27

خوامخواہ کا دانشور اور بقلم خود

میرا ایک دوست خوامخواہ کا دانشور ہے، اس سے کوئی بات کر لو،اس کا جواب زمان ومکاں سے ہوتا ہوا شعور اور تحت الشعور میں پیوست ہو جائے گا۔ میں نے کئی بار جھلا کر اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے، بھائی ہر وقت دانشوری اچھی نہیں لگتی۔ کبھی کبھی ظرافت ولطافت کا مزہ بھی اٹھانا چاہیے۔ حضرت اقبال نے بھی فرما رکھا ہے:

اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

لیکن شاید میری باتوں میں وہ تاثیر نہیں جو خوامخواہ دانشور کو حس ظرافت اور لطافت سے آشناکر سکے۔ خاصے عرصے کے بعد موصوف مجھے آج پھر ملے۔ زباں پر یہ شعر سجائے ہوئے۔

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

میں نے پوچھا، اے دوست! کون سی بات ہے جو دل میں لیے پھرتے ہو اور کہہ نہیں پا رہے۔ اس نے جواب دیا، کیا تمہیں پتہ نہیں ہے کہ دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے اتنا خطرہ نہیں ہے جتنابے حد و حساب آبادی میں اضافے سے ہے۔خصوصاً ترقی پذیر ملکوں کے سارے وسائل بڑھتی ہوئی آبادی ہڑپ کرتی جا رہی ہے‘‘۔ میں نے مسکرا کر جواب دیا۔ جناب! ملک کے وسائل وہاں بسنے والی آبادی کے لیے ہی تو ہوتے ہیں، کسی اور سیارے کی مخلوق کے لیے تو ہوتے نہیں ہیں لہٰذا اگر اس ملک کی آبادی اپنے وسائل کھا رہی ہے تو یہ ان کا حق ہے۔ اس میں پریشانی کی بات تو کوئی نہیں ہے۔اور یہ بات کرنی بھی کوئی ایسی مشکل نہیں ہے جیسی آپ شعر کے ذریعے عرض کر نے کی کوشش کر رہے ہیں۔

موصوف کے چہرے پر دانشورانہ نقش ونگار گہرے ہو گئے۔ اور بولے حضور! ’’دائیں طرفیے‘‘ کے ساتھ آبادی کے ایشو پر مت الجھنا ورنہ منہ کی کھانی پڑے گی بلکہ ’’جان کی کھانی‘‘ بھی پڑ سکتی ہے۔ میں بولا کہ اس میں کون سی ایسی خطرناک بات ہے، سب کو پتہ ہے کہ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ پاپولیشن اینڈ گروتھ ریٹس آف یونائیٹڈ نیشن کے ڈیٹا کے مطابق چین آبادی میں نمبرون جب کہ بھارت آبادی کے وکٹری اسٹینڈ پر دوسرے نمبر پر موجود ہے۔

الحمد للہ پاکستانی 24 کروڑ ہو چکے ہیں، جس رفتار سے ہم اس شعبے میں ترقی کر رہے ہیں، تو وہ وقت دور نہیں جب اس مختصر سے رقبے میں ہم دنیا میں سب سے زیادہ انسان ہوں گے۔ تیرہ چودہ کروڑ تو پنجابی ہیں، ماشاء اللہ سندھی بھائیوں کی تعداد بھی چھ کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ خیبرپختونخوا میں ہمارے بھائی پانچ کروڑ ہندسے کے قریب قریب پہنچ چکے ہیں جب کہ بلوچستان کی آبادی ڈیڑھ سے پونے دو کروڑ افراد پر مشتمل ہے۔میں تو برملا یہ کہتا ہوں کہ ہمارے پاس ایٹمی اسلحہ ہو یا نہ ہو، ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا اور نہ ہی ہمارا کوئی مالی اور معاشی بوجھ اٹھا سکتا ہے بلکہ نوبت یہاں تک پہنچنے والی ہے جب ہمارے ہمسائے خوف کے مارے اپنے دروازے اور کھڑکیاں بند کر لیں گے کہ کہیں ہم ان کے گھر میں نہ آ جائیں۔بھلا ایسے ملک پر کون قبضہ کرے گا؟ اور کس میں دم ہے کہ ہمیں غلام بنائے۔ اتنے سارے غلاموں کو تو ایک وقت کا کھانا دینا بھی ’’خالہ جی کا گھر‘‘ نہیں ہے۔

میرا دوست ذرا غصے میں آ گیا۔ کہنے لگا کہ تم جیسے لوگوں نے ہی پاکستان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ میں اتنے بڑے خطرے کی نشاندہی کر رہا ہوں اور تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے۔ کیا تمہیں معلوم ہے، گرافک اینڈ ہیلتھ سروے آف پاکستان 2017-18کے مطابق صحت و تعلیم اور آبادیاتی اشاریوں جیسے امور میں پاکستان کی پیش رفت خاصی سست ہے۔

شرح آبادی میں غیرمعمول اضافے کا ایک نتیجہ غذائیت میں کمی بھی ہے جس کی وجہ سے اکثر بچے وزن کی کمی کا شکار رہتے ہیں۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ ہماری آبادی میں اضافے کی شرح دو سے تین فیصد سالانہ ہے۔ذرا سوچو 2040تک ہمارے بال بچوں کی تعداد کتنی بڑھ چکی ہو گی؟ ان بچوں کے لیے اسکول بھی چاہئیں، انھیں خوراک بھی چاہیے، انھیں کپڑے بھی چاہئیں، انھیں جوتیاں بھی چاہئیں، دوائیاں بھی چاہئیں، علاج کے لیے اسپتال بھی چاہئیں، ہمارے پاس توپھوٹی کوڑی نہیں ہے، ہمارے وزیراعظم آئی ایم ایف، عالمی بینک، امریکا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے پیسے مانگ مانگ کر ہلکان ہو رہے ہیں۔ جو تھوڑے بہت پیسے ملتے ہیں، ان میں سے ہم خود کھاتے ہیں اور کچھ اپنے بچوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔اٹھارہ بیس برس بعد ہمارے پاس پیسے کہاں سے آ جائیں گے کہ ہم اتنی بڑی آبادی کو یہ سہولتیں دے سکیں۔

اس نے میری طرف دیکھا اور بولا کہ جب تم جیسے صحافی کے سوچنے کا انداز اتنا عمومی ہے، تو اس ملک نے کیا خاک ترقی کرنی ہے۔ تم جیسے لوگ سنگین بات کو بھی ہنسی مذاق میں اڑن دیتے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان پہلے دولخت ہوا اور آج افغانستان جیسا کنگال ملک بھی ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے۔ اگر تم جیسے صحافی اور سرکاری افسران اور سیاست دان نہ ہوتے تو کیا ہی اچھا ہوتا؟ میں اپنی توہین پر تلملایا اور جوابی وار کیا کہ تم جیسے خوامخواہ کے دانشوروں نے سوچ سوچ کر کون سا تیر چلا لیا ہے جو مجھے اور مجھ جیسے دیگر لوگوںکو لتاڑ رہے ہو۔ تمہارا زور بھی تو صرف مجھ جیسے بے ضرر قلم مزدوروں پر چلتا ہے۔ ذرا علی امین گنڈا پور کو ’’ڈنڈا‘‘ دکھاؤ تو میں تمہاری جرأت کو سلام کروں گا ورنہ مفت کی دانشوری بگھار کر میرا دماغ دہی نہ کرو۔

مجھے معلوم ہے پاکستان میں محکمہ بہبود آبادی بھی ہے، مجھے تو آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اس ادارے کا کام کیا ہے اور اس نے کیا کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ سوائے آگاہی پروگراموں اورسیمینارز کااہتمام کرنے اور کتابچے چھاپنے کے، اس ادارے کے افسران وملازمین کا کیا کام ہے؟یہ کام تو ٹی اسٹالوں اور تھڑوں پر بیٹھے عام لوگ بھی روز کرتے ہیں اور وہ یہ کام بغیر کسی تنخواہ کے کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہر صوبے میں محکمہ بہبود آبادی کا فیملی پلاننگ کا ایک جامع اور مربوط نیٹ ورک کام کر رہا ہے، محکمہ بہبودآبادی لوگوں کے رویوں میں تبدیلی لانے کے لیے مصروف عمل ہے۔

ماہرین خاندانی منصوبہ بندی ذرایع ابلاغ کے ذریعے کامیابی سے عوام کو آگاہی فراہم کر رہے ہیں۔ اب مجھے بتاؤ کہ یہ ماہرین منصوبہ بندی کہاں ملتے ہیں؟ ان ماہرین کی دن رات کی محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ آبادی میں ہوشربا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ محکمہ بہبود آبادی کے افسران، ملازمین اور ماہرین کا مشن آبادی میں اضافہ کرنا، پھر مزید اضافہ کرنا اور مسلسل اضافہ کرتے جانا ہے۔ جس طرح محکمہ ماحولیات کا کام آلودگی کی نشاندہی کرنا ہے، اسے ختم کرنا نہیں ہے۔

میں کہتا جا رہا تھا اور میرا دوست سنتا جا رہا تھا۔ اس نے میری طرف دیکھا اور اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے خاموش رہنے کا سگنل دیا۔ میں چپ ہو گیا۔ اب اس نے پھر وہی مصرع دہراتا۔ ’’بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی‘‘ اب میں بھی کچھ کچھ سمجھ رہا تھا۔

وہ بولا! اصل مسئلہ ہمارے دماغ اور اس دماغ پر قابض خیالات ہیں۔ پاکستان جن مشکلات، مسائل اور خطرات سے دوچار ہے، ہمارا دماغ انھیں تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہمارے نظریات دائیں طرف جاتے ہیں جب کہ مسائل کا حل بائیں طرف ہے۔ محض بڑھتی ہوئی آبادی کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل اور ان کے حل کے بارے میں ہماری سوچ اور فکر حقائق کے الٹی سمت جانے کا مشورہ دیتی ہے۔ہم توشرح پیدائش میں کمی لانے کے لیے جو اقدامات کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے بھی ملفوف معنی والے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً خاندانی منصوبہ بندی کا نام استعمال کیا جاتا ہے۔ اب اس کا کوئی جو بھی مطلب لینا چاہے لے سکتا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تعلیم معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ پڑھے لکھے مرد اور خواتین بڑے خاندان کی مشکلات کا اندازہ اور بڑھتی ہوئی آبادی کے نتائج کو سمجھ سکتے ہیں۔ وہ چھوٹے خاندان کو اختیار کرسکتے ہیں لیکن یہ سب کچھ فرد کی اپنی سوچ پر منحصر ہے۔ اس میں حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے اور نہ ہی اہل علم کی کوئی رہنمائی شامل ہے۔ اب مجھے خوامخواہ دانشور اچھا لگ رہا تھا۔ اس کا شعر بھی حسب حال ہے۔ واقعی پاکستان میں کچھ باتیں کرنا، مشکل کام ہے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں