49

عدم توازن – ایکسپریس اردو

[ad_1]

پاکستان کا معاشرہ‘حکومت ‘ ریاستی ادارے اور خواص عدم توازن کا شکار ہو چکے ہیں۔ سول سروس کے پینتس برسوں میں اتنی بدحالی دیکھنے میں نہیں آئی تھی جو دو ڈھائی برسوں میں ملک کا خاصہ بن چکی ہے۔ اس میں ایک نیا عنصر بھی عود کر آیا ہے اور وہ یہ کہ عام لوگوں کے دل میں اشرافیہ کے خلاف نفرت پنپ چکی ہے۔ یہ نفرت روز بروز نہیں ‘ بلکہ ہر لمحہ بڑھتی جا رہی ہے۔

ملک پر قابض سیاسی حکومتیں اس امر کو بخوبی جان گئی ہیں۔ وزیراعظم سے لے کر وزراء اور عام ورکر تک اس منفی عنصر کو پہچان چکا ہے۔ مگر وہ بیساکھیوں کے سہارے کھڑے ہیں ۔ سیاسی معذور ہونے کے باوجود‘ تیز دوڑ میں ورلڈ چیمپئین بننا چاہتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ہماری سیاسی حکومتیں‘ اب دنیا کے لیے مذاق کا درجہ رکھتی ہیں۔ مگر اس بدنمائی کو لیپا پوتی کر کے چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالات آگے مزید خراب ہونگے اور اس خرابہ میں حکومتی افراد ‘ کھل کر پیسے کمائیں گے۔ بہر حال اس کھیل کا انجام کیا ہو گا۔ اس کا تصور کرتے ہوئے بھی دل دہلتا ہے۔

ملاحظہ فرمائیے۔ وزیراعظم اور ان کے سیاسی رفقاء اقوام متحدہ کے جنرل سیشن کے لیے نیویارک تشریف لے گئے ہیں۔ جس ہوٹل میں وہ قیام پذیر ہیں ‘ اس کا یومیہ کرایہ‘ پانچ سے سات ہزار ڈالر تک ہے۔ یہ پانچ ستارہ ہوٹل‘ امیر امریکی لوگوں کے لیے بھی تصور سے باہر ہے۔ یاد رہے کہ ‘ ہوٹل کے سویٹ کی بابت عرض کر رہا ہوں۔ دنیا سے اس وقت بہت سے وزراء اعظم اور حکومتی ارکان ‘ اقوام متحدہ کے اس بے معنی سے اجلاس میں شرکت کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ کئی ممالک کے وزیراعظم ‘ سرکاری پیسوں کو برباد کرنے کے بجائے‘ اپنے ہم وطنوں کے گھروں میں قیام پذیر ہوتے رہتے ہیں۔

ملیشیاء کے مرد آہن ‘ مہاتیر اس کی ایک زندہ مثال تھے۔ اور یہ وہ ممالک ہیں جو امیر ملکوں کی خیرات پر نہیں پل رہے۔ بلکہ ان کی معیشت مضبوط سے مضبوط تر ہو رہی ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنی ملکی دولت کو بے وجہ ضایع نہیں کرتے ۔ مگر‘ آپ ہمارے حکمرانوں کی سوچ دیکھئیے کہ یہ مین ہیٹن کے قیمتی ترین ہوٹل میں قیام پذیر ہیں۔ اور خبر کیا چلوا رہے ہیں کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے مزید قرضہ مل گیا ہے۔ اس سے زیادہ قومی توہین مزید کیا ہو سکتی ہے۔

ہاں‘ سنجیدگی سے یہ بھی بتایئے کہ ہمارے محترم وزیراعظم کی تقریر سننے کے لیے اقوام متحدہ میں کون تڑپ رہا ہے؟ حضور‘ بہت سے امیر ممالک کے سربراہان تو اس طرح کے تقریری مقابلہ میں شرکت کرنا وقت کا ضیاع گردانتے ہیں۔ مگر ہمارے ’’ببر شیر‘‘ حکومتی جہاز پر‘ اس طرح سوار ہو کر نیویارک پہنچے ہیں‘ جیسے انھوں نے امریکی حکومت کو خریدنا ہے۔ یہ وفد‘ ملک کے لیے کیا بو رہا ہے۔ اس کا جواب سب کو معلوم ہے۔

