53

ایک صدی کا سفر طے کرنے والے افراد میں مشترک عادات

[ad_1]

بلاشبہ زندگی قدرت کا وہ انمول تحفہ ہے، جس کی حفاظت اور درازی ہر انسان کی فطری خواہش ہے، تاہم چوں کہ موت بھی ایک اٹل حقیقت ہے تو اس سے انکار ممکن نہیں لیکن زندگی کی ڈور کو کھینچ کر بڑھانے کی کوششیں تاریخ انسانی کی قدامت سے حال تک جاری ہیں۔

صحت مند طویل زندگی ایک ایسا معمہ ہے، جس کو جاننے کی انسانی جستجو جاری و ساری ہے۔ دنیا میں سو کا سپر ہندسہ عبور کرنے والے افراد کی تعداد محدود ہے لیکن ایسا ہونے کی ہر کوئی دعا ضرور کرتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ طویل العمری قسمت پر منحصر ہے، لیکن جو لوگ ایک صدی کا قصہ سنانے والے ہیں، ان میں شائد کچھ ایسی عادات یا خوبیاں ضرور ہوتی ہیں، جن سے دوسرے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ تو یہاں ہم آپ کے لئے چند ایسی چیزیں رکھنے جا رہے ہیں، جو صد سالہ زندگی کو پہنچنے والے تمام افراد میں مشترک ہیں۔

انسانی جینز

امریکن جرنل آف کارڈیالوجی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ایسے افراد جن کے والدین میں سے اگر کسی ایک کی عمر 95 سال یا اس سے زیادہ ہے، تو وہ افراد ایک صحت مند اور ممکنہ طور پر طویل زندگی گزارتے ہیں۔ محققین نے بتایا کہ جن افراد کے والدین میں سے اگر کوئی ایک بھی 95 سال کی عمر سے گزر چکا ہے تو ایسے افراد میں ہائی بلڈ پریشر ہونے کے امکانات 29 فیصد، فالج کا حملہ ہونے کے امکانات 65 فیصد اور دل کی بیماری کے امکانات 35 فیصد کم ہوتے ہیں۔

علاوہ ازیں ایسے افراد کی سماجی و اقتصادی حیثیت، جسمانی سرگرمی، خوراک، اور طرز زندگی کی دیگر عادات میں نمایاں فرق پایا گیا ہے۔ نیو یارک کے برونکس میں البرٹ آئن سٹائن کالج آف میڈیسن میں انسٹی ٹیوٹ فار ایجنگ ریسرچ میں طویل العمری کے مطالعہ کی ڈائریکٹر صوفیہ ملمن کہتی ہیں کہ ایسا نہیں کہ یہ افراد کم چکنائی والے کھانے کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ لمبی عمر کا صرف 25 فیصد جینیات سے متعلق ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس حصے کے پیچھے کارفرما محرکات یعنی طرز زندگی آپ کی زندگی کے 75 فیصد پر اثرانداز ہوتا ہے۔

دوسری جانب دلیپ جست، ایم ڈی، ماہر نفسیات اور نیورو سائنسز کے ممتاز پروفیسر اور کیلیفورنیا سان ڈیاگو یونیورسٹی میں سیم اینڈ روز سٹین انسٹی ٹیوٹ آن ایجنگ کے ڈائریکٹر کہتے ہیں کہ لمبی عمر پیچیدہ معاملہ ہے۔

متعدد جینز کا تعلق اس بات سے ہے کہ ہم کتنے عرصے تک زندہ رہتے ہیں، ڈاکٹر دلیپ جست اٹلی کے ایک خطہ Cilento کے رہائشیوں کا مطالعہ کرنے والی ٹیم کا بھی حصہ رہے، جہاں بوڑھے غیر معمولی طور پر طویل صحت مند زندگی گزارتے ہیں۔ صد سالہ جیک پاٹ کو حاصل کرنے کے لئے طاقت ور جینز کی ایک صف کو آپ کے حق میں مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی تمباکو نوشی کرتا ہے اور کسی نے نہیں کی تو، تمباکو نوشی کرنے والے کے پھیپھڑوں کا کینسر ہونے کا امکان دوسرے کے مقابلے میں 5.4 گنا زیادہ ہوگا، اس طرح اس کی لمبی عمر کے امکانات کو نمایاں طور پر نقصان پہنچتا ہے۔

دائمی بیماریوں سے تحفظ

ڈاکٹر ملمن کہتی ہیں کہ بہت سے صد سالہ افراد کو عمر سے متعلقہ بیماریاں، جیسے کینسر وغیرہ بہت بعد کی عمر میں ہو جاتی ہیں۔ البرٹ آئن سٹائن کالج آف میڈیسن اور بوسٹن یونیورسٹی اسکول آف پبلک ہیلتھ کے درمیان مشترکہ مطالعہ میں ڈاکٹر صوفیہ ملمن اور محققین کی ایک ٹیم نے پایا کہ جس عمر میں ان صد سالہ افراد کو بعض بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا، اس میں 18 سے 24 سال کے درمیان تاخیر ہوئی۔

تو کیا آپ کے 100 تک پہنچنے تک سنگین بیماریوں سے بچنا اس بات کا اشارہ ہو سکتا ہے کہ آپ کے پاس کچھ اور اچھے سال باقی ہیں؟ جرنلز آف جیرونٹولوجی کے 2008 کے شمارے میں، محققین جنہوں نے سپر سنٹیرینین (110 یا اس سے زیادہ عمر پانے والے افراد) کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ مذکورہ افراد کی اکثریت روزمرہ کی زندگی کی سرگرمیوں کے لحاظ سے آزاد تھے، ان میں چند لوگ ہی ایسے تھے، جنہیں کسی بھی قسم کی طبی امداد حاصل کرنا پڑی۔

جسمانی تحریک

جسمانی طور پر متحرک رہنے کی عادت نہ صرف اچھی صحت بلکہ طویل العمری سے بھی وابستہ ہے۔ امریکن نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ہفتے میں صرف2.5 گھنٹے کی معتدل جسمانی سرگرمی آپ کی زندگی کو 3.4 سال تک بڑھا سکتی ہے۔ اوکیناوا سینٹینیرین اسٹڈی(تحقیق) کے دوران جاپانی گاؤں کے ان رہائشیوں پر تحقیق کی، جہاں دنیا کے سب سے زیادہ صد سالہ افراد رہتے ہیں۔ اس تحقیق سے پتہ چلا کہ زیادہ تر صد سالہ افراد خود کو جسمانی سرگرمیوں میں مصروف رکھتے ہیں اور یہ سرگرمی ان کی شریانوں کو صاف رکھتی ہے، ان لوگوں نے صرف فٹنس کو اپنا طرز زندگی بنایا، چاہے وہ ٹہلنا ہو یا باغ کی دیکھ بھال، اس سرگرمی نے انہیں بظاہر طویل العمری کی نعمت عطا کی۔

کم کھانا

سو سال یا اس سے زائد عمر پانے والے افراد کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سوچ سمجھ کر کھاتے ہیں۔ ڈاکٹر دلیپ جست کہتے ہیں کہ ان افراد کے کھانے کی میز پر آپ کو یہ سننے کو نہیں ملے گا کہ میں بھر چکا ہوں، پھر یہ اکیلے کھانا نہیں کھاتے بلکہ خاندان والوں یا رشتہ داروں کے ساتھ اپنا کھانا بانٹتے ہیں۔ مثال کے طور پر اوکیناوا میں بزرگ کھانے سے پہلے کہتے ہیں، ’’ہارا ہاچی بو‘‘ جس کا مطلب ہے کہ ’’صرف اس وقت تک کھاؤ جب تک کہ تمہارا پیٹ 80 فیصد تک بھر نہ جائے‘‘ اوکیناوا میں رہنے والے ایک بزرگ نے اپنی پوری زندگی میں ایک دن میں تقریباً 1,900 کیلوریز کا استعمال کیا جبکہ امریکی اکثر اس سے دوگنا کھا جاتے ہیں۔

ایسا کیوں ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ضرورت سے زیادہ کھانے سے ہمارے میٹابولک نظام پر دباؤ پڑتا ہے، جب کہ کیلوریز کی کثرت آکسیڈیٹو تناؤ، سوزش، انسولین کی حساسیت اور دیگر ایسے جسمانی معاملات سے منسلک ہوتی ہے، جو عمر بڑھنے کے عمل کو تیز کرتے ہیں۔ اسی طرح ان افراد کی غذا کی بات کریں تو یہ وہی ہے، جو آپ کو بے حد پسند لیکن یہ نظرانداز کرتے ہیں۔ یہ افراد چکنائی یا زیادہ چینی والی غذائیں نہیں کھاتے۔ یہ مچھلی، پھل اور سبزیاں پسند کرتے اور مناسب مقدار میں کھاتے ہیں۔

مضبوط معاشرتی تعلق

دنیا کے جن علاقوں میں صد سالہ افراد کی تعداد معمول سے زیادہ ہوتی ہے، یہاں کے بزرگ ان کے سماج کا ایک مربوط حصہ ہوتے ہیں۔ معیاری سماجی بندھن کو برقرار رکھنا، خواہ زندگی کے ساتھی، خاندان، یا دوستوں کے ساتھ، بہتر صحت سے منسلک کیا گیا ہے، جب کہ سماجی تنہائی کو نوعمری میں سوزش کے بڑھتے ہوئے خطرے اور بڑھاپے میں ہائی بلڈ پریشر کی خرابی سے منسلک کیا گیا ہے۔ جرنل آف دی امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن اور کینسر میں شائع ہونے والے مطالعات نے ایک مضبوط سوشل نیٹ ورک کو بہتر صحت یابی کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ یہ مضبوط معاشرتی تعلق کینسر اور دل کے امراض کے خطرات کو نہایت کم کرنے میں بہترین مددگار ہے۔

بزرگوں کی عزت

یہ شاید اتفاقی بات نہیں ہے کہ ایسے علاقوں میں جہاں صد سالہ افراد کی تعداد غیر معمولی طور پر زیادہ ہوتی ہے، وہاں کی ثقافت میں بزرگوں کا صحیح معنوں میں احترام پایا جاتا ہے۔ سارڈینیا میں، بزرگ روزمرہ کے معاشرے کا حصہ ہیں، انہیں ریٹائرمنٹ اور نرسنگ ہومز میں بند نہیں کیا جاتا۔ سیلینٹو میں انٹرویو کرنے والے ایک بزرگ کے بچے نے محققین کو بتایا ’’ہم ہمیشہ اپنے والد کے پاس آتے ہیں۔ وہ اب بھی ہمارا حوالہ اور ہمارے لیے ایک مثال ہے‘‘۔

سیروتفریح

دیہات میں رہنے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کے پاس کھلی زمین ہے، جو باغبانی یا ٹہلنے کے لیے بہترین ہے۔ آپ پڑوسی کے گھر یا کسی بھی کام کاج کے لئے جا سکتے ہیں، جہاں آپ کو تازہ اور صاف ہوا میسر آتی ہے۔ دنیا کے طویل العمر افراد کا کہنا ہے کہ ’’ہم ورزش، سانس، دھوپ، خالص ہوا کے صحت کے اصولوں کے مطابق ذہانت سے زندگی گزارتے ہیں‘‘ تو یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ باہر رہنا اتنا مددگار کیوں ہے؟ جس کے جواب میں ڈاکٹر جیست کہتے ہیں کہ اس میں متعدد عوامل کار فرما ہیں۔

اگرچہ کچھ لوگ جزوی طور پر سورج کی روشنی سے حاصل وٹامن ڈی کو زندگی بڑھانے کا ذریعہ قرار دے سکتے ہیں، لیکن ان کا خیال ہے کہ اس کے ساتھ دیگر عوامل کا زیادہ تعلق ہو سکتا ہے۔جب آپ باہر ہوتے ہیں تو آپ متحرک ہوتے ہیں، وہ کہتے ہیں، چاہے آپ باغبانی کر رہے ہوں یا ایک سے دوسری جگہ چل رہے ہوں، آپ درختوں اور فطرت کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ آپ الگ تھلگ محسوس کرنے کے بجائے دوسرے لوگوں کے ساتھ بات چیت کرکے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

بامقصد زندگی

طویل العمر افراد خود کو ہمیشہ کسی نہ کسی مقصد کے لئے مصروف رکھتے ہیں، چاہے اس کا مطلب خاندانی اجتماع میں جانا، اپنے پوتے، پوتیوں، نواسے، نواسیوں کی دیکھ بھال کرنا یا اپنے علاقہ میں ثقافتی طور پر پسند کیے جانے والے ہنر میں حصہ لینا ہو۔ ڈاکٹر جیست، جنہوں نے جنوبی اٹلی میں صد سالہ لوگوں کے ساتھ ایسا ہی رویہ پایا، کا خیال ہے کہ جب چیلنجز لامحالہ پیدا ہوتے ہیں تو مقصد کا یہ احساس معاملات کے تناؤ میں کمی کا باعث بنتا ہے، جب یہ افراد سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنے خاندان، بچوں، زمین یا کسی اور مقصد کے لیے یہاں آنے کی ضرورت ہے، تو ان کے ہار ماننے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔

مثبت سوچ

صد سالہ افراد کی عادات اور ماحول ہر ملک میں مختلف ہوتا ہے، لیکن ایک خاص چیز جو ان میں مشترک ہے وہ ہے ان کی مثبت سوچ۔ جب مشکل حالات پیدا ہوتے ہیں، چاہے وہ کسی عزیز کی موت ہو یا بیماری، ان کا طرز عمل مناسب ہوتا ہے، وہ جذباتیت یا منفی خیالات سے خود کو دور رکھتے ہیں۔ یہ رجائیت پسندی پوری دنیا کے صد سالہ مطالعات میں واضح ہے۔ اشکنازی جیوش سنٹیرینینز کے2016ء کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مثبت سوچ صد سالہ افراد کو ڈپریشن اور شاید دیگر بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ اور جب آپ بیماری سے بچے رہتے ہیں، تو یہ آپ کو ایک صحت مند طویل زندگی کی نوید سناتی ہے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں