[ad_1]
ہندوستان کیوں تقسیم ہوا؟ تحریک پاکستان کن مراحل سے گزری اور مسلمانوں کو 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ جب کہ کانگریس اس سے پہلے ہی 1885 میں قائم ہو چکی تھی۔ اس حوالے سے سر سید احمد خان کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ اگرچہ وہ ایک زمانے سے ہندو مسلم اتحاد بھائی چارے تعاون اور مفاہمت کے لیے کام کر رہے تھے۔ انھیں شدید صدمہ 1867 میں اس وقت پہنچا جب بنارس کے ہندوؤں کی جانب سے اردو کی جگہ ہندی کو عدالتی زبان قرار دینے کا مطالبہ سامنے آیا۔
نواب محسن الملک کو اپریل 1870 میں ایک خط تحریر کیا کہ مجھے ایک اور خبر ملی ہے جس کا مجھ کو کمال رنج اور فکر ہے کہ بابو شیوا پرشاد کی تحریک زبان اُردو خط فارسی کو جو مسلمانوں کی نشانی ہے مٹا دیا جائے۔ ایک ہندو مصنف نراد چوہدری اپنی کتاب میں 1906 کے اختتام کا ذکر کرتے ہوئے صاف الفاظ میں لکھتے ہیں کہ ہم نے اپنے بزرگوں کے منہ سے مسلمانوں کے بارے میں ایسے تند و تیز جملے سننے شروع کیے کہ ہمارے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف بیٹھ جانے والے سخت ناپسندیدگی کے احساسات نے قربت پر مبنی تعلقات کو ختم کر کے رکھ دیا ۔
ایک اور قد آور ہندو سیاسی رہنما پنڈت مدن موہن مالویہ جنھیں انڈین نیشنل کانگریس کے دو بار صدر رہنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ان کا یہ اعتراف موجود ہے کہ کانگریس نے مسلمانوں کو اپنے سے دور کر دیا۔ 1916 میں میثاق لکھنؤ کی منظوری ہندو مسلم اتحاد کی جانب ایک قدم تھا اور یہ قدم اُٹھانے میں جس شخص کی مساعی سب سے نمایاں اور زیادہ رہی وہ محمد علی جناح تھے۔ یہی سبب تھا کہ مسز سروجنی نائیڈو نے محمد علی جناح کو ہندو مسلم اتحاد کا سفیر بنا دیا۔
ڈاکٹر اجیت جاوید نے اپنی کتاب سیکولر اینڈ نیشنلسٹ جناح میں واضح الفاظ میں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ہندو مسلم اتحاد کے لیے جناح کی مسلسل کوششوں کا اگر کوئی نتیجہ سامنے آتا بھی تو نہرو رپورٹ نے ایسے تمام امکانات ختم کر کے رکھ دیے تھے۔ کے کے عزیز نے مرڈر آف ہسٹری یعنی تاریخ کا قتل میں یہ تجزیہ کیا ہے کہ موتی لعل نہرو رپورٹ کی اہمیت اس حقیقت سے اُجاگر ہوتی ہے کہ اس کی مخالفت میں تمام مسلمان یکجا ہو گئے تھے۔
اس رپورٹ میں ہندوستان میں ہندو اکثریتی تسلط کا ببانگ دہل اقرار کیا لیکن امن پسند معاملہ فہم محمد علی جناح نے اس کے بعد بھی ہار نہیں مانی اور نہرو رپورٹ کو مسلمانوں کے لیے قابل قبول بنانے کے لیے مارچ 1929 کے لیے 14 نکات کے عنوان سے ترامیم پیش کیں جو سب کی سب رد کر دی گئیں۔ گویا 1930 تک ہندو مسلم اتحاد کا سفیر ہندوستان میں بسنے والی دو بڑی قوموں کے اتحاد کے لیے کوشاں رہا یہاں تک کہ جناح 1940 تک بھی ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشاں رہے۔ 1937کے انتخابات میں گیارہ میں سے سات ریاستوں میں کانگریس نے اپنی حکومت قائم کی لیکن مسلم لیگ کو شکست ہوئی۔ انتخابات جیتنے کے بعد کانگریس کے زعما کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی کہ وہ مسلم لیگ کے بغیر بھی ہندوستان میں حکومت بنا سکتے اور مسلم عوام کو اپنا ہمنوا بنا سکتے ہیں۔
جناح نے کوشش کی کہ ہندو مسلم مل کر معاملات چلا سکیں لیکن ماضی کی طرح اس کوشش کو بھی کانگریس کی طرف سے حقارت سے ٹھکرا دیا گیا۔ مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی سرکاری ملازمتوں سے محرومی معاشی تنگ دستی اور سماجی اجنبیت جیسے عوامل نے انھیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ وہ ہندوستان میں اقلیت کی حیثیت میں ترقی کی دوڑ سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ انگریزوں کے علاوہ ہندو ذہنیت بھی ان کے لیے بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آرہی تھی۔ 1937 کے انتخابات کے بعد محمد علی جناح نے مسلم لیگ کے اندر ایسی روح پھونک دی کہ ان کے صرف ایک اشارے پر لوگ دیوانہ وار سڑکوں پر نکل آتے۔
محاذ آرائی جاری رہی۔ تجویز یہ ہوئی کہ مسلمانوں کی نمایندگی کانگریس یا مسلم لیگ اور اس کا فیصلہ انتخابات کے ذریعے کیا جائے۔ مسلم لیگ محمد علی جناح کی سربراہی میں ایسے حالات میں انتخابات لڑ رہی تھی کہ جب ان کے خلاف خوفناک مخالفت کا بازار گرم تھا۔ ان میں نمایاں ترین مولانا ابوالکلام آزاد تھے ۔ اس کے علاوہ بہت سے مسلمان ایسے تھے جو مسلم لیگ کے مخالف تھے ۔
ان میں کمیونسٹ سوشلسٹ بھی تھے۔ ترقی پسند شاعر و ادیب بھی۔ یہی نہیں چوٹی کے سر برآوردہ مذہبی رہنماؤں میں اکثر قائد اعظم کے خلاف تھے۔ علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک کی جانب سے قائد اعظم کو قتل کرنے کی دو بار کوشش کی گئی ۔ قائداعظم کے خلاف مخالفتوں کا ایک طوفان برپا تھا اس کے باوجود مسلم لیگ نے 45-46 کے انتخابات میں عظیم الشان کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد بھی قائداعظم نے ہندو مسلم اتحاد کی کوششوں کو ترک نہیں کیا۔ یہاں تک کہ کیبنٹ مشن پلان بھی ناکام ہوا جو ہندوستان کو متحد رکھنے کا آخری موقع تھا۔ کیونکہ کانگریس نے اسے مسترد کر دیا تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کانگریس اور ہندؤوں کا تعصب تنگ نظری، تنگ دلی نے ہندوستان کو تقسیم کیا۔اس پوری تحریر میں نام نہاد بانیان پاکستان کہاں ہیں؟ بانی پاکستان صرف اور صرف قائداعظم ہیں۔ کوئی اور نہیں۔
[ad_2]
Source link