خیر اس سفارتی جبر سے نکل کر ملکی حالات پر غور فرمایئے۔ پورانظام اور افراد شکستگی کا شکار ہیں۔ اتنا اندھیرا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا۔ اندازہ فرمایئے۔ وہ سپریم کورٹ ‘ جس کے احترام کو برقرار رکھنے کے لیے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ‘ ہر وقت لب کشاں رہتی تھیں۔ آج اسی سپریم کروٹ کے فیصلوں کی تضحیک کی جا رہی ہے۔ آٹھ ججز کے فیصلے میں کسی قسم کاکوئی ابہام نہیں ہے۔ مگر الیکشن کمیشن عدالتوں سے مسلسل وضاحتیں طلب کر رہا ہے۔ یہ انداز حکومت ‘ کسی بھی جمہوری یا نیم جمہوری نظام کے لیے درست نہیں ہے۔

ذرا سوچیئے‘ کہ موجودہ حکومت‘ مستقبل کی حکومت کے ہاتھ میں کتنا مہلک ہتھیار دے رہی ہے۔ وہ یہ کہ سپریم کورٹ کے اجتماعی فیصلوں کو موشگافیوں کے ذریعے غیر مؤثر کیا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ کے ارسطو‘ ٹی وی کے پسندیدہ اینکروں کے سامنے‘ سپریم کورٹ اور مقننہ کی قانون سازی کے مقدمہ کے ایسے ایسے بیانیے رکھ رہے ہیں ۔ جیسے ہمارے منتخب افراد‘ واقعی میرٹ پر سوچ سمجھ کر قانون سازی فرما رہے ہیں۔

حال ہی میں‘جو خوفناک آئینی ترمیم کے مسودہ کی بابت سرعام گفتگو جاری تھی ‘ وہ المناک ہے۔ وزیر قانون سے لے کر صدر تک‘ کسی کے پاس بھی اس ترمیم کا مستند مسودہ نہیں تھا۔ مولانا فضل الرحمن جیسے موقع شناس سیاسی گرو‘ بھی بھانپ چکے تھے کہ یہ آئینی ترامیم نہیں بلکہ سیاسی موت کا وہ پھندا ہے جو حکومتی ارکان‘ دکھانے تک کی جسارت نہیں کر رہے ۔ پیپلزپارٹی کی قیادت تو خیر اپنا سیاسی سرمایہ داؤ پر لگا چکی ہے۔ان کے عملی تضادات کو جس طرح جے یو آئی کے معزز وکلاء نے ثبوت کی بنیاد پر لوگوں کے سامنے رکھا ہے۔ اس کے بعد اس قیادت سے کوئی سنجیدہ بات کی توقع کرنا عبث ہو چکا ہے۔مگر اس سارے معاملات کا مثبت پہلو یہ ہے کہ سب کے علم میں آچکا ہے کہ بادشاہ کی حالت کیا ہے۔

آپ کی توجہ‘ ایک اور نکتہ کی طرف مبذول کرواتا ہوں۔ ہماری موجودہ حکومت نے ‘ تحریک انصاف کو ایک سیاسی جن بنا کر بوتل سے باہر نکال دیا ہے۔ آپ ’’قاسم کے ابو‘‘ کے مخالف ہیں یا ہمدرد ‘ آج کی صورت حال میں سیاست کی بساط پر ایک طاقتور قوت تحریک انصاف ہے۔ اس کے سامنے کسی فریق کی سیاسی حقیقت کمزور ہے ۔ حالیہ جنرل الیکشن نے اس سچ پر عوامی تائید کی مہر لگا دی ہے۔

یہ حقیقت ’’اصل اختیار‘‘ کے مالک بھی سمجھ چکے ہیں۔ اوراب برف پگھلنا شروع ہو چکی ہے۔ جلسوں کی اجازت ‘ اس امر پر مہر ثبت کر رہی ہے کہ کہیں نہ کہیں مقتدرہ سے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ اور اس کے نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف کے درمیان دوریاں اگر کم ہوتی ہیں تو شاید ملکی معاملات بہتر ہو جائیں۔ ویسے خان صاحب کی سابقہ طرز حکومت کو دیکھتے ہوئے مجھے اس بات کی کوئی امید نہیں کہ وہ دور رس فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جذباتی تقاریر اپنی جگہ‘ مگر خان صاحب ‘ مردم شناسی میں کافی خام ہیں۔

عثمان بزدار سے لے کر‘ ان کے نااہل ترین پرنسپل سیکریٹری ‘ اس کی تاریک مثالیں ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ عمران خان‘ اس وقت ملک کے مقبول لیڈر ہیں۔ مگر کیا وہ اس مقبولیت کو ‘ استحکام اور قومی ترقی میں تبدیل کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ کیا وہ اپنے Impulsive behaviourپر قابو پا سکتے ہیں۔ سیاست کے طالب علم کی حیثیت سے مجھے ان میں مثبت تبدیلیوں کی بالکل کوئی امید نہیں۔ بہر حال ان حالات میں وہ اپنے سیاسی مخالفین سے قدرے بہتر نظر آتے ہیں۔

یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مقتدرہ‘ عمران خان کو بھرپور سیاسی جگہ دینے پر آمادہ ہو جائے گی۔ مجھے ‘ اس کی بہت کم امید ہے۔ اب خان صاحب کو اپنے اندر ایک سیاسی لچک پیدا کرنی ہوگی۔ سیاسی نعرے کہ میں حکومت میں آ کر ’’ذمے داران ‘‘ کو پھانسی پر لٹکا دونگا۔ حد درجہ غیر دانشمندانہ قسم کی سوچ ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کے پاس فہمیدہ لوگوں کی حد درجہ کمی ہے۔ سابقہ صدر عارف علوی صاحب بہرحال اس نازک ترین کام کے لیے موزوں ہیں کہ خان صاحب اور اسٹیبلشمنٹ میں دوریاں کم کر سکیں۔ اس کے علاوہ اور کون ہے۔

اس کے متعلق وثوق سے کہنا مشکل ہے۔ اب ایک اور بات کی بابت اشارے میں بات کرتا ہوں۔ آج کل جو میڈیا پرسنز آپ کو ظاہری طور پر اسٹیبملشمنٹ کے لتے لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جو آپ کو اندر کی خبریں‘ بڑے وثوق سے بتاتے ہیں‘ وہ یہ تمام کام مکمل رضا مندی سے کر رہے ہیں تاکہ لوگوں کے اندر ایک خاص نقطہ نظر سے غلط فہمی پیدا کی جائے۔ آپ انگشت بدنداں رہ جائیں گے کہ ‘’’ہیں کو اکب کچھ- نظر آتے ہیں کچھ‘‘ ۔ قرائن ہیںکہ چند اہم نظر آنے والے لوگوں کی بلی چڑھنے والی ہے۔ انھیں بتا دیا گیا ہے کہ آپ کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔

وہ لاچاری میں ہر در پر معافیاں مانگ رہے ہیں۔ مگر معاملہ اب کسی اور طرف جا رہا ہے۔ ذاتی مشورہ ہے کہ موجودہ اپوزیشن‘ حد درجہ بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے واپسی کا ایسا رستہ مہیا کرے‘ جس میں کسی کی عزت پر حرف نہ آئے ۔ اور یہ سب کچھ قدرتی محسوس ہو۔ Graceful exit دینا ہی وقت کا تقاضہ ہے ۔ ورنہ کچھ ایسا بھی کروایا جا سکتا ہے جس کا تصور کرنا فی الحال مشکل ہے۔

خان صاحب ‘ کو ایک مدبرانہ کردار ادا کرتے ہوئے‘ براہ راست مذاکرات کرنے چاہیں۔ یہ صائب ہو گاکیونکہ پورا ملک شدید تکلیف کا شکار ہو چکا ہے۔ ہمارا موجودہ Hybridنظام‘ اتنا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر یہ نہ ہو سکا تو چند سیاست دان ‘ مزید دربدر ہونگے۔ اور ملک میں قیامت خیز عدم توازن بیکری کے راستے سے ہوتا ہوا‘ تشدد کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔ اس وقت کوئی نہ بچے گا اور نہ ہی کوئی مزید سازش ۔ اس عدم توازن کو فہم و فراست سے کم کیجیے۔ شاید بہتری کی کوئی صورت نکل آئے!



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں