[ad_1]
مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کسی بھی ملک میں سب سے اہم ادارے ہوتے ہیں جو مضبوط ستون کہلاتے ہیں جن کے بعد صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے جو اکثر مجبور اور بے بس ہی ہوتا ہے اور مذکورہ بالا تینوں ستون سرکاری اور نہایت ہی مضبوط تصور کیے جاتے ہیں اور اختیارات کا مرکز ہوتے ہیں اور ملک کے متفقہ آئین میں تینوں اہم اداروں کی حدود کا تعین کیا جا چکا ہے اور آئینی تقاضہ ہے کہ تمام ادارے ملک کے آئین اور قانون کے پابند رہیں۔
مقننہ اور انتظامیہ بڑے لوگوں پر مشتمل ہیں جب کہ عدلیہ سے امیر غریب ہر ایک کا واسطہ پڑتا ہے۔ برطانوی وزیراعظم چرچل نے دوسری جنگ عظیم کے دوران عدلیہ کی آزادی اور عدلیہ کے فراہم کردہ انصاف کو ملک کی سالمیت کا ضامن قرار دیا تھا اور اہم ستون عدلیہ میں فاضل ججز اور وکلا حضرات کا اہم کردار ہوتا ہے اور عدلیہ چھوٹے شہروں میں سول عدالتوں سے شروع ہوتی ہے اور صوبوں میں وہاں کی ہائی کورٹس اور ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ ہے جو دارالحکومت اسلام آباد میں ہے اور ملک کے تمام ادارے سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننے کے پابند ہیں جو آئین کے مطابق ہونے چاہئیں مگر 2008 میں عدلیہ بحالی کے بعد سے حکومتوں اور اعلیٰ عدلیہ میں جو خلیج حائل ہوئی تھی وہ کم نہیں ہوئی، جسے کم کرنے کی کوشش ہوئی۔
پاکستان کی عدلیہ عالمی سطح پر ایک سو تیس نمبر پر جا چکی ہے جہاں تقریباً 26 لاکھ مقدمات عدالتی فیصلوں کے سالوں سے منتظر ہیں اور سپریم کورٹ تک میں پچاس ہزار سے زائد مقدمات زیر سماعت ہیں جو عشروں سے فیصلوں کے منتظر ہیں اور توجہ کے طالب ہیں اور ڈھائی سال سے پی ٹی آئی نے اعلیٰ عدلیہ میں مقدمات کی بھرمار کر رکھی ہے اور اس نے اپنے رہنماؤں اورکارکنوں کی گرفتاریوں، مقدمات کے اندراج اور ہر حکومتی اقدام کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے اور ایک ہی معاملہ مختلف ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا جس پر عدالتوں سے اعتراضات بھی عائد ہوئے بعض مقدمات میں پی ٹی آئی کو رعایت بھی دی گئی اور جن درخواستوں پر رجسٹراروں نے اعتراضات عائد کیے تھے وہ دور کر کے سماعت کے لیے مقرر ہوئیں۔ اگر پی ٹی آئی کی مرضی کا فیصلہ نہ آئے تو اسی ججز کی پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا ٹرولنگ شروع کر دیتا ہے اور نہ صرف بانی پی ٹی آئی بلکہ تمام انتہا پسند رہنما الزامات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔
بانی پی ٹی آئی اور رہنماؤں کو عدالتوں سے متعدد بار ریلیف بھی ملے مگر پھر بھی بانی پی ٹی آئی احسان مند نہیں ہوئے اور ان ججز پر بھی الزامات عائد کیے اور فیصلوں پر تنقید کی بلکہ مطالبات کیے کہ وہ پی ٹی آئی کے مقدمات نہ سنیں۔
وکیلوں میں بھی برسوں سے تقسیم ہو چکی ہے۔ سابق دور میں بعض ججز اپنی مرضی کے ججز پر مشتمل بینچ بناتے تھے اور صاف پتا چل جاتا تھا کہ فیصلہ کس کے حق میں آئے گا۔ پی ٹی آئی کو ایسے فیصلوں سے بہت ریلیف ملا۔ سابق وزیر اعظم پر ان کی مخالف موجودہ سابقہ نگران اور پی ڈی ایم حکومتوں نے جو درجنوں مقدمات بنوائے تھے وہ عدالتوں نے اڑا دیے جس سے حکومت کے حصے میں صرف بدنامی ہی آئی اور بانی کو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔
اپنے خلاف دو سو سے زائد مقدمات جن میں کچھ اہم بھی تھے ان کی عدالتوں میں پیروی کے لیے اگر بانی مہنگے وکیلوں کو اپنا وکیل مقرر کرتے تو ان کے کروڑوں روپے خرچ ہو جاتے۔ کروڑوں روپے بچانے کے لیے انھوں نے اپنے حامی وکلا کی مفت خدمات حاصل کیں جنھوں نے ان کی بھرپور مدد کی۔
بعض وکلا نے بھی بانی کی برطرفی کے بعد ان کی کھل کر حمایت کی اور سیاسی مفادات حاصل کیے اور اسمبلیوں کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی جنھوں نے کبھی کونسلر کا الیکشن بھی نہ لڑا تھا وہ بانی کی حمایت سے پارلیمنٹ تک جا پہنچے۔پی ٹی آئی کی حکومتوں کے خاتمے کے بعد انصاف دینے اور انصاف دلانے والوں کی طرف سے بھرپور پذیرائی ملی اور انھوں نے پی ٹی آئی حکومت کی انتہائی ناقص کارکردگی اور بیڈ گورننس کے باوجود محض مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی قیادتوں کی مخالفت کی وجہ سے بانی پی ٹی آئی کا ساتھ دیا۔ انصاف دینے اور انصاف دلانے والوں نے پی ٹی آئی کا جس طرح ساتھ دیا اتنا ساتھ ماضی میں کبھی (ن) لیگ اور پی پی کی طویل حکومتوں میں انھیں کبھی نہیں ملا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری رہے جس سے پی ٹی آئی بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔
[ad_2]
Source link