59

آئینی عدالت کے مطالبے کو عملی جامہ پہنانے کا جا رہے ہیں، شرجیل میمن

[ad_1]

شرجیل میمن نے مطالبہ کیا کہ افتخار چوہدری اور ثاقب نثار سے مراعات بھی واپس لی جائیں—فوٹو: ایکسپریس

شرجیل میمن نے مطالبہ کیا کہ افتخار چوہدری اور ثاقب نثار سے مراعات بھی واپس لی جائیں—فوٹو: ایکسپریس

  کراچی: پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ میثاق جمہوریت میں پی پی پی اور مسلم لیگ(ن) میں آئینی عدالتوں کے قیام پر اتفاق ہوا تھا اور اس کو عملی جامہ پہنانے جا رہے ہیں۔

ایکسپو سینٹر کراچی میں متبادل توانائی کے حوالے سے پاکستان سسٹینبلٹی ویک کے نام سے ہونے والی نمائش کے افتتاح کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر وزیر  شرجیل انعام میمن نے کہا کہ آئینی عدالتوں کا قیام پیپلز پارٹی کا دیرینہ مطالبہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت پر دستخط کرتے وقت  بھی پاکستان پیپلز پارٹی  نے  آئینی عدالتوں کے قیام کا مطالبہ کیا تھا، پاکستان پیپلز پارٹی  اور مسلم لیگ (ن) میں آئینی عدالتوں کے قیام پر اتفاق ہوا تھا اور اب اس مطالبے کو عملی جامہ پہنانے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی چاہتی ہے کہ عوام کو فوری اور گھر کے دروازے پر انصاف مل سکے، یہاں لوگوں کو بیس بیس سال تک انصاف نہیں ملتا، ہمیں شہید ذوالفقار علی بھٹو کے قتل  میں بھی ابھی تک انصاف نہیں ملا۔

انہوں نے کہا کہ افتخار چوہدری اور ثاقب نثار ملک کے عدالتی نظام پر بدنما داغ ہیں، افتخار چوہدری اور ثاقب نثار ملکی عدالتی  تاریخ میں سیاہ باب کے طور پر جانے جائیں گے، افتخار چوہدری اور ثاقب نثار  نے جو کچھ کیا اس پر ان کو سابق چیف جسٹس بھی نہیں کہا جائے، ان سے مراعات بھی واپس لے لی جائیں، ثاقب نثار بتائیں کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ ڈیم بنانا ان کا کام  تھا۔

سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا کہ گزشتہ روز 16 برس بعد شہید  محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کیس کی سماعت ہوئی ، پھر قتل کیس کی  سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی، اس ملک کی عدالتوں کے پاس شہید بی بی کے قتل کے مقدمے کے لیے وقت نہیں، کیا یہ ہمارے لیے شرم ناک نہیں، عدالتوں کے پاس نسلہ ٹاور  کیس کے لیے وقت ہے، بنی گالہ ریگیولرائز کرنے کے لیے وقت ہے لیکن اپنے محسنوں کے  مقدمات سننے کے لیے وقت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی  فائز عیسیٰ ہوں یا جسٹس  منصور علی شاہ، ہمارے لیے دونوں ہی قابل احترام ہیں، کوئی بھی جج یا چیف جسٹس آجائے ہمیں فرق نہیں پڑتا، جوڈیشل ایکٹوازم کا سب سے بڑا نقصا ن پیپلز پارٹی  کو اٹھانا پڑا ہے، لیکن ہم نے کبھی عدلیہ سے محاذ آرائی نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز بانی پی ٹی آئی نے جیل سے کہا ہے کہ میں فلاں جج کی حمایت کرتا ہوں، کیا سیاسی جماعتوں کو اس طرح ججوں کا نام لینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہم  عدالتی نظام میں بہتری کی بات کرتے ہیں، اگر  ڈکیتی کی سزا 12 سال ہے  تو اس  مقدمے کا ملزم 25 سال جیل کاٹتا ہے، 25 سال بعد فیصلہ آتا ہے تو باقی برسوں کی قید کا حساب کون دے گا۔

شرجیل میمن نے کہا کہ پرویز مشرف جیسے ڈکٹیٹر کی غیر آئینی حکومت کو عدلیہ نے موقع دیا، جیل میں بیٹھے بانی پی ٹی آئی نے متعدد غیر قانونی کام کیے لیکن اس کے ساتھ کچھ نہیں ہوا بلکہ وہ ہمیشہ خود کو مظلوم بنا کر چور دروازے سے اقتدار میں آتے ہیں، عدالتوں کی جانب سے پی ٹی آئی کو وہ بھی دیا گیا جو انہوں نے نہیں مانگا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ مخصوص  نشستیں سنی اتحاد کونسل نے مانگی تھیں لیکن پی ٹی آئی کو دی گئیں، ذاتی خواہشوں کے مطابق فیصلے دینے کا سلسلہ بند کیا جائے اور آئین کی کتاب کے تحت چلیں، دنیا کے تمام مہذب ممالک میں پارلیمنٹ سپریم ہے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں