[ad_1]
دکن کی زرخیز سر زمین سے تعلق رکھنے والی، عربی النسل علمی و ادبی شخصیت محمد عمر مہاجرکی تھی۔ آپ اس عظیم درسگاہ کے فارغ التحصیل تھے، جہاں سے جو بھی تعلیم و تربیت پا کر نکلتا خواہ اس کا تعلق کہیں سے ہو وہ ہر قسم کی فرقہ واریت تنگ نظری سے بالاتر ہوتا،اس کے نزدیک اسلامی تعلیمات کی بڑی اہمیت ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس اعلیٰ علمی ادارے کے فارغ التحصیل قیام پاکستان کے بعد اپنی قابلیت کی وجہ سے جہاں جہاں جس جس منصب پر فائز ہوئے وہاں اپنے اعلیٰ اقدار اور مستحسن عمل سے خوب داد و تحسین سمیٹے۔
جامعہ عثمانیہ سے آپ نے 1941ء میں اردو ادب میں ماسٹرزکیا، اس دور میں جامعہ نے اپنے نصب العین اور اقدارکو جس خوبی سے نبھایا وہ لائق تحسین ہے۔ جامعہ کے اساتذہ کا رویہ سب سے بڑھ کر باہمی عمل اور میل جول کی تہذیب جامعہ کا اعلیٰ نمونہ تھا کیونکہ اس دور میں برصغیرکے مختلف خطوں کے بہترین دماغ بحیثیت استاد یہاں تعینات تھے، یہی وہ علمی ادبی ماحول تھا جس نے مہاجر نانا کی فکری صلاحیتوں کو ابھارا ہی نہیں بلکہ ان میں وسیع النظری اور روشن خیالی بھی پیدا کی۔
آپ طالب علمی کے زمانے سے ہی بہترین خطیبانہ صلاحیتوں کی وجہ سے جلد بطور طالب علم رہنما متعارف ہوئے، جس کی بدولت 1940ء میں جامعہ کی انجمن عثمانیہ اتحاد طلبہ کے صدر مقرر ہوئے، بین الجامعاتی تقریری مقابلوں میں بھی حصہ لیتے اور نمایاں مقام پاتے۔ دکن کی ممتاز شخصیت بہادر یارجنگ جسے بلند پایہ خطیب بھی، آپ کے جوش خطابت کے معترف تھے اور ان الفاظ میں آپ کی تحسین کرتے کہ ’’ کاش میں مہاجر صاحب جیسی تقریرکرسکتا۔‘‘ محمد عمر مہاجر 2 اگست1917ء کو قصبہ لنگسگور ضلع رائچور میں پیدا ہوئے، ان کے والد محمد غوث ٹھیکے دار تھے۔
ان کے دادا قاضی احمد ایک ماہر ڈاکٹرکی حیثیت سے جانے جاتے، جب آپ کی عمر سوا سال ہوئی تو ان کے سر سے والد کا شفیق سایہ اٹھ گیا اور ان کی پرورش کی ذمے داری اب ان کے دادا پرآگئی، لیکن دادا کی مصروفیات کے باعث چچا عبدالوہاب قادری نے اس فریضے کو بخوبی نبھایا۔ آپ کے دادا کا گھرانہ مذہبی تھا، اس لیے انتہائی کم عمری میں چھوٹی چھوٹی آیات آپ کو یاد کرائی گئیں اور بعد میں تقریبا آدھا قرآن آپ کو یاد ہوگیا، تین سال کی عمر میں نماز سکھائی گئی۔
کم سنی میں چچا اپنے دوستوں کے سامنے ان سے تقریریں کرواتے اور بطور انعام ان کی پسندیدہ چیزیں دیتے۔ ایک مرتبہ لسان امت نواب بہادر یار جنگ دکن سے باہر جا رہے تھے، انہوں نے مہاجر صاحب کو بھی اپنے ہمراہ لیا، وہاں ایک تقریب میں کسی مقرر نے انگریزی میں تقریرکی، جس پر نواب صاحب نے کہا کہ ’’ اب اس کا ترجمہ جامعہ عثمانیہ کے ہونہار طالب علم محمد عمر مہاجرکریں گے‘‘ جس کا آپ کو بالکل اندازہ نہیں تھا، مگر پھر بھی وہ اسٹیج پرآئے اور انہوں نے اس انگریزی تقریرکا فی البدیہہ اردو ترجمہ کیا جس پر صاحب تقریر نے ان کی خوب پذیرائی کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اس لڑکے نے میری تقریرکا اتنا خوبصورت ترجمہ کیا کہ مجھے اپنی تقریر سے بہترمعلوم ہوا‘‘ اور دوران طالب علمی کی یہی فکری تربیت غالب کے فارسی خطوط آہنگ پنجم کا ترجمہ جسے ادارہ یادگار غالب نے غالب کے صد سالہ جشن پیدائش کے موقعے پر شائع کیا۔
اس کا پیش خیمہ بنا،جس کی بھی یہی خاصیت ہے کہ قاری کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ غالب نے ان کو اردو میں نہیں لکھا، چونکہ ترجمہ کا آغاز غالب کے اردو خطوط جیسا ہے۔ نواب صاحب کی شدید خواہش تھی کہ عمر مہاجر اپنے فن خطابت کی صلاحیتوں کو مسلمانوں کی تنظیم کاری کے لیے وقف کردیں، جس کے احترام میں آپ مجلس اتحاد المسلمین کے سرگرم رکن بن گئے۔ تعلیم سے فراغت کے فورا بعد آپ نے تحصیل داری کا امتحان پاس کیا اور آپ کا تقرر مومن آباد میں ہوا، جس پر بعض ہندوؤں نے شکایت کی کہ’’ آپ کا تعلق مجلس اتحاد المسلمین سے ہے، جس کی وجہ سے آپ انصاف نہ کرسکیں گے‘‘ جب یہ سوال آپ سے پوچھا گیا کہ ’’آپ ایسے میں انصاف کس طرح کرسکیں گے‘‘ جس پر مہاجر صاحب نے جواب دیا کہ ’’ انصاف کے لیے کیا مسلمانوں کا مخالف ہونا ضروری ہے؟‘‘ میرے خیال میں انصاف کے آگے ہندو ہو یا مسلمان دونوں برابر ہیں۔
انصاف کسی فرقے سے تعلق نہیں رکھتا‘‘ اور یوں انہیں مجلس اتحاد المسلمین کی سرگرمیوں سے دور ہونا پڑا، جس پر نواب صاحب نے اپنے کچھ دوستوں سے دکھی دل کے ساتھ یوں کہا کہ’’ایک بہترین کام کرنے والا مجھ سے بچھڑگیا‘‘ یہ دوری مہاجر نانا نے مجبوری میں اختیارکی تھی، چونکہ ان کے دادا کی رحلت ہوچکی تھی اورگھرکے مالی حالات انہیں ملازمت اختیارکرنے پر مجبورکررہے تھے، لیکن وہ ہمیشہ اس کاروان حق کے ایک خاموش سپاہی کی طرح سرگرم عمل رہے، جس کے روح رواں سرسید، علامہ اقبال، قائداعظم، بہادر یار جنگ جیسے عظیم زعماء تھے۔
آپ بہادر یار جنگ سے اس قدر عقیدت رکھتے کہ جب آپ کے پاس بذریعہ خط ان کی رحلت کی اطلاع آئی اور انہی دنوں میں آپ کی والدہ سخت علیل تھیں، تو انہوں نے انتہائی رنج کے عالم میں خیال کیا کہ ’’کاش! اس خط میں والدہ کی رحلت کی خبر ہوتی‘‘ کیونکہ اس وقت مسلمانان ہند کو بہادر یار جنگ جیسے رہنما اور سرپرست کی اشد ضرورت تھی۔ جب آپ کا تبادلہ مومن آباد سے حیدرآباد ہوا توکیا مسلمان، کیا ہندو، سبھی دکھی ہوگئے، یہاں آپ تقریبا تین سال تک مختلف محکموں سے وابستہ رہے۔ سقوط حیدرآباد دکن کے بعد ایک اعلیٰ عہدہ چھوڑ کر وہاں کے بدلتے ہوئے حالات سے مطابقت نہ رکھنے کے باعث آپ بمعہ اہل وعیال وطن عزیز پاکستان تشریف لے آئے۔
یہاں آپ کا پہلا تقرر محکمہ آبادکاری ٹنڈو الہ یار میں ہوا۔ اس دوران آپ نے ریڈیو پاکستان کراچی کی آسامی’’پروگرام آرگنائزر‘‘ کے لیے پبلک سروس کمیشن میں درخواست دی اور منتخب ہوگئے اور آپ کی تعیناتی ڈھاکہ میں ہوئی۔ یہ ابتدائی پاکستان کا یادگار زمانہ تھا جس میں حکمران سے لے کر عوام تک سب ایک دوسرے کے لیے بے حد مخلص تھے۔ بعد ازاں ٹریننگ کے لیے آپ کراچی میں رہے، پھر1952ء میں آپ کا تبادلہ راول پنڈی کردیا گیا جہاں آپ پہلے پہل تقاریرکے شعبے سے وابستہ رہے، پھر ڈرامہ اور پھر موسیقی کے شعبے آپ کو دے دیے گئے۔
موسیقی کے شعبے میں آپ کے نت نئے تجربوں کوکافی سراہا گیا اور یہاں سے آپ کے ایک روشن جگمگاتے نشریاتی سفرکا آغاز ہوا، جہاں آپ نے ریڈیو کو یادگار پروگرامز دیے، یہی وہ دور تھا، جب آپ کے ڈرامے بے حد مقبول ہوئے اور سبھی اسٹیشنوں سے نشرکیے گئے، ان میں سے ایک ڈرامہ ’’ مجرم کون‘‘ ایک ناول سے ماخوذ تھا اور دوسرا ان کا اپنا طبع زاد تھا اور یوں بخاری صاحب بھی آپ کی خداداد صلاحیتوں کے معترف ہوگئے،کیونکہ ان ہی کی شدید مخالفت کے زیر اثر آپ تین ماہ کے بجائے سال بھرکی عارضی ملازمت کی سولی پر چڑھے رہے۔
(جاری ہے۔)
[ad_2]
Source link