8

اسرائیل کی جارحیت میں شدت

ایک طرح سے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والی ہر طاقت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ۔ فوٹو : فائل

ایک طرح سے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والی ہر طاقت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ۔ فوٹو : فائل

اسرائیل نے لبنان کے بعد شام کے دارالحکومت دمشق کو فضائی بمباری کا نشانہ بنایا ہے، دوسری جانب اسرائیل نے لبنان میں حزب اللہ کے خلاف زمینی آپریشن شروع کردیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ روز لبنان پر اسرائیلی فضائی حملوں میں تین حزب اللہ کمانڈرز سمیت 108 شہری شہید ہوئے۔

اسرائیل نے غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردینے اور اکتالیس ہزار افراد کو موت کی نیند سلا دینے کے بعد اب اپنے جارحانہ، توسیع پسندانہ وغاصبانہ عزائم کو آگے بڑھاتے ہوئے لبنان، شام اور یمن کو نشانہ بنا رہا ہے۔ حالیہ عرصے میں ایک بات دیکھنے میں آئی ہے کہ اسرائیل مسلسل اپنے منصوبوں کو عملی شکل دینے میں لگا ہوا ہے۔ اسے اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ عالمی سطح پر اس کا کیا رد عمل ہوسکتا ہے۔ دنیا بے حسی کا شکار ہوگئی ہے اور بڑی طاقتوں نے فلسطین پر آنکھیں موند لی ہیں اور صرف اسرائیل کے موقف کی حمایت کی جارہی ہے۔ ہرکسی کو اسرائیل کی فکر لاحق ہے لیکن نہتے اور معصوم بے گناہ فلسطینوں،لبنانی اور شامی مسلمانوں کی ہلاکتوں پر کسی کوکوئی تکلیف نہیں ہوتی۔

دو روز قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اعلیٰ سطح عام مباحثے کے آخری روز خطاب کرتے ہوئے شام کے وزیر خارجہ بسام سباغ نے خبردارکیا تھا کہ ’’ اسرائیل کی بڑے پیمانے پر بلا روک و ٹوک جارحیت سے مشرق وسطیٰ خطرناک کشیدگی کا شکار ہو رہا ہے، جس کے پوری دنیا میں امن و سلامتی کے لیے ناقابل تصور نتائج برآمد ہوں گے۔‘‘ درحقیقت گولان سمیت شام کے علاقوں پر 1967 سے جاری اسرائیلی قبضہ اور اس کی جانب سے نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم اقوام متحدہ اور خاص طور پر سلامتی کونسل کی ناکامی ہیں۔ کونسل یہ نسل پرستانہ اور توسیع پسندانہ قبضہ اور اسرائیل کی حالیہ جارحیت کو ختم نہیں کرا سکی۔

ایک طرح سے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرنے والی ہر طاقت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ چاہے وہ ایران میں ہو، فلسطین میں ہو یا پھر اسرائیل میں ہو یا لبنان میں ہو، ہرآوازکو دبایا جارہا ہے یا خاموش کیا جا رہا ہے جو اسرائیل کے خلاف بلند ہوتی رہی تھی۔ اسرائیل نے حسن نصر اللہ کو بھی شہید کرتے ہوئے یہ واضح اور مستحکم پیغام دے دیا ہے وہ آگ سے کھیل رہا ہے اور اس میں آگ سے کھیلنے کی صلاحیت اور طاقت موجود ہے۔ اسرائیل کو یہ یقین ہو چلا ہے کہ ساری دنیا اس کے خلاف کچھ بھی نہیں کرسکتی، وہ انسانیت سوز حرکتوں کا ارتکاب کر رہا ہے۔

انسانیت کو شرمسارکرنے والی فوجی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ جنگی جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ نہتے اور معصوم و بے گناہ انسانوں کا ہزاروں کی تعداد میں قتل عام کیا جا رہا ہے۔ مسلسل انسانیت سوز کارروائیوں کے باوجود امریکا کی جانب سے اسرائیل کو لگا تار فوجی اور مالی امداد دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ امریکا کو یہ پتہ ہے کہ ساری امداد نہتے فلسطینیوں کے خلاف استعمال کی جائے گی، اس کے باوجود یہ فراہم کی جا رہی ہے۔ اس کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ امریکا اسرائیل کے جنگی جرائم میں برابر کی شریک ہے۔

نہ علاقہ و خطہ کا کوئی ملک ایسا ہے جو اس طرح کی کارروائیوں کے خلاف آواز بلند کرے یا اسرائیل کو روکنے کی کوشش کرے اور نہ ہی دنیا میں کوئی ملک ایسا رہ گیا ہے جس میں اتنی اخلاقی جرات ہو کہ وہ اسرائیل کے خلاف عالمی فورمز کے ذریعے ہی کوئی فیصلہ کروایا جائے۔ امریکا حالانکہ مگرمچھ کے آنسو بہاتا اور وقفہ وقفہ سے اسرائیلی کارروائیوں کی بظاہر مذمت بھی کرتا ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کا کسی بھی طرح کوئی تقابل نہیں بنتا۔ اسرائیل ہائی ٹیک برآمدات والا، ایڈوانس ٹیکنالوجی اور سائبرآلات سے مزین دفاعی نظام کا حامل ایک امیر اور ترقی یافتہ ملک ہے۔

اس کے پاس افواج زیادہ ہیں اور وسائل بھی، معیشت نہایت مستحکم ہے کہ اسے امریکا جیسے ممالک کی جانب سے امداد ملتی ہے اور اس کی اپنی تجارت کا حجم بھی خاصا بڑا ہے۔ دوسری جانب فلسطینی ہر طرح کے وسائل سے محروم ہیں۔ ان کے وسائل اور زمین پر زیادہ تر اسرائیلی قابض ہیں اور جو رہ گئے ان پر اب قبضہ ہوجائے گا، اگر عالمی برادری نے غزہ میں بہنے والے خون اور ہونے والی اموات روکنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہ کیا تو فلسطینی قوم کا خاتمہ ہو جائے گا۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن حقیقت یہی ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے تنازع کو اس نہج تک پہنچانے کی ذمے دار وہ عالمی طاقتیں ہیں، جو اس مسئلے کے مناسب اور جائز حل میں کردار ادا کر سکتی تھیں لیکن انھوں نے یہ کردار ادا نہیں کیا۔ الٹا جانب داری کا مظاہرہ کیا جاتا رہا۔

گزشتہ پچھتر برسوں میں سب نے دیکھا کہ اسرائیل کی بے جا حمایت اور مالی امداد کی جاتی رہی اسے ترقی دی جاتی رہی اور اس کے وسائل میں اضافہ کیا جاتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اسرائیل کی قیادت کسی کی کوئی بات،کوئی نصیحت،کوئی مشورہ سننے کو تیار نہیں۔  سلامتی کونسل نے غزہ میں جنگ بندی کی جو قرار داد پاس کی ہے، اس میں بڑا فیکٹر روس اور چین کا دباؤ ہے، اس کو مشرق وسطیٰ میں روس کے داخلے کی کامیاب کوشش قرار دیا جا سکتا ہے۔

امریکا نے جنوبی ایشیا میں بھارت کواپنے زیر اثر لانے کی جو کوشش شروع کر رکھی ہے اس پر بھی روس اور چین کا ردعمل امریکا کے لیے غیر متوقع ہے، روس اور چین اس اسٹرٹیجک علاقے میں امریکا کی موجودگی کو کسی قیمت پر قبول نہیں کریں گے۔ اسرائیل کے حکمراں، فلسطینیوں پر جو ظلم کررہے ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ عرب ملکوں پر اپنی طاقت کی دھاک بٹھائیں تاکہ ان کے خلاف کسی کو کھڑے ہونے کی ہمت نہ ہو، وہ بڑی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں۔

امریکا کبھی بھی اسرائیل کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ اس اعتبار سے امریکا دنیا کو بیوقوف نہیں بنا رہا بلکہ وہ دھڑلے سے غزہ میں نسل کشی کرنے والی ریاست کی پشت پناہی کر رہا ہے، ایک سپر پاور ہونے کا کم ازکم اتنا فائدہ تو ہونا چاہیے کہ تضادات سے بھرپور خارجہ پالیسی کا دفاع کرنے کے بجائے اسے علی الاعلان جاری رکھا جائے۔ امریکی حکومت اتنی طاقتور ہے کہ اسے اپنے اصلی عزائم چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے مگر اسرائیل اور ایران کیونکہ عالمی طاقتیں نہیں ہیں، اس لیے وہ پورا سچ نہیں بول سکتے۔

ایران نے ابھی تک دھمکیاں دینے کے باوجود اگر اسرائیل پر جوابی حملہ نہیں کیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسرائیل پر براہ راست حملہ کر کے اسے اشتعال نہیں دلانا چاہتا۔ ایرانی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ اسرائیل کو ایران کے جوہری توانائی کے مراکزکو تباہ کرنے کے لیے ایک بہانہ چاہیے۔ اسرائیل ایران کی سرزمین پر اس کے کئی نیوکلیئر سائنسدانوں کو ہلاک کرچکا ہے۔

ایران نے اسماعیل ہنیہ اور حسن نصراﷲکی شہادت کے بعد سوائے بیان جاری کرنے کے کچھ نہیں کیا ہے۔ اس تناظر میں اہم سوال یہ ہے کہ اسرائیل کی اشتعال انگیزیوں کے باوجود ایران اگر کوئی جوابیکارروائی یا اقدامات نہیں کرپاتا تو عالمی تجزیہ نگاروں کی یہ رائے درست ہے کہ اسرائیل کو ایران کی طاقت کا علم ہے،اس کے علاوہ اسرائیل یہ بھی جانتا ہے کہ خوشحال عرب ممالک کی حکومتیںحماس کے طریقے کو درست نہیں سمجھتیںاور وہ پی ایل او کی حکمت عملی کے ساتھ ہیں جب کہ وہ حزب اﷲ کی طرز سیاست اور عکسریت پسندی کے حق میں نہیں ہیں ۔

غزہ میں ایک انسانی المیہ جاری ہے۔ روزانہ سیکڑوں افراد شہید اور اس سے زیادہ تعداد میں زخمی ہو رہے ہیں۔ انفرا اسٹرکچرکی تباہی اس پر مستزاد، لیکن زور اس بات پر دیا جا رہا ہے کہ عارضی جنگ بندی ہو جائے، حالانکہ اقوام متحدہ اور دوسری عالمی طاقتوں کے ہوتے ہوئے نہ تو عارضی جنگ بندی ہونی چاہیے اور نہ ہی اس جنگ کو مستقل طور پر بند کرنا مشکل ہونا چاہیے، تاہم باتیں ہو رہی ہیں، بیانات دیے جا رہے ہیں، فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جا رہا ہے، لیکن ان کی کسمپرسی ختم کرنے کے لیے کوئی عملی اقدام ہوتا نظر نہیں آتا۔ اگر دنیا کی بڑی طاقتیں اسرائیلی قیادت کو سیدھا کرنا چاہیں تو ایک منٹ میں کرسکتی ہیں،کیونکہ اسرائیل عالمی برادری سے الگ کوئی وجود نہیں ہے۔

اسی بین الاقوامی کمیونٹی کا حصہ ہے، اگر امریکا اسرائیل کی حمایت بند کر دے اور یورپی یونین اسرائیلی پروڈکٹس کا بائیکاٹ کردے حتیٰ کہ صرف مسلم امہ ہی اسرائیل کی اشیا کا استعمال بند کردے تو کیا اسرائیل کے لیے اپنی معاشی بقا کا کوئی سامان باقی رہ جائے گا؟ لیکن سارے مہر بلب ہیں اور تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ فلسطینی عوام کی مالی مدد توکی جا رہی ہے لیکن سیاسی اور اخلاقی مدد کا کہیں کوئی وجود نظر نہیں آتا۔اسرائیل اپنے جارحانہ منصوبوں کو عملی شکل دینے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں کر رہا ہے، وہ اب اپنے تمام منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے۔

اسے دنیا کی مخالفت کی نہ کوئی فکر رہ گئی ہے اور نہ وہ کسی کو خاطر میں لانے کو تیار ہے، اگر دنیا میں انصاف باقی ہے اور انسانیت کے لیے کام کرنے کا حقیقی جذبہ باقی ہے تو ظالم اور غاصب اسرائیل کے خلاف حرکت میں آنا چاہیے۔ دنیا میں انصاف کے تقاضوں کو اگر برقرار رکھا جانا ہے تو اسرائیل کو اس کی جارحیت سے روکا جانا چاہیے، یہ ساری دنیا کی ذمے داری ہے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں