34

سماجی دھماچوکڑی – ایکسپریس اردو

یہ قصہ اس سماج کا ہے جس میں صرف ’’دھماچوکڑی‘‘ کے کھیل کو ہی پسند کیا جاتا ہے، اس سماج کے ماہ و سال نہ گریہ کرتے ہیں نہ شکایت کرتے ہیں اور نہ ہی کسی سے باز پرس کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ یہاں صرف دھماچوکڑی ہی کھیلا جاتا ہے، اس سماج کے واسی احساس رکھتے ہیں، سوچتے بھی ہیں، ہنستے مسکراتے بھی ہیں مگر پھر یہ سب چیزیں وہ سماج کی دھماچوکڑی میں ایک طرف رکھ کر ماٹی کے بت کی طرح زندگی کو صرف احساسِ زیاں سے زیادہ سمجھتے ہی نہیں، کیونکہ سماج میں سنجیدگی کو بھی دھماچوکڑی غٹک لیتی ہے۔

یہ وہ سماج ہے جہاں صبح اپنی چال بھول کر دوپہر میں تبدیل کردی گئی ہے، مجال کہ صبح صادق جاگنے کی کوئی ہمت کر سکے، اسی واسطے بازار اور چوباروں میں زندگی کی رونقیں صبح کے بجائے دوپہر کو ہی تمتا رہی ہوتی ہیں۔ صبح کسی شے کی ضرورت میں دوپہر کا انتظار لازمی قرار دے دیا گیا ہے کہ ضروری حاجت کی کوئی چیز صبح کے بجائے دوپہر ہی کو مارکیٹ کھلنے کے بعد دستیاب ہوگی اور پھر زندگی کی دھماچوکڑی بھیگتی رات تک جاری و ساری رہے گی اور آپ اس دھماچوکڑی کے عادی بنا دیے جائیں گے۔

اب تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے سماج کی منڈیر پر ایسے ’’آسیب‘‘ کا ڈیرہ ہو چکا ہے جس میں جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی، انتشار اور خرد برد کے چٹخارے کو سماج کا لازمی جز بنا دیا گیا ہے، جہاں ہر سو، ہر فرد اور ہر ادارہ بے بسوں کے لیے ’’ قصاب‘‘ بنا ہوا ہے،گھر کی دہلیز پر بد تہذیبی کے قابضین ایسے جم کر بیٹھے ہیں کہ مجال گھروں کے اندر تہذیب و شائستگی گھس سکے، سرمایہ دارانہ سوچ کے آن ہوتے ہوئے اسمارٹ فونز اب نسل کی سانس لینے کا ذریعہ کر دیے گئے ہیں، پرزے میں تہذیب و شائستگی فراہم کرنے والے مواد کو بے کار سمجھا جانے لگا ہے۔

تحقیق کے مواد فراہم کرنے والی معلومات پر اسٹاپ کے بٹن کو مسلسل چوکیداری پر مامور کر دیا گیا ہے۔ لغت اور الفاظ و معنی کے ممد و گوشے دیکھنا وقت ضائع کرنے کے ذریعے کے طور پر ہر لمحہ کھوجی کی تلاش میں امید پیہم لگائے صرف راہ تکتے رہتے ہیں، کسی کو کسی کی سماجی حالت یا دوسرے کے حالات جاننے کو شجر ممنوعہ سمجھا جانے لگا ہے، موبائل فون میں سمائے گئے، گونگے بہرے انجان اب احباب کی فہرست میں داخل کر کے گھر کے افراد کو ناکارہ پرزہ سمجھ کر گفتگو تک سے محروم کر دیا گیا ہے۔

سماجی جانور ہونے کی تفہیم کے طور پر میل ملاقات اور عزیز رشتہ داری نبھانے کو وقت برباد کرنے کی نشانی بنا دیا گیا ہے، کھانے کے دوران ایک دوسرے کے ساتھ کھانے کو تج کر کے موبائل فون کو تھام کر گھر کے افراد سے الگ اٹھتے بیٹھتے کھانے کو اپنی عادت بنا لیا گیا ہے۔ یہی کیا اب تو کسی سے گھرکی چہار دیواری میں رابطہ کرنے کو بھی واٹس ایپ کال کا محتاج کردیا گیا ہے، کسی کو کمرے سے باہر نکالنے میں گھر کے ذمہ دار کی آواز کے مقابل کال کے استعمال کو لازمی سمجھا جانے لگا ہے۔ اب گھریلو معاملات گفتگو کے بجائے موبائل کی پیغام رسانی کے محتاج کر دیے گئے ہیں۔

اس سماجی خانمہ خرابی میں پروان چڑھنے والی سماجی بندھنوں اور رابطوں سے نا آشنا نسل یہ بھی چاہتی ہے کہ سماجی بگاڑ کے آسیب کو موبائل فون کی ایک پوسٹ یا کسی ایک وڈیو کے وائرل سے ٹھیک کر لیا جائے گا۔ سماجی بندھنوں سے نا آشنا یہ نسل یہ بھی چاہتی ہے کہ ان کو کمروں میں بیٹھے بیٹھے تمام لوگ پہچانیں بھی اور ان کے سارے کام جدید ٹیکنالوجی کی ترقی کی طرح ایک ڈیجیٹل فارم پُر کرنے کے بعد حل کر دیے جائیں اور ملک کے تمام ادارے اور محکمے انہیں گھر میں بیٹھے مذکورہ سہولت بہم بھی ’’فوڈ پانڈا‘‘ مانند گھرکی دہلیز پر فراہم کردیں۔ ناز و نعم اور خرد برد کے نوالے چباتی ہوئی یہ ڈجیٹل نسل مجال کہ کسی فارم کے حصول کی لائن میں لگیں یا کسی محکمے کے قوانین کو ترتیب سے بجا لانے کے لیے وقت اور ڈسپلن کا خیال کریں۔ زمانے کی تیز رفتاری نے ہر فرد اور ہر نفس کو اس درد ناک سماجی دھماچوکڑی میں ایسا جکڑا ہے کہ جب تک ملک میں دھما چوکڑی نہ ہو تو ہماری نسل نہ خواب غفلت سے جاگتی ہے اور نہ ہی کسی چیز سے آگاہی حاصل کر پاتی ہے۔

اس اندیشہ تہذیبی بگاڑ میں ٹوٹے پھوٹے روڈز اورکسی طور عمل نہ کرتی ہوئی بلدیہ کی دھماچوکڑی کا یہ عالم ہے کہ عوام گڑھوں میں گر کر مرے یا ادھڑی ہوئی روڈ کسی کی جان لے لے۔ ہماری بلدیہ پُل کے اس پار بسنے والوں کی کاسہ لیسی میں ایسی جُتی ہوئی ہے کہ شہر کے گنجلگ آبادی کے علاقے گٹر کے تعفن اور جگہ جگہ ٹوٹی اور بے ترتیب گلیاں بلدیہ کے نو منتخب افراد کا منہ چڑا رہی ہیں مگر مجال کہ بلدیہ عظمی کراچی کے روڈ رستوں میں پڑنے والی گڑھوں کی دھماچوکڑی پر توجہ دے۔

ہاں! البتہ بلدیہ کے سالار اعظم بس اپنے ماہ ولی کی دھما چوکڑی میں خوب جتے ہوئے ہیں کیونکہ ان کی نوکری اور سلامتی و بقا ہی ماہ ولی کی ترجمانی کی مرہون منت ہے وگرنہ تو نہ پھر وہاب کی دھماچوکڑی بس دیکھنے کی ہی ہوگی، اب ایسی مراعات اور سہولیات کون کم بخت تج کرتا ہے۔ رہا سوال یہ کہ روڈ رستوں،ابلتے گٹر، اندھیاروں میں ڈوبتی گلیوں کی دھما چوکڑی ہوتی رہے تو ہو، بس بلدیہ عظمی کو تو صرف عوام پر ٹیکس ڈالنے اور ان کی معاشی مجبوریوں کی دھما چوکڑی کرنی ہے سو وہ کر رہے ہیں۔

ارے صاحب تمام باتوں کو چھوڑیے، ہمدردی کی دھماچوکڑی دیکھیے کہ ابھی تازہ امرکوٹ سندھ میں پولیس مقابلے میں تشدد کر کے بہیمانہ قتل کیے جانے والے ڈاکٹر شاھنوازکی افسوس ناک موت کے واقعے ہی کو لے لیجیے۔ اس کی ڈیجیٹل میڈیا والے خوب مذمتیں اور وڈیوز وائرل کر رہے ہیں ، مگر اگر آپ ڈیجیٹل نسل سے پوچھیں کہ ’’ امرکوٹ‘‘ کہاں ہے، وہاں کا جغرافیہ کیا ہے؟ وہاں کے لوگوں کا رہن سہن یا غذا کیا ہے، وہاں کے لوگوں کی سماجی اور معاشی صورتحال کیسی ہے،کیا انہیں ضروریات زندگی کی تمام سہولتیں میسر ہیں،کیا وہاں کے لوگوں کو انصاف دیا جا رہا ہے یا وہاں کے رہائشیوں کوکوئی قانونی تحفظ حاصل ہے؟

تو یہ ڈیجیٹل نسل ’’ انتشاریوں‘‘ کی طرح کندھے اچکاتی کہتی نظر آئے گی کہ ہمیں کیا پتہ کہ ’’امرکوٹ‘‘ کہاں ہے یا وہاں کے لوگوں کی سماجی حالت کیا ہے۔ بس ہم تو یہ جانتے ہیں کہ وڈیو کے وائرل ہونے کے بعد پتہ چلا کہ ڈاکٹر شاہنواز کے ساتھ کیا ہوا، بس ہم وڈیو وائرل کی نسل ہیں ہمارا کیا کام میل ملاقات اور آپسی تعلقات بنانے کا، ہم تو بس یہ جانتے ہیں کہ ہمارے مھاولی نے وڈیو جاری کر کے اگر یہ کہہ دیا کہ یہی جج سب سے خراب ہے اور اس سے کی جانے والی بدتہذیبی درست عمل ہے تو ہمارے نزدیک یہی بات درست اور ایمان کی حد تک یقین کامل ہے۔ باقی ملک میں عدالتی نظام والوں کی دھما چوکڑی ہو یا سیاست دانوں کی دھماچوکڑی، ہمیں تو بس یہ دیکھنا ہے کہ کس دھما چوکڑی میں انتشار کا مرچ مسالہ ہے، وگرنہ ہمیں اتنی فرصت نہیں کہ ہم ان ملکی اور سماجی دھماچوکڑی کی کھوجنا کرکے اپنا وقت ضائع کریں۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں