59

ایسا نہیں ہوتا – ایکسپریس اردو

[ad_1]

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں بہت سی باتوں کی باز گشت ہے۔ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ رکھنے والا بااثر گروپ اور اس گروپ کے کارندے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ان کے خلاف زہریلی مہم چلا رہے ہیں۔اس فسادی گینگ کے کل پرزوں نے بدتمیزی، زبان درازی اورجھوٹ کی آخر حدیں تک کراس کرلی ہیں ۔ محترم چیف جسٹس آف پاکستان کی کسی ججمنٹ پر تنقید ہو سکتی ہے مگر آئینی و قانونی امور میں ذہانت ، میرٹ پر فیصلہ کرنے کی جرات اور معاملات میں دیانتداری ، لگن اور شفقت سب کو نظر آ تی ہے، کوئی شخص ان پر انگلی نہیں اٹھا سکتا البتہ بہتان تراشوں کی بات الگ ہے ۔

سچ یہ ہے کہ محترم چیف جسٹس نے ایک مخصوص بیانیہ کو بڑھنے سے روکا۔ ان لوگوں ایک بڑا دھچکا لگاجو اس مخصوص بیانئے کے حامی تھے، جنھیں جسٹس منیر اور ان جیسے دیگر صاحبان کی ضرورت رہتی ہے ، وہ حد درجہ مایوس اور خوف زدہ ہیں۔ موجودہ چیف جسٹس اس بات کو سمجھتے اور مانتے ہیں کہ آئین پارلیمان نے دیا ہے اور پارلیمنٹ کو قوانین بنانے ، ان میں ترامیم لانے اور اپنے بنائے قوانین کو ختم کرنے کا اختیار حاصل ہے کیونکہ پارلیمان کو ہر پانچ سال بعد عوام منتخب کرتے ہیں اور اس کی ذمے داری اور فرض یہی ہے کہ وہ قوانین بنائے۔

ستمبر کے مہینے میں عدلیہ کے نئے سال کے موقعے پر چیف جسٹس نے کہا تھا کہ کم ازکم اپنی ذات کے لیے وہ کسی کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس جاری نہیں کریں گے، مگرآپ اپنا شوق ضرور پورا کیجیے، ان کی توہین کرکے۔ ایسے لوگ ان کی مخالفت میںسامنے آئے جن کی سیاسی تربیت انتہائی پسماندہ اور ذ ہنی بیمار ماحول میں ہوئی ہے۔ ہمارے لیے سب جج صا حبان عزت مآب ہیں۔ان کو عزت دے کر ،ہم ان کو نہیں بلکہ اپنی عدلیہ کے سسٹم کی عزت کرتے ہیں،کیونکہ اگر یہ سسٹم چلا گیا۔ یہ عزت اور بھرم ٹوٹ گیا تو باقی کچھ نہ رہ جائے گا۔

قاضی فائز عیسیٰ کیا کرہے ہیں اور کیا کہتے ہیں یہ وقت ایسی باتوں کا نہیں ، ان کے ریٹائر ہوجانے کے بعد یہ باتیں کہی جا سکتی ہیں اور تایخ سب سے بڑی حقیقت ہے ۔مورخ ان کے بارے میں جو رقم کرے گا وہ ہی حقیقت ہے۔جب جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کے تحت پاکستان کا پہلا فیصلہ سنایا تھا ،آج ہم اس مرحلے پر دیکھ سکتے ہیں تاریخ میں ان کا مقام کیا ہے۔اس بات کا اطمینان بھی رکھیے کہ قاضی فائز عیسیٰ عدلیہ کی تاریخ میں وہ حاصل کریں گے جو آج تک چند ہی جج صاحبان شاید حا صل کرسکے ہیں، وہ انھیں صفوں میں ہوںگے جہاں جسٹس، کارنیلیس، جسٹس کیانی اور جسٹس دراب پٹیل ہیں۔ یہ مقام اسے ہی ملتا ہے جسے قدرت دینا چاہتی ہے۔

پاکستان میں بہت Polarization ہوئی ہے۔یہ عداوت ہر ادارے سے لے کر عام لوگوں تک پھیلی ہے،نفرتوں کی دیواریں کھڑی کی گئی ہیں۔جس طرح سے صف بندی ہو رہی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ دہائیوں سے اعلیٰ عدالتوں نے جو فیصلے صادر کیے ہیں، وہ ایک مخصوص سوچ کے حق میں کیے ہیں۔ گورنر جنرل غلام محمد ، سکندر مرزا، ایوب خان ، یحیی خان ، ضیاالحق اور پرویز مشرف تک کو آئینی و قانونی تحفظ فراہم کیا گیا،کم از کم اب یہ سلسلہ رکا ہوا ہے۔

اب حکومت کو خوف یہ ہے کہ کہیں یہ سلسلہ پھر سے نہ چل پڑے۔یہ تمام معاملات آخر میں جلسے ، جلوسوں اور تحاریک کا روپ لے سکتے ہیں۔اس تمام غیر یقینی صورتحال پرہماری معاشی صورتحال حاوی تھی جو بد حالی کا شکار تھی۔معاشی صورتحال کو قابو پانے میں موجودہ حکومت بہت کچھ حاصل کر گئی ہے۔آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر منظور کروائے، ٹیکس نظام میں دہائیوں بعدانقلابی اقدامات کر کے ، افراطِ زر کو کنٹرول کیا ۔

1947 میںپاکستان جب معرض وجود میں آیا تو جغرافیائی اعتبار سے یہ بر صغیر کا وہ ٹکڑا ہے جہاں سے بر َ صغیر پر پے در پے حملے کیے گئے۔ پاکستان کو آزادی ملنے کے بعد بر صغیر کو ان حملہ آوروں سے نجات ملی مگر ہمیں نہیں، ہمیں افغان بارڈر ورثے میں ملا۔ایک شورش ورثے میں ملی اور اس میں رنگ بھرے سرد جنگ نے۔

آج تک ہم افغان بارڈر کو مضبوط و محفوظ نہ کرسکے اورتاوقت ایسا نہیں ہو سکتا جب تک کہ افغانستان دنیا کی مہذب ریاست بن کر نہ ابھرے جس کے رجحانات آیندہ دس یا بیس سالوں تک نظر نہیں آرہے ہیں ۔ اس جغرافیائی تناظر میں ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم یہاں سیاسی عدم استحکام کی وجوہات کو دیکھیں۔ ہمارے سیاسی اور معاشی حالات بہتر نہیں ہو پائیں گے جب تک یہ بارڈر واپس بارڈر نہیں بنتا۔ہمیں اپنی تاریخ کو تا تاریوں، ترخانوں اور ترکوں کی تاریخ سے الگ کرنا ہوگا اور اپنی تاریخ کو اپنی مٹی سے ، یہاں کے لوگوں سے، بلھا اور باہو سے، سچل سے اور فریدسے جوڑنا ہوگا۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں