36

پوائنٹ آف نو ریٹرن

سیاست اور جمہوریت کی کامیابی میں ایک بنیادی کنجی آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا اور نئے سیاسی امکانات کو پیدا کرنا ہوتا ہے ۔کیونکہ سیاست اگر ڈیڈ لاک کا شکار ہوجائے، باہمی تعاون کا راستہ بند ہوجائے تو آپس میں دست وگریباں ہونے اور تصادم کا خطرہ غالب ہوجاتا ہے ۔ایک دوسرے پر عدم اعتماد محض سیاست ہی کو نہیں بلکہ مجموعی نظام کو بھی جامد کردیتا ہے جو نئے بگاڑ کو بھی پیدا کرتا ہے ۔ہمارا سیاسی وجمہوری ، آئینی و قانونی نظام اس وقت ایک ڈیڈ لاک کا منظر پیش کررہا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ ہم نے خود کو ایک بڑے الجھاؤ کے ماحول میں قید کرلیا ہے ۔ اصولوں کی بجائے ہم ذاتی انا کا شکار ہورہے ہیں ۔ اس قسم کی سیاست ہم سب کو ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑا کر رہی ہے اور ہم تناؤ، محاذ آرائی یا بگاڑ کے کھیل میں شعوری یا لاشعوری طور پر حصہ دار بن گئے ہیں ۔

مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے آٹھ ججز کے تفصیلی فیصلے اور دیگر آئینی گورکھ دھندے نے نئے نئے سوالات کھڑے کردیے ہیں ۔ حکومت اور الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیلز کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے، الیکشن کمیشن اپنے دیگر قانونی آپشنز پر غور کررہا ہے، پی ٹی آئی پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے خلاف عدالت پہنچ گئی ہے۔ جب کہ مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے آٹھ ججز کے فیصلے پر عملدرآمد بھی نہیں ہورہا ہے۔ تفصیلی فیصلہ کو نہ صرف ماننے سے انکار کردیا بلکہ اس پر عملدرآمد سے بھی انکار کیا گیا ہے ۔ یوں ایک ڈیڈ لاک نظر آرہا ہے۔

مخصوص نشتوں کا فیصلہ دینے والے ججوں پر حکومت اور اس کے حامیوں کی جانب سے شدید تنقید ہو رہی ہے۔عدالتی فیصلہ کس حد تک درست ہے یا غلط ہے، اس سے قطع نظر عدالتی فیصلوں پر تنقید کرنا تو سمجھ میں آتا ہے مگر ذاتیات تک آنا درست بات نہیں ہے۔اسی طرح یہ لڑائی محض حکومت اور عدلیہ تک محدود نہیں بلکہ معاشرے تک پہنچ چکی ہے۔ سب کو ایک دوسرے کے خلاف بہت سی شکایات یا تحفظات ہیں جو نئے تنازعات کو جنم دینے کا سبب بن رہے ہیں۔مسئلہ محض حکومت تک محدود نہیں رہا بلکہ خود الیکشن کمیشن جو ایک آئینی اور خود مختارادارہ ہے وہ بھی عدالتی فیصلے اور پارلیمنٹ کے درمیان پھنس گیا ہے ۔

حکومت کی مشکل یہ ہے کہ وہ پہلے سے ایک مشکل پوزیشن پر کھڑی ہے ۔کیونکہ جس مجوزہ آئینی ترامیم کے پیکیج کی منظوری پر اسے سیاسی سبکی کا سامنا ہے وہیں سیاسی محاذ پر حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان جاری سرد جنگ نے بھی سیاسی ماحول کو آلودہ بنا دیا ہے۔ یوں ملک کو سیاسی اور قانونی ساکھ کے بحران کا سامنا ہے ۔ بنیادی طور پر یہ سارا بحران اختیارات کی جنگ ہے اور اس نے پہلے سے چلے آرہے بحران کو بھی گہرا کردیا ہے ۔ایسے لگتا ہے کہ اس بحران میں مہم جوئی کا یہ کھیل سیاسی و ریاستی نظام کو مختلف خطرات سے بھی دوچار کررہا ہے ۔ لیکن ایسے لگتا ہے کہ ریاستی مفادات سے زیادہ سیاسی مفادات کی اہمیت بڑھ گئی ہے ۔

