکا کولا کی بوتلیں سپلائی کرنا شروع کیں اورپھر کبھی مڑ کر نہیں دیکھا‘ یہ اس وقت 133 بلین ڈالر کے مالک ہیں لیکن دولت کے باوجود سادہ زندگی گزارتے ہیں۔
یہ پانچ کمروں کے پرانے گھر میں رہتے ہیں‘ یہ گھر انھوں نے 1958 میں خریدا تھا‘ یہ گھر کا سارا کام خود کرتے ہیں‘ گھر کے سامنے ایک چھوٹی سی کافی شاپ ہے‘ صدر جوبائیڈن ہوں‘ بل گیٹس ہوں یا پھر کسی دوسرے ملک کا سربراہ‘ کاروباری شخصیت یا راک اسٹار جوبھی شخص وارن بفٹ سے ملنا چاہتا ہے وہ ان سے وقت طے کرتا ہے اور اس کافی شاپ میں آجاتا ہے‘ وارن بفٹ طے شدہ وقت پر یہاں آتے ہیں‘ اس شخص سے ملاقات کرتے ہیں اور وقت ختم ہونے پر وہاں سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔
وارن بفٹ نے 2014 میں 2.8 بلین ڈالر بل گیٹس کی فاؤنڈیشن کو خیرات میں دیے‘ یہ امریکا میں ’’امیر لوگوں کو زیادہ ٹیکس دینا چاہیے‘‘ جیسی تحریک بھی چلا رہے ہیں‘ امریکا میں سرمایہ کاروں کو ٹیکس مراعات حاصل ہیں‘ وارن بفٹ ان مراعات کے خلاف ہیں‘ یہ کہتے ہیں میرے منیجر میرے مقابلے میں زیادہ ٹیکس دیتے ہیں‘ یہ معاشرے کے ساتھ ظلم ہے‘ حکومت کو امیروں پر ٹیکس بڑھانا چاہیے اور غریبوں پرٹیکس کا بوجھ کم کرنا چاہیے‘ وارن بفٹ دنیا کے ان چند لوگوں میں بھی شمار ہوتے ہیں جنھوں نے انسانی ذہن کو بے تحاشہ متاثر کیا‘ یہ صوفی منش انسان ہیں‘ آپ صوفیاء کرام کے طرز زندگی کا مطالعہ کریں اور اس کے بعد وارن بفٹ کے شب و روز کا تجزیہ کریں تو آپ کو دونوں میں بے شمار مشترک عادتیں ملیں گی۔
یہ ارب پتی ہونے کے باوجود ذہنی‘ روحانی اور جسمانی لحاظ سے صوفی ہیں‘ یہ ٹینشن فری زندگی گزارتے ہیں‘ ذاتی زندگی میں کنجوس ہیں‘ خوراک‘ کپڑوں اور گاڑیوں پر رقم ضایع نہیں کرتے‘ یہ‘ تعیشات سے بھی پاک ہیں‘ نمودو نمائش کے خلاف ہیں‘ دولت کے اصراف کو گناہ سمجھتے ہیں‘ ریستورانوں سے صرف اتنا کھانا خریدتے ہیں جتنی انھیں ضرورت ہوتی ہے لیکن ضرورت مندوں کے لیے ان کا دل انتہائی کھلا ہے‘ آپ پورے عالم اسلام سے کوئی ایک ایسا رئیس شخص دکھا دیجیے جو ہر سال اربوں ڈالر چیریٹی کرتا ہو جب کہ وارن بفٹ ہر سال یہ کرتے ہیں‘ یہ چیریٹی کرتے وقت مذہب‘ نسل اور ملک سے بالاتر ہو جاتے ہیں‘ ان کی دولت دنیا کے 245 ممالک کے ضرورت مندوں کے کام آتی ہے اور یہ ان کے انتقال کے بعد بھی کام آئے گی مگر یہ دولت اور ان کا طرز زندگی ہمارا موضوع نہیں‘ ہمارا موضوع سرمایہ کاری اور دولت کے بارے میں ان کا فلسفہ حیات ہے۔
وارن بفٹ نے نئے سرمایہ کاروں‘ خوش حال زندگی گزارنے کے خواہش مند مڈل کلاسیوں اور آمدنی میں اضافے کے متمنی لوگوں کے لیے چھ اصول وضع کیے ہیں‘ یہ چھ اصول وارن بفٹ کی کام یابی کے گُر ہیں‘ یہ گُر دنیا کے عظیم سرمایہ کار فلاسفر کی کاروباری زندگی کا نچوڑ ہیں‘ میں یہ نچوڑ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں‘ آپ اگر تھوڑی سی توجہ دیں تو یہ گُر آپ کی زندگی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں‘ وارن بفٹ کا پہلا گُر آمدنی سے متعلق ہے‘ ان کا کہنا ہے‘ انسان کو کبھی ایک ذریعہ معاش پر انحصار نہیں کرنا چاہیے‘ اس کا کوئی نہ کوئی دوسرا ’’سورس آف انکم‘‘ ضرور ہونا چاہیے۔
میں وارن بفٹ کے اس نقطے سے اتفاق کرتا ہوں‘ دنیا میں ہر وہ شخص معاشی دباؤ کا شکار رہتا ہے جس کی آمدنی کا ذریعہ ایک ہوتا ہے‘ آپ نوکری کرتے ہوں یا کاروبار آپ روزانہ اتار چڑھاؤ سے گزرتے ہیں‘ دنیا میں کوئی نوکری‘ کوئی کاروبار مستقل نہیں ہوتا چناںچہ آپ جب بھی کسی ایک ذریعے پر انحصار کریں گے تو آپ پر دباؤ ضرور آئے گا لہٰذا آپ کو آمدنی کے دو سے تین مختلف ذرایع پیدا کرنے چاہئیں‘ آپ اگر میاں بیوی ہیں تو آپ دونوں کو کام کرنا چاہیے اور دونوں کا کام مختلف ہونا چاہیے تاکہ اگر کسی ایک کا کام یا جاب ختم ہو جائے تو بھی گھر چلتا رہے۔
دنیا کا بہتر ماڈل کام‘ بزنس اور سرمایہ کاری ہے یعنی اگر گھر کا ایک فرد جاب کرتا ہے تو دوسرے کو کاروبار کرنا چاہیے اور یہ دونوں جو کما رہے ہیں اس کا ایک حصہ سرمایہ کاری میں لگنا چاہیے‘ ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کے چار بڑے ذرایع ہیں‘ اسٹاک ایکسچینج‘ بینک میں ماہانہ یا سالانہ بنیاد پر فکس ڈیپازٹ‘ پراپرٹی میں سرمایہ کاری یا پھر پرافٹ اور لاس کی بنیاد پر کسی کاروباری ادارے میں رقم لگا دینا۔
یہ سرمایہ کاری آپ کے گھر کے اخراجات میں سہولت پیدا کردے گی تاہم آپ خواہ ارب پتی ہی کیوں نہ ہوں آپ کی آمدنی کا ذریعہ ایک نہیں ہونا چاہیے‘ آپ کے دو یا تین سورس آف انکم ہونے چاہئیں‘ وارن بفٹ کا دوسرا اصول اخراجات سے متعلق ہے‘وارن بفٹ کا کہنا ہے آپ کو صرف ضرورت کی اشیاء خریدنی چاہئیں‘ آپ بلا ضرورت رقم خرچ نہ کریں‘ وارن بفٹ مثال دیتے ہیں‘ میں بے شمار ایسے لوگوں سے واقف ہوں جو بلاضرورت اشیاء خریدنے کی عادت میں مبتلا تھے لیکن انھیں بعد ازاں اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے ایسی اشیا ء بیچنا پڑیں جو ان کے لیے انتہائی ضروری اور اہم تھیں۔
میں وارن بفٹ کی اس بات سے بھی اتفاق کرتا ہوں‘ ہم جب بھی کوئی چیز خریدیں ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال ضرور پوچھنا چاہیے‘ کیا یہ چیز میرے لیے ضروری ہے یا میں اس چیز کے بغیر بھی گزارہ کر سکتا ہوں؟ ہمیں ان سوالوں کے جواب کے بعد خرید و فروخت کا فیصلہ کرنا چاہیے‘ ہم یہ عادت اپنا لیں گے تو ہمارے معاشی دباؤ میں کمی آ جائے گی‘ وارن بفٹ کا تیسرا اصول بچت سے متعلق ہے‘ وارن بفٹ کا کہنا ہے‘ دنیا کے زیادہ تر لوگ اخراجات سے بچنے والی رقم کو بچت سمجھتے ہیں‘ یہ تصور غلط ہے‘ انسان کو چاہیے یہ اسے بچت نہ سمجھے جو خرچ کرنے کے بعد باقی بچ جائے بلکہ اسے وہ خرچ کرنا چاہیے جو بچت کے بعد باقی بچ جائے‘ یہ کہتے ہیں آپ عملی زندگی میں داخل ہوتے ہی یہ فیصلہ کر لیں آپ اپنی آمدنی کا اتنے فیصد بچائیں گے‘ آپ کے ہاتھ میں جوں ہی رقم آئے آپ سب سے پہلے اس میں سے بچت الگ کریں اور باقی رقم اس کے بعد خرچ کریں‘ آپ پوری زندگی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔
یہ فارمولا بھی پریکٹیکل اور کام یاب ہے‘ آپ آج سے اس پر عمل شروع کریں‘ آپ تین ماہ میں اس کے نتائج دیکھیں گے‘ وارن بفٹ کا چوتھا اصول سرمایہ کاری سے متعلق ہے‘ یہ اپنی پوری سرمایہ کار زندگی کو صرف ایک فقرے میں بیان کرتے ہیں‘ یہ کہتے ہیں ’’ میں نے کبھی اپنے تمام انڈے ایک ٹوکری میں نہیں رکھے‘‘ یہ کہتے ہیں‘ آپ اپنی بچت کو کبھی کسی ایک سیکٹر میں نہ لگائیں کیوںکہ اگر یہ شعبہ بیٹھ گیا تو آپ کی ساری سرمایہ کاری پھنس جائے گی‘ آپ آٹھ سے دس شعبوں کی فہرست بنائیں اور اپنی بچت ان تمام شعبوں میں پھیلا دیں‘ آپ کو کبھی گھاٹا نہیں پڑے گا۔
وارن بفٹ کا پانچواں اصول رسک سے متعلق ہے‘ یہ کہتے ہیں لوگ دریاؤں میں اندھا دھند چھلانگ لگانے کو رسک کہتے ہیں جب کہ یہ رسک‘ رسک نہیں خودکشی ہوتی ہے‘آپ دریا کو دریا سمجھیں‘ اسے خطرناک جانیں‘ آپ کبھی اس کی گہرائی ماپنے کے لیے اس میں پاؤں نہ ڈالیں‘ وارن بفٹ کا یہ نقطہ خاصا مشکل ہے‘ یہ شاید اس اصول کے ذریعے یہ سمجھانا چاہتے ہیں‘ انسان کو اپنی غلطیوں سے سیکھنے کے بجائے دوسروں کی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے‘ آپ خود رسک لینے کے بجائے دوسروں کے رسک سے سیکھیں‘ آپ دریا کی گہرائی ماپنے کے لیے خود دریا میں نہ اتریں‘ آپ دریا کے کنارے نصب بورڈ پڑھ لیں یا پھر دریا کے کسی ماہر سے پوچھ لیں‘ یہ بتانا چاہتے ہیں ہمیں زندگی میں رسک لینے سے قبل باقاعدہ ریسرچ کرنی چاہیے‘ لوگوں سے مشورہ کرنا چاہیے اورکثرت رائے سے فیصلہ کرنا چاہیے۔
اور وارن بفٹ کا چھٹا اور آخری اصول توقعات سے متعلق ہے‘ یہ کہتے ہیں‘ ایمان داری قیمتی تحفہ ہے‘ آپ سستے لوگوں سے اس کی توقع نہ رکھیں‘ میں وارن بفٹ کی اس بات سے بھی اتفاق کرتا ہوں‘ ہم اعتماد کی وجہ سے 80 فیصد دھوکے کھاتے ہیں‘ آپ لوگوں پر اندھے اعتماد کے بجائے سوچ سمجھ کر فیصلے کریں ‘ آپ 80 فیصد دھوکوں سے بچ جائیں گے‘ ہم سرمایہ کاری کے لیے ہمیشہ دوسروں پر اعتماد کرتے ہیں‘ ہم لوگوں کو ظاہری حلیے کی بنیاد پر ایمان دار یا بے ایمان سمجھ بیٹھتے ہیں اور یہاں سے ہمارے معاشی مسائل شروع ہو جاتے ہیں‘ آپ دوسروں پر اندھے اعتماد کے بجائے ٹھوک بجا کر سرمایہ کاری کریں‘ اپنی تسلی کریں‘ کاغذی کارروائی مکمل کریں اور وقت پر قسطیں ادا کریں ‘آپ کو کبھی شرمندگی یا پریشانی نہیں ہوگی۔
وارن بفٹ کے یہ چھ اصول صرف فلسفہ نہیں ہیں‘ یہ ان کی عمر بھر کے تجربات کی کمائی ہیں‘ یہ وہ اصول ہیں جنھوں نے معمولی غریب انسان کو دنیا کا چھٹا امیر ترین شخص بنایا‘ ہم اگر ان اصولوں کو رہنما مان لیں تو ہم ارب پتی نہ بھی بنیں تو بھی ہم ایک خوش حال زندگی ضرور گزار سکتے ہیں‘باقی آپ خود سمجھ دار ہیں۔
[ad_2]
Source link