[ad_1]
آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے سات ارب ڈالرکے نئے پیکیج کی منظوری دے دی ہے۔ دوسری جانب ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کی معاشی ترقی میں بہتری، افراطِ زرمیں مزید کمی کی پیش گوئی کردی ہے، جس کی بنیادی وجہ زرعی آمدنی میں اضافہ اور بیرون ملک سے موصول ہونے والی ترسیلات زر ہیں جب کہ جی ڈی پی کی شرح 2.8 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔
پاکستان اب تک کئی مرتبہ آئی ایم ایف سے قرض لے چکا ہے، موجودہ سات ارب ڈالرکا پروگرام لینے کے لیے حکومت کو بجٹ میں عالمی ادارے کی تمام شرائط پوری کرنا پڑیں، جس پر اِس بجٹ کو آئی ایم ایف دوست بجٹ کا نام دیا گیا تھا۔ حالیہ دنوں میں پالیسی ریٹ میں 2 فیصد کمی سے ملک میں سرمایہ کاری اورکاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا۔
یہ معاہدے طے پا جانے کے بعد اب پاکستان کو معیشت کے تمام شعبوں خصوصاً محصولات کی وصولی اور اخراجات میں کفایت شعاری اختیارکرنے، توانائی، پینشن اور خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں میں اصلاحات متعارف کرانے کا ایک بار پھر موقع ملے گا۔ اس وقت عالمی مارکیٹ میں تیل کی کم ہوتی ہوئی قیمتوں کو مدِنظر رکھنا چاہیے کیوں کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت سے پاکستان کا درآمدی بل بڑھتا ہے۔
رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں محصولات جمع کرنے کے اہداف پورے کرنے کے روشن امکانات ہیں کیوں کہ ستمبر میں کم پالیسی ریٹ اور حالیہ مہینوں میں حکومتی سطح پر دیگر اقدامات کی وجہ سے اقتصادی سرگرمیوں اور درآمدات میں اضافہ کی توقع کی جا رہی ہے۔ قدر زر ایک سطح پر اور ایک حد تک مستحکم ہوچکی ہے۔ ایک عرصہ ہوگیا ہے کہ ڈالر نے ہلکی پھلکی بھی اڑان نہیں بھری ہے۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بھی اتنے ہی بھرے ہوئے ہیں جتنے ہونا چاہئیں۔ توازن تجارت کی حالت بھی تسلی بخش ہے گو ہماری درآمدات ویسے ہی اشیاء تعیش اور کئی غیر ضروری اشیاء پر مشتمل ہے لیکن اس کے باوجود معاملات قابو میں نظر آرہے ہیں، ٹیکس وصولیوں کی صورتحال بھی تسلی بخش نظر آرہی ہے۔
ایک جانب پاکستان اگلے 37 ماہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں رہے گا جس سے اس کے ڈیفالٹ میں جانے کے خدشات تقریباً ختم ہوجاتے ہیں جب کہ دوسری جانب تیل کی قیمتوں میں کمی سے ملک کے تجارتی خسارے کو قابو میں رکھنے میں مدد ملے گی۔ ایسا کرنے سے پاکستان کے پاس قیمتی زر ِمبادلہ کے ذخائر بہتر کرنے، انھیں یکجا کرنے اور قرضوں کی اقساط ادا کرنے میں خاصی آسانی مل سکتی ہے، لیکن حکومت کے لیے ٹاسک صرف یہیں تک محدود نہیں۔ اصل کام اس بہتر ماحول میں اصلاحات متعارف کرانے کا ہے۔ حکومت کو اپنا خسارہ پورا کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنی آمدن بڑھانی ہوگی۔ حکومت نے رواں مالی سال کے لیے آئی ایم ایف کی ہدایات کی روشنی میں جو ریونیو ٹارگٹ رکھا ہے اسے پورا کرنا ہوگا۔
ایک جانب حکومت فنڈز کے اس اعلان پر اطمینان کا اظہار کر رہی ہے، تو دوسری جانب کئی تجزیہ کاروں کے خیال میں پاکستان کو 24 واں آئی ایم ایف پروگرام ملنے سے ایک اور موقع مل رہا ہے کہ وہ اپنے پرانے اور دائمی معاشی مسائل کو اصلاحات کے ذریعے حل کرے، لیکن بعض کے خیال میں ایسا کرنا اس قدر آسان بھی نہیں ہوگا۔ درحقیقت آئی ایم ایف یہ رقم حکومت کے لیے پاکستان کے لیے لائف لائن ہے۔
ہم گزشتہ سے پیوستہ سال میں آئی ایم ایف کی حکم عدولی کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد جب طے شدہ شرائط کے برعکس، معاملات چلانے کی حکمت عملی اختیار کی تو اس کے خوفناک نتائج نکلے تھے۔ پاکستان دیوالیہ ہونے کے کنارے پہنچ چکا تھا، عوام تو عملاً دیوالیہ ہو ہی گئے تھے۔ پاکستان عالمی مالیاتی اور زری اداروں سے مکمل طور پر الگ کر دیا گیا تھا۔ دوست ممالک نے بھی ہر قسم کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ برادر اسلامی ممالک بھی ہم سے دور ہوگئے تھے یہ بہت خوفناک صورتحال تھی۔
ایسے میں 16ماہ کی شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے معاملات کو بیک ٹو ٹریک لانے کی سر توڑ کاوشیں کی۔ نئے وژن اور حکمت عملی کے تحت ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات شروع کیے، ان کی کڑی شرائط کو تسلیم کیا اور سدھار پیدا کرنے کی کامیاب کاوش کی۔ گو معاملات دوبارہ پٹڑی پر چڑھ گئے لیکن عوام کو اس کی بھاری اور ناقابل بیان اور ناقابل برداشت قیمت ادا کرنا پڑی۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ اس کے بعد آنے والی کیئر ٹیکر حکومت نے بھی انھی پالیسیوں پر عمل درآمد جاری رکھا۔ پاکستان عالمی برادری کے ساتھ جڑا رہا، معاملات آگے بڑھتے رہے پھر الیکشن 2024کے بعد شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ 7ارب ڈالرکے بیل آؤٹ پیکیج پر اسٹاف لیول پر دستخط کیے تو معاملات میں بڑی واضح بہتری کی امید پیدا ہوگئی۔ معاشی اشاریے مثبت سمت میں چلتے نظر آنے لگا۔ فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کے بعد جب رقم کی ترسیل و تقسیم شروع ہو جائے گی تو معاملات میں بہتری نہ صرف واضح تر ہو جائے گی بلکہ اس میں تیزی بھی آ جائے گی۔
دوسری جانب بجلی وگیس کی قیمتوں کے معاملات قابو میں نہیں ہیں، گزری تین دہائیوں یا اس سے بھی زیادہ عرصے میں جو معاملات روا رکھے گئے ہیں ہمارے حکمرانوں، پالیسی سازوں اور ذمے داروں نے اس شعبے میں جوکچھ کیا اور جس طرح کیا ہے، اس کے بارے میں جو جزوی معلومات اور حقائق قوم کے سامنے آ رہے ہیں وہ انتہائی مشکوک اور خوفناک ہیں ان معاملات کو کسی طور بھی درست نہیں کہا جا سکتا ہے۔
انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPPs)کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی شرائط عوام دشمن لگتی ہیں اور یہ انھی شرائط پر عملدرآمد کا نتیجہ ہے کہ آج بجلی کے بل قابو سے باہر ہوچکے ہیں، اس کی قیمت جو آئی پی پیزکی ادائیگیوں کے ساتھ طے کی جاتی ہے، عوام اور صنعت و تجارت پر بھاری پتھرکی صورت اختیارکرچکی ہے۔ ہماری صنعتی پیداوار عالمی منڈی میں مقابلے سے باہر ہورہی ہے جس کے باعث صنعتی تعمیر و ترقی کا پہیہ سست روی کا شکار ہوگیا ہے۔ صنعتوں کی بندش نے بے روزگاری کو فروغ دیا ہے، ٹیکسوں کی وصولی کا حجم گرتا چلا رہا ہے۔ حکومت ٹیکسوں کی شرح بڑھا کر وصولیوں کا طے کردہ حجم پورا کرتی ہے۔
کاروباری حضرات بجلی کے بلند شرح بلوں سے عاجز آچکے ہیں، وہ ٹیکس ادا کرنے سے انکاری ہیں پہلے انھوں نے CPOsکا نظام نہیں چلنے دیا۔ حکومت اسی نظام کی ناکامی کا اعتراف بھی کرچکی ہے۔ اب ’’تاجر دوست اسکیم‘‘ کو بھی مسترد کردیا گیا ہے۔ حکومت آئی پی پیزکے معاملات درست کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی ہے۔ ان معاملات کی شفافیت مکمل طور پر مشکوک ہے۔ بجلی کے بحران میں کچھ پردہ نشین بھی شامل ہیں، اس لیے سر دست ایسا لگتا ہے کہ معاملات شاید بہتر نہ ہو سکیں حکمران عوام کو لالی باپ دے کر بہلاتے رہیں گے۔گزشتہ چند برسوں میں پاکستانیوں کی آمدن میں کوئی خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو نہیں آیا جب کہ دوسری جانب ملک میں زندگی گزارنے کے لیے درکار لازمی اخراجات مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب حکومت کو اپنے جاری اخراجات کے مسلسل پھیلتے حجم پر قابو پانے جیسے چیلنجز بھی درپیش ہیں جس پر اسے بعض اوقات شہری حلقوں کی جانب سے سخت تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے حجم اور اخراجات کو کم کرنے کے لیے متعدد اقدامات کر رہی ہے۔ حکومت نے اس ضمن میں پاکستان ورکس ڈپارٹمنٹ اور یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن جیسے محکموں اور اداروں کو بند یا پرائیویٹائز کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کئی وزارتوں اور محکموں کو ضم کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
حکومت کو اس وقت توانائی (بجلی اور گیس) کے شعبے میں پانچ ہزار ارب روپے سالانہ کے خسارے کا سامنا ہے۔ اسی طرح حکومت کے تحت چلنے والے سرکاری کاروباری اداروں کے نقصانات کا تخمینہ بھی ایک ہزار ارب روپے کے لگ بھگ لگایا جائے گا۔ماہرین معیشت کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام سے بجلی،گیس کی قیمتیں بڑھنے کے علاوہ حکومت اپنا خسارہ پورا کرنے کے لیے مزید ٹیکس بھی عائد کرسکتی ہے۔ اس پروگرام پر من و عن عمل درآمد کیا جائے تو اس کے مثبت اثرات آنے والے وقت میں ملک کو معاشی استحکام دلا سکتے ہیں۔
اِس بات میں کوئی دو آراء نہیں کہ بہت سی اصلاحات ایسی ہیں جن کے بغیر پاکستان کے لیے آگے بڑھنا مشکل ہی نہیں نا ممکن رہا ہے۔ اِس وقت ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانا، زرعی آمدن پر ٹیکس لگانا، رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر ٹیکس عائد کرنا، ایف بی آر میں بہتری، سیکڑوں ارب سالانہ کا بوجھ بنے نقصان میں چلنے والے اداروں کو منافع بخش بنانا یا اُن سے نجات حاصل کرنا، بجلی اور ٹیکس کی چوری پر قابو کے لیے مربوط نظام بنانا، ایسی اصلاحات ہیں جن سے کسی طرح بھی نظریں نہیں چرائی جا سکتیں۔ اِس وقت عام آدمی کی زندگی مشکل ہے، ٹیکس کا سارا بوجھ بھی اُسی پر ڈالا جا رہا ہے، مہنگائی کا اثر بھی اسی پر زیادہ پڑتا ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ اگر آج بھی ہم نے اپنا قبلہ درست نہ کیا تو ایک وقت ایسا آئے گا جب ہم سب کا اعتبارکھو دیں گے اورکوئی شاید مدد کا ہاتھ بھی نہ بڑھائے۔ اپنی حالت بدلنے کے لیے محنت ہر حال میں خود ہی کرنا ہوگی،کسی دوسرے کا کندھا محدود مدت تک ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
[ad_2]
Source link