[ad_1]
آج سے تقریباً ساڑھے آٹھ سو سال پہلے موجودہ اسپین میں اس وقت کی مسلم سلطنتِ اندلسیہ کے خلیفہ سلطان عبدالرحمٰن ایک قابل،مہربان اور عہدساز حکمران تھے۔ابنِ اثیر کی کتاب تاریخ الکامل میں درج ہے کہ اس خلیفہ کے دور میں سلطنت کو شدید قحط سالی نے آ گھیرا۔کھیت کھلیان اجڑنے لگے،مویشی مرنے شروع ہو گئے اور عوام کی جان پر بن آئی۔خلیفہ نے ہر طرح کی تدبیریں کر لیں لیکن قحط اتنا شدید تھا کہ کوئی مداوا نہ ہوا۔لوگوں کی مشکلات اور بدحالی کو دیکھ کر خلیفہ بہت پریشان تھا۔مسلم اسپین میں اس وقت ایک بہت بڑے اسکالر جناب قاضی منذر تھے۔
وہ علم و فضل میں اپنے وقت میں یکتا تو تھے ہی لیکن علمِ فقہ میں بھی ایک مقام کے حامل تھے۔فقہی معاملات میں ان کی دسترس کی وجہ سے وہ جوڈیشری میں اعلٰی عہدے پر فائز تھے۔ خلیفہ کو جب اور کچھ نہیں سوجھ رہا تھا تو اس نے اپنے ایک اسپیشل اسسٹنٹ کو قاضی منذر کے پاس بھیجا۔ اسپیشل اسسٹنٹ قاضی صاحب کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی کہ مجھے خلیفہ نے آپ کی خدمت میں اس درخواست کے ساتھ حاضر ہونے کا کہا ہے کہ آپ دعا فرمائیں، مخلوقِ خدا بہت مشکل میں ہے۔خدا اپنے نہایت لطف و کرم سے رحمت کی بارشیں برسا دے تا کہ سلطنت میں زندگی معمول پر آ جائے۔ قاضی منذر نے خلیفہ کے اسپیشل اسسٹنٹ سے کہا کہ خلیفہ نے آپ کو تو ہمارے پاس بھیج دیا لیکن یہ بتائیں کہ خلیفہ خود کیا کر رہا ہے۔
اسپیشل اسسٹنٹ نے عرض کی کہ جس وقت میں روانہ ہورہا تھا،اس وقت میں نے خلیفہ کو جتنا پریشان دیکھا ایسا میں نے اس سے پہلے نہیں دیکھا۔میں نے دیکھا کہ انتہائی پریشان حالی میں خلیفہ تخت سے اترا، اس نے اپنا تاج جلدی میں سر سے اتارا،پاؤں سے جوتے اجلت میںجدا کیے اور زمین پر پیشانی رگڑنی شروع کر دی۔
خلیفہ سربسجود ہو کر کہہ رہا تھا کہ اے خدا میں تیرا بندہ ہوں،کیا تو اپنے اس عاجز بندے کی خطاؤں اور کوتاہیوں کی وجہ سے اپنے بندوں کو ہلاک کر دے گا حالانکہ تو ارحم الرحمین ہے۔قاضی منذر نے کہا کہ اگر تو سچ کہہ رہا ہے تو بارش کے ساتھ واپس جا کیونکہ بادشاہ جب اس عجز و انکساری پر اتر آئے تو آسمانوں اور زمین غرضیکہ تمام کائنات کا بادشاہ لطف و کرم کی نظر کرتا ہے۔اسپیشل اسسٹنٹ یہ خوشخبری سن کر واپس روانہ ہو گیا اور جب وہ خلیفہ کے محل میں داخل ہو رہا تھا تو بارش شروع ہو چکی تھی۔ابن اثیر خلیفہ عبدالرحمٰن کے ہم عصر تھے اور یہ واقعہ ان کی زندگی میں ہی پیش آیا۔
دعا کیا ہے۔انسانی زندگی میں اس کی کیا اہمیت ہے۔اس سے کیا ہوتا ہے،یہ اور اس سے جڑے سیکڑوں سوالات ذہنوں کے پردوں پر ابھرتے اور خواہش پیدا کرتے ہیں کہ ان کا تسلی بخش جواب میسر آئے۔انسان کو زندگی گزارنے کے لیے جو نعمتیں عطا کی گئی ہیں دعا ان میں سے ایک بہت اہم نعمت ہے۔ اگر ہم غور کریں تو لگتا ہے کہ اﷲ نے اپنی مخلوق میں سے یہ نعمت صرف انسان کو ہی عطا کی ہے۔
زمین پر پرشکوہ فلک بوس پہاڑ خود اپنی بڑائی اور عظمت کی دلیل ہیں لیکن یہ دعا کی نعمت سے محروم ہیں۔اگر درختوں کے فوائد شمار کرنا چاہیں تو شاید سارے شمار نہ کر پائیں لیکن یہ کبھی اپنی پیشانی زمین پر رکھ کر سجدہ ریز ہوتے ہوئے دعا نہیں مانگ سکتے۔بہت بڑے بڑے پتھر اور چٹانیں ندی نالوں اور بپھرے تند و تیز پانیوں کو اپنا رخ تبدیل کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں لیکن یہ دعا کی نعمت سے محروم ہیں۔سورج اور سورج سے لاکھوں کروڑوں گنا بڑے اجرامِ فلکی آسمانوں کی زینت ہیں۔
یہ ہر آن اپنی ڈیوٹی دے رہے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی نعمتِ دعا سے فیض یاب نہیں ہو پاتا۔یہ نعمتِ عظیم صرف انسان کو عطا ہوئی ہے کیونکہ انسان ہی احسنِ تقویم ہے۔انسان ہی صرف اپنے خدا تک پہنچ سکتا ہے ۔دعا صرف انسان کرتا ہے اور صرف اﷲ سے کی جاتی ہے۔انگریزی میں دعا کے لیے Prayerکا لفظ ہے لیکن یہ لفظ کبھی دعا اور کبھی پوجا کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
عربی میں پوجا کے لیے عبادت اور التجا کرنے، مانگنے،پکارنے اور گڑگڑانے کے لیے دعا کا لفظ موجود ہے۔ دعا کو عبادت کا مغز کہا جاتا ہے۔بعض علما کہتے ہیں کہ دعا ہی عبادت ہے۔عبادت خدا تک پہنچنے کا نام ہے،خدا سے جڑنے کا نام ہے اور دعا کے ذریعے اپنی مطلوبہ شے حاصل کی جاتی ہے۔دعا و عبادت کے ذریعے خود خدا کو پا سکتے ہیں اور خدا کو پا لینے سے بڑھ کر اور کیا مطلوب و مقصود ہو سکتا ہے۔
دعاؤں کی بے شمار چھوٹی بڑی کتب مل جاتی ہیں۔ ہم میں سے اکثر افراد کچھ دعاؤں کو یاد کر لیتے ہیں اور پھر ان دعاؤں کو مانگتے رہتے ہیں۔یہ دعائیں زیادہ تر عربی میں ہوتی ہیں اور ہم ان کے الفاظ کو سمجھے،جانے اور ان پر غور و فکر کیے بغیر رٹے رٹائے الفاظ میں دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔دعا تو دل کی تڑپ،دل کی صدا کا نام ہے۔بقول داغ دہلوی دعا وہی ہے جو دل سے کبھی نکلتی ہے۔دعا میں الفاظ تو یقینی طور پر ہوتے ہیں لیکن وہ دل کی کیفیت سے پھوٹتے ہیں۔جب انسان اپنے آپ کو مکمل لا چار،بے بس اور بے اختیار جان کر انتہائی عاجزی میں گڑگڑاتے ہوئے مانگتا ہے تو کائنات کا رب،بندے کا مطلوب و مقصود اسے عطا کر دیتا ہے۔
دعا کی قبولیت کے لیے لازم ہے کہ عربی الفاظ کا مطلب جانا جائے اور اپنے آپ کو اس کیفیت سے آشنا کیا جائے۔دل سے مانگی گئی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ ہم قرآن بھی سمجھے،اس پر غور کیے بغیر پڑھتے رہتے ہیں،اسی لیے اس انقلابِ عظیم سے محروم رہتے ہیں جو قرآن پر غور و فکر کرنے والے کے تن بدن میں پیدا ہوتا ہے۔سید علی ہجویری داتا گنج بخش اپنی کتاب کشف المحجوب میں فرماتے ہیں کہ کتنے ہی ایسے ہیں جو اﷲ کی یاد میں مصروف ہو کر اﷲ کو بھول جاتے ہیں۔ہاں یہ سچ ہے کہ ہم بظاہر اﷲ اﷲ کہہ رہے ہوتے ہیں لیکن ہمارا دھیان،ہمارے خیالات کہیں اور ہوتے ہیں۔اس طرح ہم بظاہر اﷲ اﷲ کہتے ہوئے،اﷲ کو یاد کرتے ہوئے اﷲ کو بھول جاتے ہیں۔
دعا کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ ہم پوری توجہ اور حضوری کی حالت میں اپنے آپ کو بے بس اور بے اختیار سمجھتے ہوئے آل پاورفل ہستی کے سامنے گڑگڑائیں۔اس حالت میں مانگیں کہ پوری توجہ ہو جو ہر قسم کے ذہنی انتشار سے مکمل پاک ہو۔بندہ یہ جانے کہ میں انتہائی بے بس،لاچار اور عاجز ہوں،میری دادرسی میرا آل پاورفل رب ہی کر سکتا ہے۔دعا کی قبولیت کا بہترین موقع نماز کے دوران سجدہ کی حالت میں ہے۔اگر یہ کیفیت سجدہ کے اندر پیدا ہو جائے تو دعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ایک روایت میں ارشاد ہے کہ جس کے لیے دعا کا دروازہ کھل گیا،اس کے لیے رحمت کے دروازے وا ہو گئے۔حقیقی دعا کو جاننے کا معیار یہ نہیں ہے کہ وہ قبول ہو گئی اور مثبت نتائج سامنے آ گئے۔
یہ عین ممکن ہے کہ بظاہر دعا قبول نہ ہوئی ہو۔ دعا نے ضرور قبول ہونا ہے۔کبھی تو یہیں مثبت نتائج سامنے آ جاتے ہیں،کبھی اس کے طفیل کوئی شر ،بلا و تکلیف ٹل جاتی ہے اور کبھی اس کو آخرت کے لیے اسٹور کر لیا جاتا ہے۔اﷲ نے قرآن میں دعا کی قبولیت کا وعدہ کیا ہے۔سورۃ بقرہ میں ارشادِ ربانی ہے کہ اے ایمان والو صبر اور صلوٰۃ سے مدد حاصل کرو۔یہ بھی فرمایا کہ میرے بندے جب تم سے سوال کریں تو انھیں بتا دیں کہ میں ان کے قریب ہوں،ان کی دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہوں۔اس ارشاد کی روشنی میں اﷲ کے حضور گڑ گڑا کر پورے یقین کے ساتھ دعا کرتے رہیں اور صبر سے اس کی باریابی و قبولیت کی توقع رکھیں۔بقول حفیظ جالندھری۔کوئی چارہ نہیں دعا کے سوا، کوئی سنتا نہیں خدا کے سوا۔
[ad_2]
Source link