’’پارلیمان کی سپرمیسی ‘‘ کو کوئی نظرانداز نہیں کرسکتا مگر کیا  عدلیہ پارلیمنٹ کے ماتحت ادارہ ہے؟ کیا الیکشن کمیشن کو ماتحت ادارہ ہے؟ کیا عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد سے انکار کرنے کا عمل پارلیمان کی بالادستی کوقائم رکھ سکے گا۔ کیا الیکشن کمیشن کے فیصلوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے ، اس کا جواب بھی پارلیمان کو ہی دینا ہے ۔ریاستی و حکومتی اداروں کے درمیان اختیارات اور اس کے دائرہ کار کا توازن ہی جمہوری عمل یا قانون کی حکمرانی قائم کرتا ہے اور یہ ہی عمل ہماری اہم ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔

لیکن ایسا لگتا ہے کہ جو سیاسی تنازعات قومی سیاست میں موجود ہیں وہ حل ہونے کی بجائے پیچیدگی کا شکار ہورہے ہیں ۔سیاسی اورقانونی الجھنیں اور زیادہ بڑھ گئی ہیں ۔جب ہم آئینی اداروں کے درمیان توازن قائم نہیں کریں گے ، حالات میں تبدیلی نہیں آئے گا۔ حالات کی خرابی کی جو بھی وجہ ہو، اس کی ذمے دار جہاں حکومت ہوگی وہیں پارلیمنٹیرینز پر بھی ذمے داری عائد ہوگی کہ وہ اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہے۔

یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ہم اپنے ادارہ جاتی نظام میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور باہمی تصادم کی یہ پالیسی ریاست کے مفاد میں نہیں ہے ۔ جب ملک کی معیشت آئی ایم ایف کے سہارے کھڑی ہے تو حالات کی سنگینی اور زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔ بنیادی طور پر حکومت دو تہائی اکثریت چاہتی ہے اور اس عمل میں سپریم کورٹ کا مخصوص نشستوں کا فیصلہ رکاوٹ پیدا کر رہاہے اور حکومت کو لگتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوتا ہے تو اس سے حکومت کی اپنے اقتدار پر گرفت اور زیادہ کمزور ہوگی ۔یہ ہی وجہ ہے کہ حکومت مجوزہ آئینی ترامیم کی منظوری کو اپنی سیاسی بقا کے ساتھ جوڑ کر دیکھ رہی ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ۔

حکومت کی کوشش ہے کہ عدالت کے مخصوص نشستوں سے متعلق حکم نامے پر عملدرآمد کو روکا جاسکے ۔اسپیکر قومی اسمبلی کا خط الیکشن کمیشن کو کہ اس الیکشن ایکٹ کی ترمیم کے بعد عدالتی حکم کی تعمیل نہیں ہوسکتی ۔ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حق ہے، اس کو سامنے رکھ کر قانون سازی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

اگر ایسا ہوتا ہے تو یقینی طور پر یہ ایک بڑے ٹکراؤ کے ماحول کو پیدا کرے گا۔ یہ بھی درست ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو انتخابات میں حصہ لینے کے بنیادی حق سے محروم نہیں کیاجاسکتا اور اس کی پارلیمانی حیثیت کو بھی چیلنج نہیں کیا جاسکتا تو ہم خود ایک بڑے بحران کو دعوت دینے کا سبب بن رہے ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ آٹھ پانچ سے آیا ہے مگر جن ججز نے اپنا اختلافی نوٹ لکھا ہے ، ان کے مطابق بھی پی ٹی آئی ایک پارلیمانی جماعت ہے اور اسے مخصوص نشستوں سے محروم نہیں کیا جاسکتا ۔اس لیے اکثریتی فیصلہ تسلیم کرنے سے ہی جمہوری اور قانونی نظام آگے بڑھ سکتا ہے ۔اگر ہم نے خود کو ٹکراؤ سے نہ بچایا تو کسی کو کچھ نہیں ملے گا اور ریاست کا بحران اور زیادہ پیچیدہ ہوجائے گا۔

The post پوائنٹ آف نو ریٹرن appeared first on ایکسپریس اردو.



Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں