76

آسانیاں تقسیم کرنے کی عادت ڈالیے!

[ad_1]

نیویارک کے ایسٹ ویلج علاقے میں سیکڑوں ریسٹورنٹس ہیں ۔ یہ امراء کا ایریا ہے۔ یہاں ایک امریکی نوجوان نے نیا ریسٹورنٹ کھولا جو بہت زیادہ کامیاب ہو گیا ۔ رش کا یہ عالم تھا کہ گاہکوں کو ٹیبل لینے کے لیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ یہ نیویارک کا مہنگا ترین ریسٹورنٹ بن چکا تھا۔ مالک شام کو آتا تھا،دن میں وہ کسی اور کاروبار میں مصروف رہتا تھا ۔ چھ ماہ قبل ایک بوڑھی خاتون لنچ کے لیے ریسٹورنٹ میں آئی ۔بڑھیا کے ہاتھ میں چھڑی تھی اور لباس معمولی تھا۔وہ ریسٹورنٹ کے اندر داخل ہوئی تو دروازے کے ساتھ کھڑے منیجر نے اسے غور سے دیکھا ۔ اس کے ذہن میں آیا کہ یہ بڑھیا بھکاری ہے یا غریب ہے، اسے شاید اندازہ نہیں ہے کہ یہاں کھانا کتنا مہنگا ہے۔

اس نے بڑھیا سے کہا کہ یہ نیویارک کا مہنگا ترین ریسٹورنٹ ہے اور تم بل ادا نہیں کر سکوگی لہٰذا یہاں سے چلی جاؤ ۔ بڑھیا نے منیجر کو جواب دیا، وہ بل ادا کرسکتی ہے۔ منیجر نے بددلی کے ساتھ اس معمر خاتون کو اجازت دی اور ایک کونے میں ٹیبل دے دی ۔ اسے خدشہ تھا کہ لنچ کے بعد بڑھیا کوئی نہ کوئی تماشا ضرورکرے گی۔ بہرحال منیجر نے بڑھیا سے آرڈر لینے کے لیے ویٹریس کو بھیجا۔ویٹریس نے آرڈر لیا اور کھانا ٹرالی میں رکھ کر لائی، منیجر اس قدر خفا تھا کہ اس نے ویٹریس کے سامنے ‘ کھانے میں بہت زیادہ نمک اور چٹنی ملا دی ۔ ویٹریس نے دبے لفظوں میں منیجر سے کہا کہ وہ اس گاہک کے ساتھ زیادتی کر رہا ہے۔

بہر حال ویٹریس بڑھیا کی ٹیبل تک گئی، اسے کہا کہ سوری! میرے باس کا رویہ آپ کے ساتھ مناسب نہیں ہے ۔ میں اس پر معافی مانگتی ہوں ۔ بڑھیا نے کہا کوئی بات نہیں۔پھر اس نے پلیٹ میں رکھے کھانے کا ایک لقمہ منہ میں ڈالا تو اس میں بے تحاشا نمک تھا ۔ اس نے منیجر کو بلوایا اور شکایت کی کہ کھانے میں نمک بہت زیادہ ہے۔ منیجر نے چونکہ یہ سب کچھ خودکیا تھا، اس نے غصے سے کہا کہ یہ ریسٹورنٹ تم جیسے بھکاریوں کے لیے نہیں بنایا گیا ہے۔تمھارے لیے بہتر ہے کہ یہاں سے چلی جاؤ۔ بزرگ خاتون نے منیجر کو باوقار طریقے سے کہا کہ آپ میرا کھانا بدل دیجیے، میں آپ کو تمام بل ادا کر دوں گی ۔ ویٹریس یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی کہ منیجر بدتہذیبی دکھارہا ہے۔ بوڑھی عورت بالکل غصے میں نہیں آئی بلکہ مہذب انداز میں سے کرسی پر بیٹھی رہی۔منیجر نے اسے باہر نکلنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی بل بھی سامنے رکھ دیا۔

یہ اس کھانے کا بل تھا جس میں نمک زیادہ تھا اور بڑھیا نے صرف چکھا تھا۔ اسی دوران ہوٹل کا مالک اچانک ہال میں آ گیا اور ٹیبل کی طرف لپکا اور خاتون کو گلے لگا لیا ۔ منیجر حیران اور پریشان ہو گیا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ماجرا کیا ہے۔ مالک نے ریسٹورنٹ کے تمام ملازمین کو بلایا اور انھیں بتایا کہ یہ بزرگ خاتون اس کی والدہ محترمہ ہے اور اس کی محنت اور دعاؤں کے صدقے آج وہ اس مقام پر ہے کہ نیویارک جیسے شہر میں باعزت ہے اور جائز دولت کما رہا ہے ۔ منیجر کی سٹی گم ہو گئی، اس نے اشارے کنائے میں بڑھیا سے معذرت کرنے کی کوشش کی لیکن ویٹریس نے مالک کو منیجر کی تمام گستاخیوں کے متعلق بتا دیا۔ مالک نے منیجر کو نوکری سے فارغ کرنے کا کہہ دیا ۔

اس نے بہت منتیں کی اور ترلے ڈالے لیکن مالک نہیں مانا۔ ویٹریس جب کھانا اٹھا کر واپس جانے لگی تو بزرگ عورت نے اپنے بیٹے کو کہا تمہارے پاس منیجر کی پوسٹ اب خالی ہو چکی ہے۔ تمہیں بہت قابل ‘ باادب اور محنتی منیجر کی ضرورت ہے۔ بیٹے نے کہا یہ بات تو بالکل درست ہے۔ مگر ایک دم کسی نئے منیجر کو تلاش کرنا نیویارک جیسے شہر میں کافی مشکل ہے۔والدہ نے اپنے بیٹے کو کہا کہ یہ ویٹریس اچھی لڑکی ہے اور منیجر کی آسامی کے لیے یہ سب سے موزوں انتخاب ہے ۔ مالک نے ویٹریس کو بلایا اور کہا کہ آج سے آپ منیجر ہیں۔ آپ نے میری والدہ کے ساتھ جو اچھا سلوک کیا ہے اس کی بدولت میں آپ کی تنخواہ سابقہ منیجر سے ڈیڑھ گناہ زیادہ کر رہا ہوں۔

عرض کرنے کامقصد بالکل سادہ سا ہے ۔ قدرت کے کارخانے میں نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی اور برائی کرنے والا کہیں نہ کہیں‘ کبھی نہ کبھی کسی ایسی مصیبت میں ضرور پھنستا ہے جو دراصل اس کے کرموں کا پھل ہوتا ہے۔ مت بھولیے کہ لوگوں میں آسانیاں پیدا کرنا ہی اصل اچھائی ہے ۔جسے خدا بخوبی دیکھتا ‘ پہچانتا اور کئی گناہ بڑھا کر واپس لوٹتا ہے۔ اکثر لوگوں کو دیکھتا ہوں تو وہ اپنے محدود وسائل کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ مگر ضروری نہیں کہ لوگوں میں آسانیاں تقسیم کرنے کے لیے آپ کو بہت زیادہ پیسوں کی ضرورت ہو ۔ غور فرمائیے کونسا ایسا بشر ہے جس کے سر میں درد نہیں ہوتا۔ اگر آپ میڈیکل اسٹور سے سردرد کی دوائی کا ایک پتا خرید رہے ہیں۔

تو تھوڑی دیر رک کر دو پتے خرید لیجیے ۔ گھر واپس جاتے ہوئے کسی بھی مفلوک الحال شخص کو سردرد کی گولیوں کا پتا دے دیجیے تو وہ خوشی سے قبول کر لے گا۔ اس کی قیمت چالیس یا پچاس روپے سے زیادہ نہیں ہوگی۔ کچھ دن کے بعد یاد تک نہیں رہے گا کہ آپ نے کسی اجنبی شخص کو دوائی کا ایک معمولی سا تحفہ دیا ہے۔ مگر یاد رکھیئے کہ وہ شخص یا اس کے اہل خانہ جب سردرد میں مبتلا ہوںگے تو آپ کی دی ہوئی دوائی‘ آپ ہی کے لیے بہت بڑی نیکی بن جائے گی۔ بالکل اسی طرح جب آپ کسی دکان سے پانی کی ایک بوتل پکڑتے ہیں تو میری درخواست پر دوبوتلیں خریدیں۔ راستے میں کسی بھی پریشان حال پریشان کو پانی کی بوتل پکڑا دیجیے۔ اس کی پیاس بجھ ہی جائے گی ۔ ذرا سوچئے کہ آپ نے اس آدمی کے لیے کتنی آسانی پیدا کر دی ہے۔

درخواست ہے کہ زندگی کی ترتیب کو بدل دیجیے ۔ چھوٹے سے چھوٹے کام کے اندر بھی بے سہارا لوگوں کو یاد رکھیے جو اس بدنما نظام کی وجہ سے مشکل میں مبتلا ہیں ۔ آپ کی معمولی سی بلکہ جزوی نیکی سے ان کے چہرے پر مسکراہٹ آ جائے گی ۔ کوشش کیجیے کہ ہوٹل کے اندر جو کھانا بچ جاتا ہے اور جس کا بل آپ ادا کر چکے ہو ، اسے پیک کروا کر گھر لے جانے کے بجائے ‘ راستے میں اپنی بصیرت کے حساب سے کسی مزدور یا سفید پوش آدمی کو ڈبہ پکڑا دیجیے ۔ ہو سکتا ہے کہ اس نے ایک وقت کاکھانا نا کھایا ہو ۔ کھایا بھی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ بچا ہو کھانا اپنے گھر لے جا کر اپنے بچوں کو اچھا کھانا توکھلا سکتا ہے۔

قطعاً عرض نہیں کر رہا کہ آپ پیشہ ور بھکاریوں اور فقیروں پر چیزیں لٹانی شروع کر دیں۔ کیونکہ بہر حال ہمارے ملک میں گداگری ایک بہت بڑا پیشہ بن چکی ہے ۔ جو دھوکا دہی ‘ فریب اور اپنی جعلی مفلوک الحالی سے آپ کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح کے فقیر آپ کو ہر شہر کے ہر چوک میں کثرت سے نظر آئیں گے۔ بلکہ اب تو صورتحال اس حد تک دگرگوں ہے کہ ہمارے ملک سے فقیر ہزاروں کی تعداد میں مشرق وسطیٰ کے ممالک میں جا کر بھیک مانگتے ہیں اور ہمارے ملک کا نام بدنام کرتے نظر آتے ہیں۔ سعودی عرب اور یواے ای میں تو ہزاروں پاکستانی پیشہ ور فقیروں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اور انھیں زبردستی ان ممالک سے بے دخل بھی کیا جا چکا ہے۔

کوشش کیجیے کہ آپ چھوٹی سے چھوٹی آسانی ان لوگوں کے لیے مختص کریں جو آپ کی نظر میں مستحق ہوں۔لوگوں کو چھوٹی چھوٹی آسانیاں دینے سے ‘ رب کریم کی ذات آپ کے لیے کون کون سے وسائل سے بھرے دروازے کھولے گا‘ یہ صرف وہی جانتا ہے۔ یاد رکھیئے نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ لہٰذا اپنی زندگی کا مقصد بنا لیں کہ لوگوں میں آسانیا ں تقسیم کرنی ہیں۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں