16

مایا اینجیلو، امریکی کوئل – ایکسپریس اردو

مایا اینجیلو 1928 میں ایسے حالات میں پیدا ہوئیں، جب دنیا میں سیاہ فا موں کے لیے نہ تو مساوی حقوق تھے اور نہ ہی آزادی کی ضمانت۔ مایا اینجیلو کی زندگی ایک ایسے دورکی عکاس ہے جب امریکا میں رنگ و نسل کی بنیاد پر انسانوں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کیا جاتا تھا۔ اس دور میں سیاہ فام عورتوں کی زندگی جہنم سے بدتر تھی۔ نہ صرف ان کی جلد کا رنگ ان کے خلاف تھا بلکہ عورت ہونے کے ناتے انھیں دہری مشکلات کا سامنا تھا۔

ان کی زندگی کے ابتدائی سال بہت مشکل تھے، جب وہ محض آٹھ سال کی تھیں تو وہ جنسی زیادتی کا شکار ہوئیں۔ جس کے بعد انھوں نے پانچ سال تک بولنا ترک کردیا تھا۔ یہ خاموشی ان کے اندرکی چیخ تھی۔

وہ محض ایک سیاہ فام امریکی شاعرہ یا مصنفہ نہیں تھیں بلکہ ان کی زندگی نسلی تعصب، جنسی عدم مساوات اور انسانی حقوق کی جدوجہد کی زندہ مثال تھی۔ ان کے الفاظ محض الفاظ نہیں ہیں بلکہ ایک نسل کا دکھ درد اور نوحہ ہیں۔

مایا اینجیلوکی خود نوشت why I know the caged Bird Sings ان کے ادبی سفرکا پہلا سنگ میل تھا جو انھوں نے 1969 میں لکھا تھا۔ اس کتاب میں انھوں نے اپنے بچپن کی مشکلات، جنسی زیادتی، نسلی تعصب اور سماجی ناانصافیوں کو بیان کیا۔ انھوں نے اس کتاب میں اپنے اندرکے درد کو لفظوں میں ڈھالا ہے ان کا ہر لفظ درد میں ڈوبا ہوا ہے۔

پنجرے میں قید پرندے کا استعارہ سیاہ فام عورتوں کی زندگیوں کی عکاسی کرتا ہے، جو نسلی اور معاشرتی جبرکا شکار تھیں۔ وہ اس کتاب میں ایک ایسی دنیا کی تصویرکشی کرتی ہیں جہاں سیاہ فام عورتوں کی آواز دبائی جاتی ہے۔ خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے امکانات کم ہوتے ہیں، مگر جس میں امیدکا پیغام بھی ہے، جو قیدکے باوجود زندہ رہتی ہے، جو درد میں پنپتی ہے اور اپنی شناخت کی جنگ جیتنے کا عزم رکھتی ہے۔

مایا اینجیلو نے 1978 میں I Still And Riseلکھی جو کہ شاعری کی ایک اہم تصنیف ہے۔ اس میں سیاہ فام عورتوں کی مزاحمت کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ نظم ایک علان ہے کہ ظلم، جبر اور ناانصافی کے باوجود سیاہ فام عورتیں اٹھتی رہیں گی۔I Still And Rise ایک ایسی عورت کی تصویر کشی ہے جو رکاوٹوں کو توڑکر اپنی راہ کا خود تعین کرتی ہے۔ یہ نظم نہ صرف سیاہ فام عورتوں کے لیے بلکہ دنیا بھرکی ٹھکرائی ہوئی عورتوں کے لیے ایک ترغیب ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے لڑیں۔ اپنے خوابوں کی تعبیرکے لیے اٹھ کھڑی ہوں۔

You may write me down in History

With your bitter, twisted lies

You may tread me in the very dirt

But still, like dust,I will Rise

کیا خوبصورت سطریں ہیں۔ کس طرح اس نے بیان کیا ہے کہ اس کو اپنے حق کے لیے کھڑے ہونے سے روکا نہیں جاسکتا یہاں اس کی مراد ہر اس عورت سے ہے جس کو دبایا گیا جس کو کچلا گیا مگر وہ جرات مندی کے ساتھ اپنی شناخت کے لیے لڑتی رہی۔

مایا اینجیلو نے تعلیم کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے، وہ تعلیم کو ایک ایسی طاقت سمجھتی ہیں جو انسان کو اپنے حالات بدلنے کی صلاحیت دیتی ہے۔ انھوں نے رنگ کی عورتوں کو یہ پیغام دیا کہ اگر اپنے حق کے لیے آواز اٹھانی ہے تو سب سے پہلے تعلیم حاصل کرنی ہوگی۔ ان کا ماننا تھا کہ ایک تعلیم یافتہ عورت نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے بھی بہتر مستقبل کی ضمانت ہے۔

مایا اینجیلو نے 1978 میں ایک اور مشہور زمانہ نظم لکھی جس کا عنوان ہے Phenomenal Woman  یہ نظم سیاہ فام عورتوں کے حسن، خود اعتمادی اور انفرادیت کے بارے میں ہے۔ یہ نظم ایک چیلنج ہے ان روایتی خوبصورتی کے معیارکے خلاف جو دنیا نے طے کیے ہیں۔ اینجیلو کا ماننا تھا کہ ایک عورت کا حسن اس کے جسمانی خدوخال میں نہیں بلکہ اس کی شخصیت، وقار اور اندرونی طاقت میں ہے۔

اس نظم میں ایک ایسی خود اعتمادی کا اظہار ہے جو معاشرتی تعصب کو ٹھکراتی ہے اور ایک نئی دنیا کی تشکیل کی خواہاں ہے۔ اس نظم میں سیاہ فام عورتوں کی طاقت کو بیان کیا گیا ہے جو انھیں کسی کے سامنے بھی جھکنے سے روکتی ہے۔ وہ اپنی شناخت، اپنی کامیابیوں اور اپنے خوابوں پہ فخر کرتی ہیں اور ان کی یہی طاقت ان کو Phenomenal بناتی ہے۔

am a woman phenomenally i

Phenomenal woman, That’s me

عورتوں کی آزادی کا سوال مایا کے لیے ہمیشہ اہم رہا۔ ان کی تحریریں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ عورت صرف ایک جسم نہیں بلکہ ایک مکمل انسان ہے۔ جس کے حقوق، خواہشات اور خواب بھی ہیں اور جو اہم ہیں۔ مردانہ سماج میں عورت کو صرف جسم تک محدود کردینا ایک بڑا ظلم ہے اور مایا نے شاعری کے ذریعے اس ظلم کو بے نقاب کیا ہے۔

ان کی نظمیں اورکتابیں مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوئیں اور انھیں بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی۔ ان کا کام عورتوں کی عالمی تحریک کا حصہ بنا۔ انھیں عورتوں اور خصوصا سیاہ فام عورتوں کے لیے ایک عوامی آواز کے طور پر تسلیم کیا گیا۔

مایا اینجیلو نے بل کلنٹن کی حلف برداری کی تقریب میں ’’ آن دا پلس آف مارننگ‘‘ پڑھی وہ امریکی تاریخ میں صدارتی تقریب میں نظم پڑھنے والی دوسری شاعرہ ہی۔ اس سے پہلے 1961 میں رابرٹ فراسٹ نے جان ایف کینیڈی کی حلف برداری کی تقریب میں ایک نظم پڑھی جوکہ امریکی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا تھا۔

انھوں نے دنیا بھرکی عورتوں کو ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کا حوصلہ دیا۔ ان کی تحریر یں آج بھی ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ عورت کی حیثیت کسی بھی سماج میں کم نہیں ہوتی، اگر عورت اپنے حقوق کے لیے کھڑی ہوجائے تو وہ پہاڑوں کو بھی ہلا سکتی ہے۔ مایا کا انتقال 86 برس کی عمر میں 2014 میں ہوا۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں