[ad_1]
پاکستان کی تاریخ میں بڑے بڑے غیرملکی کوچز آئے، کوئی آسٹریلیا تو کوئی انگلینڈ کا تھا، کسی کا تعلق جنوبی افریقہ تو کوئی کہیں اور کا رہائشی تھا،البتہ اگر ہم اپنی ٹیم کی تاریخ دیکھیں تو نہ ماضی میں کبھی کوئی خاص فرق آیا نہ اب دیکھا گیا،کوچ ہمیں کیا سکھاتا ہم نے اسے پنجابی اور اردو بولنا سکھا کر واپس بھیج دیا، بیچارے باب وولمر تو دنیا ہی چھوڑ گئے،ان جیسی مثالیں کم ہی ملیں گے جو پاکستان ٹیم کے ساتھ ہمیشہ کمیٹڈ رہے۔
موجودہ چیئرمین محسن نقوی نے آتے ہی غیرملکی کوچز لانے کا اعلان کیا، شین واٹسن سے ریکارڈ معاوضے پر معاملات تقریبا طے ہوگئے لیکن پھر بعض وجوہات کی بنا پر انھوں نے ارادہ تبدیل کردیا، اس کا الزام میڈیا پر دھرا گیا کہ چونکہ ریکارڈ معاوضے والی خبر شائع ہوئی اس سے واٹسن پریشان ہو گئے،حالانکہ ایسی بات نہیں تھی، بعد میں جیسن گلیسپی اور گیری کرسٹن نے کوچنگ سنبھالی، کرسٹن کے ’’کارنامے‘‘ ورلڈکپ میں آپ نے دیکھ لیے، گلیسپی کا آغاز بنگلہ دیش جیسی ٹیم کیخلاف اولین وائٹ واش کے ساتھ ہوا،وائٹ بال میں ابھی آگے پتا نہیں کیا ہوگا لیکن ٹیسٹ کرکٹ میں ایسا لگتا ہے کہ ہم نے غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
زمبابوے کی ٹیم بھی جب ہارے تو اس کے بعد تبدیلیاں کی جاتی ہیں تاکہ آگے بہتر نتائج سامنے آئیں، پاکستان میں کوئی ایسا کرنے کو تیارنہیں، غیرملکی کوچز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سیاست سے دور رہتے ہیں لیکن یہ بات درست نہیں لگتی، درحقیقت کچھ عرصے بعد وہ اسی ماحول کا حصہ بن جاتے ہیں،چیمپئنز کپ میں کمنٹری کے دوران آپ نے جیسن گلیسپی کی باتیں سنی ہوں گی،وہ سینئرز کو ہی کھلانے پر اصرار کرتے رہے، صرف سرفراز احمد کے بارے میں کہا کہ ان کی عمر زیادہ ہو گئی لہذا کسی نوجوان وکٹ کیپر کو دیکھنا ہوگا،سرفراز ان کی منتخب کردہ ٹیم کا بھی حصہ ہیں،38 سالہ اسپنر نعمان علی کا کم بیک ہو گیا، یہیں سے کوچ کے کنفیوژ ہونے کا اندازہ ہوتا ہے، بنگلہ دیشی ٹیم ہمیں دونوں ٹیسٹ ہرا کر گئی، بھارت نے اس کا کیا حال کیا؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم کتنا پیچھے رہ گئے ہیں، عبداللہ شفیق سے آغاز کرتے ہیں، آخری 10 اننگز میں ان کی ایک نصف سنچری ہے۔
اس دوران وہ صرف تین بار ڈبل فیگر میں داخل ہوئے اور اتنی ہی مرتبہ صفر پر وکٹ گنوائی مگر وہ اب بھی ٹیم کا حصہ ہیں،صائم ایوب کو زبردستی ٹیسٹ کرکٹر بنا تو دیا لیکن وہ ففٹی کو ہی ڈبل سنچری سمجھتے ہیں، کپتان شان مسعود کی آخری 27 اننگز کو دیکھیں تو اس میں کوئی سنچری شامل نہیں، چار بار انھوں نے ففٹی پلس اسکور بنایا،انھوں نے 19 کی اوسط سے 528 رنز بنائے ہیں، کیا کسی اور کو آپ اتنے چانس دیتے؟ ان کی کپتانی میں ٹیم پانچوں ٹیسٹ ہار چکی لیکن پھر بھی تبدیلی سے گریز کیا گیا، وہ 35 برس کے ہو چکے بطور قائد کوئی بڑا کیریئر بھی سامنے نظر نہیں آتا،اسی طرح بابر اعظم کو نصف سنچری بنائے 16 اننگز گذر چکیں، انھوں نے اس دوران331 رنز 20 کی ایوریج سے اسکور کیے، سعود شکیل کو دیکھ لیں، کارکردگی میں تسلسل نظر ہی نہیں آتا، آخری 12 اننگز میں انھوں نے ایک سنچری اور ایک ففٹی بنائی، ہم نے انھیں نائب کپتان بنا کر آسمان کی بلندی پر بٹھا دیا، یہ ہماری ٹاپ آرڈر بیٹنگ کا حال ہے ایسے میں اگر ہم ساڑھے تین سال میں 11 ہوم میچز میں سے کوئی نہیں جیت سکے تو وجہ سمجھ آتی ہے، بولرز کی کارکردگی بھی خاص نہیں، حالیہ کچھ عرصے میں ہوم گرائونڈ پر سب سے بدترین ریکارڈ ہمارے پیسرز کا ہے، شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ انجریز سے نجات کے بعد سابقہ فارم میں واپس نہیں آ سکے، نوجوان پیسرز میں کوئی ایسا نہیں جسے میچ ونر کہہ سکیں، اسپنرز تو ہمارے ملک میں ایسے نایاب ہوگئے جیسے گرمیوں میں بجلی اور سردیوں میں گیس ہوتی ہے۔
قومی خزانے کی طرح ٹیم میں آل رائونڈز کا شعبہ بھی خالی ہے، اس کے باوجود آپ تبدیلیوں سے گریز کر رہے ہیں، جب تک نئے پلیئرز کو نہیں آزمائیں گے کیسے جیت سکتے ہیں؟ ہار تو ویسے ہی رہے ہیں بولڈ فیصلے کر کے ہاریں، کروڑوں روپے خرچ کر کے چیمپئنز کپ کرانے کا کیا فائدہ ہوا جب اس کا نمایاں پرفارمر کامران غلام ہی منتخب نہ ہو سکا، آپ کہیں گے کہ ون ڈے کی پرفارمنس پر کیسے لیتے تو بھائی اتنی اہم ٹیسٹ سیریز سے قبل ون ڈے ٹورنامنٹ کرایا ہی کیوں؟ویسے کامران نے تو قائد اعظم ٹرافی میں بھی 66 کی اوسط سے 600 کے قریب رنز بنائے تھے،صاحبزادہ فرحان سب سے زیادہ رنز بنا کر کدھر ہے؟ بابر اعظم کی بات اور ہے، وہ پاکستان کیلیے ماضی میں تسلسل سے بہترین پرفارم کر چکے البتہ دیگر نان پرفارمرز کو تو تبدیل کیا جا سکتا ہے، سری لنکا میں کمینڈو مینڈس رنز کے ڈھیر لگا رہے ہیں کاش ہمیں بھی ایساکوئی نوجوان بیٹر مل جائے، چیمپئنز کپ کی اتنی ہائپ بنائی کون سا نیا ٹیلنٹ دریافت ہوا؟آخر میں قومی ٹیسٹ پلیئرز کو باہر کر کے ایونٹ میں دلچسپی بالکل ختم کردی گئی۔
پلیئرز کو آرام کی ضرورت ہے یہ بھی گلیسپی کو آسٹریلیا سے آکر بتانا پڑا، اگر پہلے ہی کام کے بوجھ کو مینج کرتے اور ریسٹ بھی دیتے رہتے تو آخر میں سب کو نہ بٹھانا پڑتا، کیا شیڈول بناتے وقت یہ نہیں پتا تھا کہ 7 اکتوبر کو انگلینڈ کیخلاف پہلا ٹیسٹ شروع ہونا ہے؟ مینٹورز کے وارے نیارے ہیں لیکن شاہین انجرڈ ہوگئے اور وقار یونس اے سی والے کمرے سے باہر نہ آئے، زخمی ہونے کے باوجود شاہین بیٹنگ کیلیے گئے انھیں کسی نے نہ روکا، اب اگر وہ پہلا ٹیسٹ نہ کھیل سکے تو کون ذمہ دار ہوگا؟ارے ہاں کنیکشن کیمپ کا کیا فائدہ ہوا، آپ جاوید میانداد، ظہیرعباس ، انضمام الحق جیسے سابق اسٹارز کو مدعو کر کے تجاویز لیتے، یہاں سعود شکیل، سلمان علی آغا اور صائم ایوب جیسے’’الیٹ کرکٹرز‘‘ کو ترجیح دی گئی، اتنی اہم ٹیسٹ سیریز کے انٹرنیشنل میڈیا رائٹس بھی اب تک فروخت نہیں ہو سکے ہیں، معاملات اچھے انداز میں نہیں چل رہے، گلیسپی بھائی سے بہتر فیصلوں کی امید تھی مگر ان پر بھی پاکستانی پانی اثر کر گیا، اب تو بس دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ ٹیم انگلینڈ کیخلاف سیریز میں بہتر پرفارم کرے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
[ad_2]
Source link