32

علیحدگی پسند عناصرکے مذموم مقاصد

بلوچستان کے علاقے پنجگور میں دہشت گردوں نے ایک زیر تعمیرگھر کے ایک کمرے میں سوئے ہوئے کنسٹرکشن ورکرز پر اندھا دھند فائرنگ کردی ، جس کے نتیجے میں سات مزدور موقع پر جاں بحق ہوگئے جب کہ ایک شدید زخمی ہوا ہے ۔ میڈیا کی اطلاع کے مطابق دہشت گردوں نے ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب دہشت گردی کی یہ واردات انجام دی۔دہشت گردوں کے ہاتھوں بے گناہ قتل ہونے والے تمام مزدور ملتان کے علاقے شجاع آباد کے رہائشی تھے اور ان کا پیشہ گھرتعمیر کرنا تھا۔

میڈیا نے بتایا ہے کہ پنجگور کے محلہ عبدالرحمن کا ایک رہائشی اپنا گھر تعمیر کرانے کے لیے ان مزدوروں کو ملتان کے علاقے شجاع آباد سے لے کر آیا تھا۔ تمام مقتولین آپس میں رشتہ دار ہیں۔دن بھر کام کرنے کے بعد رات کو یہ بدقسمت ورکرز گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔جدید ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کرکے سب کو موت کے گھاٹ اتارا اور بآسانی فرار ہوگئے۔ ادھر اتوار کو ایک اور واقعے کی خبر میڈیا پر چلتی رہی ، جس میں بتایا گیا کہ بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل میں بھی جدید ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں کے گروہ نے کئی مزدوروں کو اغوا کر لیا ہے اور تعمیراتی کمپنی کے زیراستعمال 8 بلڈوزر بھی نذرآتش کردیے۔

بلوچستان میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت دہشت گردی کی وارداتیں کرائی جا رہی ہیں۔بلوچستان میں مختلف نظریات ، مقاصد اور اہداف رکھنے والی دہشت گرد تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔بلوچ ایریاز میں بی ایل اے اور دیگر بلوچستان علیحدگی پسند تنظیمیں سیکیورٹی فورسز اور غیربلوچ لوگوں پر گھات لگا کر حملے کررہی ہیں جب کہ چمن، ژوب، موسیٰ خیل اور کوئٹہ میں طالبان کے تعاون و حمایت سے دہشت گردی کی وارداتیں کی جارہی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ منشیات اور اسلحہ کے اسمگلرز،جعلی کرنسی بنانے والے گینگزاور کریمنل انڈر ورلڈ گینگز بھی قتل وغارت میں ملوث ہیں۔یہ دہشت گرد گروپس اور جرائم مافیاز کا مقصد پاکستان کے ریاستی ڈھانچے کو تباہ کرنا، سیکیورٹی فورسز کا کنٹرول ختم کرنا، بلوچستان میں خوف و دہشت کی فضا قائم کرنا تاکہ پرو پاکستان طبقے کو دیوار سے لگایا جاسکے اور بلوچستان میں آباد دیگر علاقوں خصوصاً پنجاب کے لوگوں کو خوف زدہ کرنا تاکہ وہ اپنا کاروبار، زرعی زمینیں اور سرکاری ملازمتیں چھوڑ کر بھاگ جائیں اور بعد میں ان دہشت گرد گروہوں کے ماسٹرمائنڈز اور فنانسرز یہ جائیدادیں کوڑیوں کے دام خرید کر اپنی حاکمیت قائم کرلیں۔

یہ گروہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز، سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینی باشندوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔ لیکن اب یہ دہشت گرد گروہ سفاکی اور بے رحمی کی ساری حدیں پار کرکے بے گناہ اور غریب مزدوروں کو قتل کرنے پر اتر آئے ہیں۔ان کی بہادری اور دلیری کا عالم یہ ہے کہ رات کو گہری نیند سوئے ہوئے نہتے مزدوروں کو جدید ہتھیاروں سے قتل کرتے ہیں۔ دنیا میں قوم پرستی اور آزادی کی دعویدار کسی تنظیم یا گروہ نے کبھی نہتے مزدوروں، خواتین اور مسافروں کو نشانہ نہیں بنایا لیکن بلوچستان اور خیبرپختونخوا میںسرگرم عمل دہشت گرد گروہ ایسے بزدلانہ حملے کررہے اور بڑی ڈھٹائی سے ذمے داری بھی قبول کرتے ہیں۔ بلوچستان میں گزشتہ دو دہائیوں میں سیکڑوں اساتذہ، تعمیراتی مزدوروں ، کان کنوں اور دیگر ہنرمند اور زائرین و مسافروں کو بڑی بے دردی سے قتل کیا جاچکا ہے۔

رواں برس اپریل میں بھی دہشت گردوں نے ضلع نوشکی میں ایک مسافر بس سے شناخت معلوم کرنے کے بعد منڈی بہاؤالدین کے رہائشی نو بے گناہ لوگوںکو قتل کردیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل پختون اکثریتی ضلع موسیٰ خیل میں این 70 شاہراہ پر درجنوں دہشت گردوں نے مسافر بسوں،گاڑیوں اور مال بردار ٹرکوں کو روک کر مسافروں کی شناخت معلوم کرنے کے بعد 23 افراد کوگولیاں مار کر قتل کیا تھا۔ضلع کچھی کے علاقے بولان میں ریلوے پل کو بھی دھماکا خیز مواد سے اڑا دیا تھا جب کہ پل کے قریب سے چھ افراد کی لاشیں بھی ملی تھیں۔

بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی وارداتوں سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ دہشت گرد اور علیحدگی پسند تنظیموں کا انٹیلی جنس نیٹ ورک فعال ہے۔ ان کی مالی لائف لائن بھی پوری طرح فعال ہے اور انھیں جدید اسلحہ کی ترسیل بھی بغیر روک ٹوک جاری ہے۔ یقینا یہ اسلحہ روڈ نیٹ ورک کے ذریعے دہشت گردوں تک پہنچتا ہے۔پاکستان کے بڑے شہروں میں چوری، ڈکیتی اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بھی ایسے گروہ ملوث ہیں۔پاکستان کے شمال مغربی علاقے اور جنوب مغرب کی سرحد اور سرحدی اضلاع ہمیشہ آزاد اور انتظامیہ کے کنڑول سے باہر چلے آرہے ہیں۔ ان علاقوں کے بااثر لوگوں نے پاکستان کے آئین و قانون کی اتنی ہی پاسداری کی ہے ، جتنا انھی کبھی اقتدار میں حصہ مل جاتا ہے ۔

علیحدگی پسند اور شدت پسند تنظیموں کو اسلحہ اور فنڈز فراہم کرنے والے راستے اور سوراخ بند کرنا ہوں گے۔ سیاست و مذہب کے لبادے میں عوام کو ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف من گھڑت، بے بنیاد پراپیگنڈے کرنے اور کرانے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نبٹنا ضروری ہوچکا ہے ،کتنا ظلم ہے کہ مذہب اور قوم پرستی کے نام پر تعلیم یافتہ نوجوانوں حتیٰ کہ پاکستان کی پڑھی لکھی بہو بیٹیوں کو خود کش بمبار بنایا جا رہا ہے۔

کیا ایسی تنظیموں کے سرپرستوں، ہمدردوں اور سہولت کاروں کے ساتھ رعایت برتی جانی چاہیے۔ دہشت گرد تنظیمیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنے نظریات کا اسیر بناتی ہیں، انھیں یہ باورکرایا جاتا ہے کہ ریاست انھیں، ان کے حقوق نہیں دے رہی یا انھیں باور کرایا جاتا ہے کہ ریاست ان کے عقیدے کے خلاف کام کررہی ہے۔ان نوجوانوں کو جھوٹے خواب دکھا کر اپنے ساتھ شامل کر لیا جاتا ہے اور انھیں دہشت گردی کے کیمپوں میں تربیت کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔

پاکستان کی مین اسٹریم سیاسی اور مذہبی سیاسی قیادت دہشت گردی کے ایشو پر ہمیشہ دوعملی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔بلوچستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے بے گناہ مزدوروں کے قتل پر قوم پرست سیاسی قیادت ہمشیہ خاموش رہتی ہے۔مذہبی سیاسی قیادت کا رویہ بھی بے حسی پر مبنی ہوتا ہے۔

انسانی حقوق کے نام پر تنظیمیں چلانے والے بھی خاموش رہتے ہیں، البتہ ایسے ایشو جو پاکستان کے لیے نقصان دہ ہوں، ان پر بڑھ چڑھ کر بولتے اور یہ تاثر دینے میں پیش پیش ہوتے ہیں کہ خدانخواستہ پاکستان ایک دہشت گرد ملک ہے۔ ’’ مسنگ پرسنز‘‘ کے نام پر دیے جانے والے دھرنے، احتجاج در حقیقت نئے دہشت گردوں کے لیے بھرتی سینٹرز ہیں جہاں ایشو پر علیحدگی پسندوں کے موقف کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں جب کہ اس کے برعکس دوسرے موقف پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔

پاکستان کی سیکیورٹی فورسز جب دہشت گردوں کے خلاف ایکشن لیتی ہیں تو اس کے خلاف واویلا کیا جاتا ہے۔ کیا دنیا کے کسی اور ملک میں اس قسم کی سیاست اور دانشوری کی کوئی جگہ موجود ہے۔ کیا بھارت میں مین اسٹریم سیاسی پارٹیاں نیکسلائٹ کے حملوں کی تائید کرسکتی ہیں؟ کیا سعودی عرب میں القاعدہ، داعش وغیرہ کی کھلے عام حمایت کی جاسکتی ہے؟ کیا ایران میں مجاہدین خلق اور شاہ کے حامیوں کو اپنی بات کرنے کی آزادی ہے؟ کیا افغانستان میں طالبان حکومت اپنے مخالفوں کو بات کرنے کی اجازت دیتی ہے؟

ہماری معاشرتی اقدار کا پہلا سبق خواتین کا احترام ہے، ہم اپنی بچیوں کی تعلیم وتربیت اس لیے نہیں کرتے کہ کوئی ظالم انھیں اپنے مفادات کے لیے خود کش بمبار بنا دے۔ہم اپنے بچوں کو پال پوس کر اس لیے جوان نہیں کرتے ہیں کہ وہ جہادیوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھ کر پہاڑوں اور صحراؤں میں مارے جائیں یا کسی چوراہے میں پھٹ جائیں اور بے گناہوں کے قتل کا بوجھ اٹھا کر خدا کے حضور پیش ہوجائیں۔ دہشت گرد تنظیموں نے خواتین کو خودکش بمبار بنا کر کئی نسلوں کو برباد کیا ہے۔ اپنے مذموم مقاصد کے لیے بے گناہ بچوں، بوڑھوں اور خواتین کا قتل کرنے والی دہشت گرد تنظیمیں کسی بھی صورت معافی کی حقدار نہیں ہیں۔

پاکستان کے دشمن طویل مدت سے بلوچستان کے امن و امان کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں، جن کا مقصد بلوچستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے، کیونکہ سی پیک منصوبے کی وجہ سے بلوچستان خاص طور پر ’’گوادر‘‘ عالمی نگاہوں کا مرکز بن چکا ہے، بلوچستان ترقی اور خوشحالی کی راہ پرگامزن ہو چکا ہے ۔ بلوچستان کئی دہائیوں سے بیرونی طاقتوں کی سازشوں کا مسکن بنا ہوا ہے جس کے نتیجے میں نہ سازش کرنے والوں کوکچھ ملا اور نہ ہی بلوچستان کا کچھ بھلا ہوا۔ شدت پسندی کا مکمل خاتمہ تبھی ممکن ہوتا ہے جب معاشرے کے تمام طبقات متحد ہوں ۔ ریاست اپنی طاقت اور مضبوط عزم کے ذریعے قانون شکنوں کے خلاف کارروائی کرنے کی مکمل اہلیت رکھتی ہے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں