63

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

[ad_1]

ابھی چند روز پہلے چین کا قومی دن بڑی دھوم دھام اور انتہائی اہتمام کے ساتھ منایا گیا۔ عموماً یہ ہوتا ہے کہ جب پاکستان میں کسی ملک کا قومی دن منایا جاتا ہے تو اس میں حکومت پاکستان کے نمایندے رسمی طور پر شرکت کرتے ہیں لیکن چین کے قومی دن کی بات ہی کچھ اور تھی۔

اِس دن کی تقریب میں پاکستان کی اعلیٰ قیادت نے غیر معمولی جوش و خروش کے ساتھ بھرپور شرکت کی جس میں صدرِ پاکستان، وزیرِاعظم پاکستان کے علاوہ پاکستان کی عسکری قیادت نے بھی شرکت کی۔ اِس تقریب کی سب سے اہم اور قابلِ توجہ بات یہ تھی کہ وزیرِ اعظم پاکستان نے مغربی ممالک جن کی چین کے ساتھ شدید مخاصمت ہے ان کے سفارت کاروں کی موجودگی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کھلے الفاظ میں کہا کہ ’’ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات انتہائی گہرے اور مضبوط ہیں جنھیں دنیا کی کوئی طاقت ہلانے کی جرات نہیں کرسکتی۔‘‘ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ابھی چند روز قبل امریکا کے ایک سینئر اہلکار ڈونلڈ لو نے اپنے مخصوص لب و لہجے میں کہا تھا کہ پاکستان اور چین کے مابین سی پیک کا جو معاہدہ ہے وہ سست روی کا شکار ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چین اور پاکستان کو مزید پیش رفت کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔اِس بات کے واضح اشارے مل رہے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اہم تبدیلیاں ہو رہی ہیں جس کی ایک مثال یہ ہے کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے روس کے ڈپٹی پرائم منسٹر نے پاکستان کا دورہ کیا۔ روس کے ڈپٹی پرائم منسٹر نے پاکستان کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں جن میں پاکستان کی سیاسی قیادت کے علاوہ عسکری قیادت بھی شامل ہے۔ ہوا کا رخ بدل رہا ہے اور پاکستان اور چین کے تعلقات کے علاوہ روس کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات ایک نیا رخ اختیارکر رہے ہیں۔

اگلے مہینے چین کے وزیرِ اعظم ایس سی او کی کانفرنس میں شرکت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کا دورہ کرنے والے ہیں۔یہ خبر بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ چین کے وزیرِاعظم بھی ایس سی او کانفرنس کے موقعے پر پاکستان آرہے ہیں جو ایک اہم پیش رفت ہے اور جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خطے میں پاکستان کوکتنی اہمیت حاصل ہورہی ہے۔چین کے وزیرِ اعظم کے دورہ میں چند اہم اعلانات متوقع ہیں جن سے سی پیک معاہدے کو بڑی زبردست تقویت حاصل ہوگی۔

یہ امر باعثِ مسرت ہے کہ مستقبل قریب میں چین اور پاکستان کے تجارتی کوریڈور کے علاوہ روس اور پاکستان کے اشتراک سے ایک اور تجارتی کوریڈور بھی معرضِ وجود میں آنے والا ہے اور ان دونوں کوریڈورز میں پاکستان کے محلِ وقوع کو نہایت غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ گوادر کی بندرگاہ کے ذریعے چین اور روس کو مشرقِ وسطیٰ کے علاوہ دیگر ممالک کی منڈیوں تک رسائی ہوجائے گی۔

بھارت نے پاکستان کے خلاف طوفان برپا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ چین اور پاکستان کے عظیم منصوبہ ناکام بنانے کے لیے اس نے صوبہ بلوچستان میں چینیوں کے قتل کی متعدد وارداتیں کی ہیں جن کا مکروہ مقصد اس باہمی تعلق کو ختم کرنا ہے اور دونوں ممالک کے تعلقات کو نقصان پہنچانا ہے لیکن مدعی لاکھ بُرا چاہے توکیا ہوتا ہے۔ ہمیں وہ وقت یاد آرہا ہے جب بھارت نے چین کے وزیرِ اعظم چو این لائی کو خصوصی دورہ پر بھارت بلایا تھا اور اُن کی بڑی آؤ بھگت کی تھی۔ بھارتی قیادت نے روزِ اول سے لے کر آج تک اپنے گُرو گھنٹال چانکیہ کی پالیسی پر عمل کیا ہے جس کا مقصد بہلا پھسلا کر یا بزورِ بازو اپنے مدِ مقابل کو زیر کرنا ہے۔

بھارت کے اولین وزیرِاعظم جواہر لال نہرو نے اپنی خود نوشت میں تحریر کیا ہے کہ جب تک تم کمزور ہو اپنے سے زیادہ طاقتور سے مت الجھو لیکن ہوا یہ کہ بھارت نے چین کو ہلکا لے کر چین سے پنگا لے لیا جس کے نتیجے میں بھارت کی سینا کی خوب پٹائی ہوئی اور اُسے چھٹی کا دودھ یاد آگیا۔ نہرو اِس ہمالیائی غلطی کی تاب نہ لاسکے اور ان کے دماغ پر فالج کا شدید حملہ ہوگیا جس کے نتیجے میں وہ پرلوک سدھار گئے۔بھارت کی خارجہ پالیسی کی بنیاد منہ میں رام رام بغل میں چھری کی ہے۔ آزادی کے بعد بھارت نے روس کے ساتھ تعلقات قائم کیے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اس نے نا وابستگی کا ڈھونگ بھی رچایا جس کا سیدھا سادہ مطلب تھا:

رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی

بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اورکہاں نکل گئی۔ قصہ مختصر چین کے بعد پاکستان کے تعلقات روس کے ساتھ قائم ہونے کی خبر سے بھارت کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہوں گے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا کہ پردھان منتری نریندر مودی روس کی یاترا پرگئے تھے جہاں ان کا غیر معمولی گرمجوشی کے ساتھ سواگت کیا گیا تھا اور وہ اس پر پھولے نہیں سما رہے تھے لیکن اس وقت مودی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ جلد ہی وہ وقت آنے والا ہے جب روس اور پاکستان کے مابین تعلقات کے قیام کا آغاز ہوگا۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں