204

سیرت رسول ﷺ اور خدمت خلق

[ad_1]

مسلمانوں کو آپس میں معاملات اور معاشرت بھائیوں کی طرح کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کے ساتھ رحمت، شفقت، نرمی برتنے اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون و تناصر میں پورے اخلاص اور خیر خواہی سے پیش آنا چاہیے۔ حدیث شریف کا مفہوم: ’’رحم کرو تم زمین والوں پر، رحم کرے گا تم پر آسمان والا۔‘‘

حضرت علی کرم اﷲ وجہہ شمائل نبوی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں، مفہوم:

’’آپ ﷺ کے قریب بہت لوگ ہوتے تھے لیکن ان میں سے آپؐ کی نظر میں زیادہ صاحب فضیلت وہی ہوتا جو عام لوگوں کی زیادہ بھلائی چاہتا تھا اور آپ ﷺ کے نزدیک وہی شخص صاحب مرتبہ ہے جو لوگوں کے دین و دنیا کے کام آتا اور ان کے ساتھ محبت و اخلاق سے پیش آتا ہے۔‘‘

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ہے، مفہوم:

مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس سے خیانت کرے گا اور نہ وہ اس سے جھوٹ بولے گا اور نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑے گا۔ مسلمان کا سب کچھ دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ اس کی آبروریزی اس پر حرام ہے اور اس کا مال اس پر حرام ہے اور اس کا خون اس پر حرام ہے اور (سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا) تقویٰ یہاں ہے اور کسی آدمی کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر و توہین کرے۔‘‘

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’مومن دوسرے مومن کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے کہ اس عمارت کا بعض حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کردیتا ہے۔‘‘ اس حدیث میں حضور ﷺ نے مسلمانوں کے باہمی اتفاق و اتحاد اور آپس میں ایک دوسرے سے تعاون و تناصر اور ہر کا ر خیر میں ایک دوسرے کی مدد کرنے پر زور دے کر ایک مثال سے اس کی توضیح کی ہے۔ جس طرح ایک عمارت متفرق اجزاء سے بنی ہوئی ہوتی ہے۔ ہر جز نے دوسرے جز سے چمٹ کر اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔

خود بھی مضبوط ہُوا اور اس کو بھی مضبوط بنا لیا اور اس طرح ایک مضبوط خوب صورت اور بلند عمارت ظہور پذیر ہوئی۔ مسلمانوں کو بھی ایک دوسرے سے افتراق اور ایک دوسرے سے قطع تعلق کرنا درست نہیں بل کہ آپس میں نرمی، رحم دلی اور محبت کے ساتھ مل کر رہنا چاہیے۔ نظم و ضبط اور اتفاق و اتحاد سے زندگی بسر کرنی چاہیے اور جس طرح دیوار سے نچلے حصے اوپر والے حصوں کا بوجھ اٹھائے ہوتے ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کو اپنے استحکام اور اتفاق و اتحاد قائم کرنے اور پھر اپنی منظم قوت و شوکت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے آپ کو بڑی سے بڑی قربانی کے لیے پیش کرنا ہوگا۔

یاد رکھیں! جو قوم اپنے اجتماعی نظام، قوت و استحکام اور نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے اپنے بھائی کا بوجھ خوشی اور محبت کے ساتھ اُٹھا کر برداشت نہیں کرتی تو دشمن ان پر مسلط ہوکر زبردستی ان کے سروں پر بیٹھ جاتا ہے اور پھر ناگواری کے ساتھ دشمن کا بوجھ اٹھاتی ہے۔ بلاشبہ! جناب رسول اﷲ ﷺ نے امت کی خیر خواہی کا اکمل طریقے سے حق ادا فرمایا ہے اور کسی قوم کو کسی نے اس سے زیادہ اسباق نہیں پڑھائے ہوں گے جیسا کہ رسول اﷲ ﷺ نے اپنی امت کی راہ نمائی فرمائی ہے۔

کاش امت محمدی ﷺ خواہشات نفسانی کی پیر وی اور یہود و نصاریٰ کا اتباع چھوڑ کر جناب رسول اکرم ﷺ کی تعلیمات کو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے لیے بنیا د بنالے اور امت کی کام یابی اور فلاح کے لیے جدوجہد کرے تو امید کی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں پر چھائے ہوئے ان گھٹا ٹوپ اندھیروں کا جلد خاتمہ ہو اور مسلمان طلوع سحر کی نوید سن لیں۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’بے شک! تم میں سے ہر ایک (مسلمان) اپنے بھائی (دوسرے مسلمان) کا آئینہ ہے۔ پس اگر اس نے اس مسلمان میں کوئی بُرائی اور تکلیف دہ چیز دیکھی تو اس چیز کو اس سے دور کردے۔‘‘ (مسلم)

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ تمام اہل ایمان بھائی بھائی ہیں۔ حقیقت ایمان کا یہ نتیجہ ہے جس کو آیت مذکورہ میں بیان کردیا گیا ہے اور نتیجہ تب ہی ظاہر ہو گا جب ایمان اور ایمان کے تقاضوں کو سمجھ کر ان پر عمل کا جذبہ ہوگا۔ جب وہ اپنے مومن بھائی کو نہ رسوا کرے گا نہ اس کو بے یار و مددگار چھوڑے گا، بل کہ اگر ضرورت پڑے گی تو اس کے لیے سپر بن جائے۔ یہ ہے وہ ایمانی اخوت کا مضبوط تر رشتہ۔

حضرت ابوجہم بن حذیفہؓ کہتے ہیں کہ یرموک کی لڑائی میں ، میں اپنے چچا زاد بھائی کی تلاش میں نکلا کہ وہ لڑائی میں شریک تھے اور ایک مشکیزہ پانی کا میں نے اپنے ساتھ لیا کہ ممکن ہے کہ وہ پیاسے ہوں تو پانی پلاؤں۔ اتفاق سے وہ ایک جگہ اس حالت میں پڑے ہوئے ملے کہ دم توڑ رہے تھے اور جان کنی شروع تھی۔ میں نے پوچھا پانی کا گھونٹ دوں، انہوں نے اشارے سے ہاں کی، اتنے میں دوسرے صاحب نے جو قریب ہی پڑے تھے اور وہ بھی مرنے کے قریب تھے آہ کی۔ میرے چچا زاد بھائی نے آواز سنی تو مجھے ان کے پاس جانے کا اشارہ کیا۔

میں ان کے پاس پانی لے کر گیا۔ وہ ہشام بن ابی العاصؓ تھے، ان کے پاس پہنچا ہی تھا کہ ان کے قریب ایک تیسرے صاحب اسی حالت میں پڑے دم توڑ رہے تھے۔ انہوں نے آہ کی۔ ہشامؓ نے مجھے ان کے پاس جانے کا اشارہ کر دیا۔ میں ان کے پاس پانی لے کر پہنچا تو ان کا انتقال ہوچکا تھا۔ ہشامؓ کے پاس واپس آیا تو وہ بھی شہید ہو چکے تھے۔ ان کے پاس سے اپنے بھائی کے پاس لوٹا تو اتنے میں وہ بھی ختم ہو چکے تھے۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔

اس نوع کے متعدد واقعات کتب حدیث میں ذکر کئے گئے۔ کیا انتہاء ہے ایثار کی کہ اپنا بھائی آخری دم توڑ رہا ہو اور پیاسا ہو، ایسی حالت میں کسی دوسرے کی طرف توجہ کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے چہ جائیکہ اس کو پیاسا چھوڑ کر دوسرے کو پانی پلایا جائے۔ اور ان شہداء کی روحوں کو اﷲ جل شانہ اپنے لطف و فضل سے نوازیں کہ مرنے کے وقت بھی جب ہوش و حواس سب ہی جواب دیتے ہیں یہ لوگ ہم دردی میں جان دیتے ہیں۔

دینی اخوت کی فضیلت کے بارے میں سرکا ر دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:

’’اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہے جو میرے لیے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے رہیں، میری محبت ان لوگوں کے لیے ثابت ہے جو میری خاطر ایک دوسرے کو چاہتے ہیں۔ میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔‘‘ (احیاء العلوم )

خالق کی عبادت کے ساتھ اس کی مخلوق سے حسن سلوک بے پناہ اجر کا باعث ہے۔

رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’خد ا کی قسم! تم مومن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے بھائی کے لیے وہ کچھ نہ چاہو جو اپنے لیے چاہتے ہو۔‘‘

رحمت عالم ﷺ کے فرمودات ہما رے لیے فلاح و نجات کی راہیں متعین کرتے ہیں۔

حضور ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو زمین والوں پر رحم نہیں کرے گا، آسمان والا اس پر رحم نہیں کرے گا۔‘‘



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں