36

بھارت اور وقف بورڈ – ایکسپریس اردو

ابھی جون ہی کی تو بات ہے جب نریندر مودی کی نئی کابینہ کا پہلا اجلاس ہوا تھا۔ اس اجلاس میں یوں تو بڑے برے وعدے، دعوے کیے گئے تھے لیکن جس اہم بات پر نظریں ٹکی تھیں، وہ تھی دیہی اور شہری علاقوں میں تین کروڑ گھر بنانے اور سب گھروں میں بجلی اور ایل پی جی گیس کے کنکشنز مہیا کرنے کی۔

یقیناً ہمیشہ کی طرح بے چارے غریب عوام چاہے وہ کہیں کی بھی ہو حکومت کے ان بلند و بانگ دعوؤں سے متاثر ہو ہی جاتے ہیں، یقینا ایسا ہی ہوا ہوگا۔ اسی کابینہ میں مودی کے اپنے سارے جماعت والے موجود تھے، جنھیں لے کر وہ ایک بار پھر بھارت کو اپنے ان عزائم کو مکمل کرنے چلے تھے، جنھیں پچھلے ادوار میں ادھورا چھوڑ گئے تھے۔

ساری اہم وزارتیں تو ویسے بھی بی جے پی کے پاس ہیں لہٰذا ان کے لحاظ سے تو میدان ان کا ہی ہے لیکن بلند دعوؤں کے پیچھے بی جے پی سرکارکا جوگھناؤنا چہرہ نظر آرہا تھا وہ عصبیت کے رنگ میں ڈوبا تھا۔ امیت شا، راجناتھ سنگھ، ایس جے شنکر، ہرش ملہوترا، نرملا سیتا رمن اور ایشونی ویشنو سب ان کے اپنے ہی تو ہیں۔ تعصب کی اس آگ نے بھارت میں کیا رنگ دکھانا ہے۔

اس کے آثارکچھ تو واضح ہو رہے ہیں۔بی جے پی کی سرکار سے بھارت میں رہنے والے مسلمان، عیسائی، سکھ اور نچلی ذات کے ہندوؤں کو تحفظات ہیں، لیکن اس کے باوجود جوکچھ کھل کرکیا جا رہا ہے وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی املاک کو ہڑپ کرنے کے منصوبے پر بڑی تیزی سے عمل کیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے وہاں وقف بورڈ کی حیثیت کو مشکوک قرار دینے کے لیے بڑی جان توڑکوششیں کی جا رہی ہیں۔

نیوز چینلز بار بار وقف بورڈ کے جعلی کاغذات اور جائیداد کے فسانے نشرکرکے یہ ظاہر کرنے پر لگے ہیں کہ بھارت میں مسلمانوں کا وقف بورڈ اس قدر بااثر اورگستاخ، بے لگام ہے کہ وہاں زمینوں پر قبضہ جما رکھا ہے اور ناجائز قبضہ بھی کر کے غلط دستاویزات ثبوت کے طور پر دکھا رہا ہے۔ کہیں تو دستاویزات بھی ثبوت کے طور پر مہیا نہیں ہیں اور اتنا کچھ مودی سرکارکی یکے بعد دیگرے تین بار کے دور حکومت سے گزرتا چلا آیا۔ یعنی حد ہے کہ مودی سرکار نے مسلمانوں کو ایسے مستانے ہاتھی کی مانند جنگل میں چھوڑا ہوا ہے کہ ان کا جہاں دل چاہے سونڈ اٹھا کے قبضہ کرنے پہنچ جاتے ہیں اور سرکار بے چاری چوں بھی نہیں کرتی۔

اب یہ تو عوام اور سوشل ورکروں کو چاہیے کہ حکومت کی زمین کو ان ظالموں سے چھڑائیں۔ بھارت میں وقف بورڈ کیا ہے؟ یہ وہ بورڈ ہے جو مسلمانوں کی ان زمینوں کو جو وہ اللہ کے نام پر وقف کردیتے ہیں، ایسی زمینوں میں قبرستان، مساجد، عید گاہیں اور مدارس وغیرہ شامل ہیں، ان کا خیال رکھتے ہیں۔ ان کے انتظام کے لیے باقاعدہ قوانین ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ ان کے ترمیمی ایکٹ کی دفعات کے مطابق مختلف منسلک اداروں، حکومت اور حکومتی اداروں کو رپورٹ بھیجنا، ریونیوکے مسائل، غریب عوام کی بہبود وغیرہ شامل ہیں۔

یہ ایک الگ طویل بحث ہے لیکن بھارت کی ایک بڑی اقلیت کی وقف کی جائیداد جس کی فہرست اور اراضی طویل اور قیمتی ہے، کس طرح اورکن تراکیب سے گویا اب انگلی ٹیڑھی کر کے گھی نکلوانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یہ فسانے تو پچھلے کئی سالوں سے سنتے آ رہے تھے لیکن اب کھل کر قبرستانوں، مساجد اور عیدگاہوں کی اراضی کو کس طرح مسلمانوں کے قبضے سے چھڑانا ہے اور اس کو قانونی اور غیر قانونی طریقے سے بی جے پی کی سرکار کے نرغے میں لانا ہے یہ ہے مودی سرکار کا ایک بڑا گیم۔ یہ درست ہے کہ اس بار الیکشن میں مودی سرکارکو بھاری اکثریت سے کامیابی نہیں ملی ہے اور نہ ہی وہ اپنے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں،گھر بنانے کے دعوے کھوکھلے ہیں یا نہیں لیکن ان کے حکومتی بلڈوزرگھروں کوگراتے ضرور نظر آئے۔

بڑھتی ہوئی بے ہنگم آبادی کے درپیش مسائل تو بے ہنگم ہیں ہی، لیکن مودی سرکارکو ہندو آبادی کے کم ہوتے تناسب پر بھی تشویش ہے۔ ایسے میں وہ’’ لو جہاد‘‘ کے ساتھ، زمین جہاد کے خلاف بھی تیر چھوڑ رہے ہیں اور یہ تیر وقف بورڈ کی نئی ترامیم کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان خیراتی اوقاف میں بار بار ترامیم کی ضرورت کیوں پیش آئی جبکہ ہندو مذہبی خیراتی اوقاف میں اس کی ضرورت کیوں محسوس نہ کی گئی۔

نہ ہی ان کو دستاویزات ثبوت کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو ایسا مسلمانوں کے خیراتی اداروں کے ساتھ ہی کیوں؟ اس کا جواب آسان الفاظ میں قبضہ ہے۔ اس ایک لفظ سے بہت سارے معنی پوشیدہ ہیں جنھیں ترامیم کی گردن ہاتھ، پیر توڑ مروڑ کر بنایا گیا ہے۔بھارتی وزیر داخلہ امیت شا جلد ہی اس ترمیمی بل کے ساتھ منظر عام پر آئیں گے، یہ ترمیم شدہ بل مسلمانوں کی وقف کی ہوئی املاک کی صحت اور حفاظتی تدابیر پرکس طرح اثرانداز ہوگا، یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن بھارت میں وقف بورڈز تیسرا بڑا لینڈ بینک ہے جو یقینا وسیع ہے۔

اس کے پاس 9 اعشاریہ چار لاکھ ایکڑ پھیلی آٹھ اعشاریہ سات لاکھ جائیدادیں ہیں۔ پہلی بار وقف ایکٹ 1954 میں بنایا گیا، جسے بعد میں رد کر کے 1995 میں نیا وقف ایکٹ منظورکیا گیا تھا۔ 2013 میں اس میں مزید ترامیم کی گئی تھیں لیکن 2024 میں چالیس نئی ترامیم کے ساتھ یہ ایکٹ ایک ہیئت کے ساتھ مسلمانوں کی جائیدادوں کے حوالے سے سوال کھڑے کر رہا ہے۔ اس کے ذریعے مسلمانوں کو دھکیلا جا رہا ہے اور ان سے ان کے سرکی چھت بھی چھیننے کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔بی جے پی کے اس عصبیت پسندانہ رویے نے یہ ظاہرکردیا ہے کہ ان کے پاس مسلم دشمنی کے طور پر جو مخصوص کارڈ محفوظ تھا، وہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ گجرات میں پہلے دن سے وزارت کی کرسی پر چڑھ کر نریندر مودی نے جس کھیل کا آغازکیا تھا۔ عمرکے اس دور میں وہ اسے پورا کرنے کا خواب مکمل کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہ بھول رہے ہیں کہ ان کی تدابیر اور فیصلوں کو ملیا میٹ کرنے کی طاقت رکھنے والا باخبر ہے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں