30

بد تہذیبی اور بد اخلاقی

ملک کی سیاسی اور دیگر اداروں کی اہم شخصیات کے بارے میں نامناسب رویہ بعض سیاسی لوگوں کا وطیرہ بنتا جا رہا ہے۔ 2014سے ہمارے یہاں ایک سیاسی پارٹی نے اس ملک کی نوجوان نسل بالخصوص اپنی پارٹی سے وابستگی رکھنے والے نوجوانوں کی جو تربیت کی ہے اس کا خمیازہ نجانے ہم کب تک بھگتتے رہیں گے۔ اس دور سے پہلے بھی سیاسی جماعتوں اور افراد میں سیاسی اختلاف ہوا کرتا تھا لیکن عدم برداشت اورگالم گلوچ کے جس کلچرکو دانستہ یا نادانستہ یہاں بڑھایا گیا ہے، اس نے اب تمام حدیں پارکردی ہیں۔

افسوس کی بات ہے کہ اس کلچرکی روک تھام کے بجائے اس کے محرکوں نے اسے مزید تقویت بخشی ہے، وہ نہیں چاہتے کہ قوم اس نفرت اور اشتعال کی سیاست سے باہر نکل آئے۔ اخلاقی اقدارکا جنازہ نکالنے والوں نے یہ ہرگز نہیں چاہا کہ قوم محراب و منبرکی پامالی سے باز آجائے، جوش خطابت میں شعلہ بیانی اور آتش فشانی کے جوہر دکھانے والوں نے عوام کو بھی اس کا عادی اور بیمار بنا ڈالا ہے۔

یہاں اب نرم خو، خاموش طبع اور عاجز و انکسار شخصیات کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔ بداخلاقی اور بدتہذیبی نے معاشرے میں ایسی پرورش پالی ہے کہ کوئی بھی باعزت شخص اب اُن کی شر انگیزی سے محفوظ نہیں رہا۔ ملک کی کسی بھی معزز اور قابل احترام شخصیت کے ساتھ بداخلاقی پر افسوس کرنے کے بجائے یہاں شادیانے بجائے جاتے ہیں اور ایسا جشن بھی منایا جاتا ہے جیسے اس بد تمیز شخص نے بد کلامی کر کے بڑی جرأت و ہمت کا مظاہرہ کیا ہو اور نازیبا الفاظ استعمال کرکے اُن کے دلوں کو سکون اور ٹھنڈ کا سامان پیدا کیا ہو۔

عدلیہ کے خلاف نامناسب رویہ اس لیے اختیار کیا جائے کہ عدلیہ نے فیصلہ ان کی مرضی کے مطابق نہیں دیا ، مرضی کا فیصلہ آ جائے تو سب ٹھیک ہے ورنہ مخالف فیصلہ آنے پر عدلیہ کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دی جائے۔ایسے نازیبا رویہ کی کسی بھی صورت تحسین نہیں کی جاسکتی۔ جو شخصیت سیاسی پارٹی میں موجود خامیوں اور برائیوں کی نشان دہی کرے اسے بدتہذیبی کے نشانے پر رکھ دیا جائے، اور جو غلط اعمال اور خامیوں کی بھی تحسین کرے وہ ہیرو قرار پائے۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اس بارے میں سوچنا چاہیے۔

ہم بحیثیت قوم جس اخلاقی گراؤٹ اور بد تہذیبی کا شکار ہوچکے ہیں اس کی درستگی اب شاید ہی ممکن ہوسکے۔ معاشی بدحالی اور اقتصادی اصلاح تو تین چار سالوں میں درست ہوسکتی ہے لیکن نوجوان نسل کے کردار میں جو خرابی گزشتہ چند برسوں میں کردی گئی ہے اس کا علاج اور مداوا اگلے کئی دہائیوں میں بھی ممکن نہیں ہے۔ ہم اجتماعی طور پر مسلسل اخلاقی انحطاط پذیری کی طرف گامزن ہیں۔ اصلاح احوال کی کوئی کوشش کارگر ثابت نہیں ہو رہی۔ ہمیں صرف وہی شخص اچھا اور دلکش معلوم ہوتا ہے جو منہ میں جو آئے بلا سوچے سمجھے کہہ دے اور کسی کی عزت اور وقار کا خیال نہ رکھے وہ سب سے زیادہ فعال اور ماہر ہو۔

ملک کے دیگر صوبوں کے وزراء اعلیٰ کو دیکھ لیجیے اور ایک صوبے KPK کے وزیر اعلیٰ کوبھی دیکھ لیجیے، فرق واضح ہوجائے گا۔کیا کوئی اور صوبے کا وزیراعلیٰ اس قسم کی چرب زبانی اور جارحانہ انداز سیاست کا مظاہرہ کررہا ہے جیسے خیبر پختون خوا کا وزیر اعلیٰ ہر روز کر رہا ہوتا ہے۔ اسے اپنے صوبے کی ترقی و خوشحالی سے کوئی سروکار نہیں ہے وہ ہر ہفتے پنجاب میں جا کر ہلچل اور ہنگامہ آرائی کے منصوبے بنا رہا ہوتا ہے۔ لگتا ہے خان صاحب کو بھی اپنی پارٹی میں ایسے ہی لوگ پسند ہیں، جو اپنے مخالفوں کو ہر روز دھکمیاں دیتے رہیں۔ وزیر اعلیٰ کی نامزدگی کے لیے اُن کے سامنے اور بھی نام پیش کیے گئے تھے لیکن انھیں گنڈا پور اسی لیے اچھے لگے کہ وہ اُن کے ارادوں کی تکمیل کے لیے شاید سب سے موزوں شخص ہے۔ پارٹی کے اندر اور بھی شائستہ اور سنجیدہ لوگ موجود ہیں لیکن کیا بات ہے کہ خان صاحب کو اس عہدے کے لیے بس یہی ایک شخص سب سے بہتر اور موزوں لگا۔

خان صاحب کی کوشش ہے کہ یہ ملک ہر وقت انتشار اور خلفشار کاشکار رہے۔ وہ خود بھی یہی کچھ کرتے رہے اور اب جیل سے بھی اپنے لوگوں کو یہی پیغام دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی کا کارکن ان کے معیار پر اترنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے اور مخالفوں کو لعنت ملامت اور برا بھلا کہہ کر اپنے نمبر بڑھانے کی جستجو میں لگا ہوا ہے اور تو اور ایسے کارکنوں نے اپنے گھر میں بھی یہی ماحول بنایا ہوا ہے اور خاندان کے کسی ایک فرد نے اگر خان کی مخالفت کردی وہ اس کے نشانے سے پھر بچ نہیں پایا۔ جس طرح مولانا فضل الرحمن کی ہر روز وہ توہین کیا کرتے اور فضل الرحمان کو مولانا کہنا بھی پسند نہیں کیا کرتے تھے، قدرت نے انھیں آج اُسی مولانا کے در پے لا کھڑا کیا ہے، مگر اس فعل پر شرم تو اسی شخص کو ہوسکتی ہے جس کے اندر کوئی احساس ندامت بھی ہو۔

اسی لیے کہتے ہیں سیاست میں اس قدر آگے نہ بڑھ جاؤ جہاں سے واپسی کا راستہ ممکن نہ ہو۔ کسی کو اپنی بد زبانی کا اتنا شکارنہیں بناؤکہ پھر دوستی کرتے ہوئے ندامت اور شرم ساری کا سامنا کرنا پڑے۔ خان صاحب کو چاہیے کہ اپنے کارکنوں کی ایسی تربیت سے باز آجائیں جس پر انھیں بعد ازاں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔ قوم کو اخلاقی زوال اور بد تہذیبی کا شکار بنانے کے بجائے انھیں شائستگی اور وضع داری کا درس دے کر قوموں کی برادری میں ایک باعزت مقام دلانے کی کوشش کریں۔قوم اس لیے ہی کسی بھی سیاسی شخصیت کو اپنا ہیرو بناتی ہے کہ ایک جانب وہ اپنے کردار میں دوسروں کے لیے مثال ہوتا ہے اور دوسری جانب جو وہ سیاسی وعدے کرتا ہے اسے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اگر سیاسی ہیرو بد زبانی اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کرے تو وہ اپنی پارٹی کے ورکروں اور قوم کی کیا تربیت کرے گا۔کسی بھی سیاسی جماعت کی قیادت کا کردار دوسروں کے لیے قابل تقلید ہونا چاہیے۔خان صاحب اور علی امین گنڈا پور جو زبان استعمال کر رہے ہیں کیا وہ آپ اپنے بچوں کو سکھانا پسند کریں گے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں