[ad_1]
کراچی: ہیومن رائیٹس کے نمائندوں، وکلاء اور سول سائٹی نے جوڈیشل ایکٹوازم کو مسترد کرتے ہوئے پارلیمنٹ، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور ایگزیکٹو کے درمیان اختیارات کے توازن اور عدالتی ریفارمز سمیت آئینی مسائل کے حل کے لیے ملک میں آئینی عدالت کے قیام کو ناگزیر اور وقت کی اہم ضرورت قرار دے دیا ہے۔
منگل کو سندھ اسمبلی کے کمیٹی روم میں ہیومن رائٹس سیل کے تحت ہیومن رائٹس کے نمائندوں، وکلا اور سول سوسائٹی کا آئینی ترمیم کے متعلق پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو کی صدارت میں ڈائیلاگ سیشن کا انعقاد ہوا۔
جس میں پیپلز پارٹی ہیومن رائٹس سیل کی جنرل سیکریٹری ملائکہ رضا،ایم این اے نفیسہ شا،قانون دان سینیٹر ضمیر گھمرو، صوبائی وزیر سعید غنی،انیس ہارون،قاضی بشیر سمیت دیگر وکلاء اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔
ڈائیلاگ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو نے کہا کے وفاقی شریعت کورٹ بن سکتی ہے تو پھر آئینی عدالت کیوں نہیں بن سکتی؟جب آئین میں ترمیم ہوسکتی ہے تو پھر عدالتی ریفارمز کیوں نہیں ہوسکتے، موجودہ صورتحال میں عدالتی ریفارمز اور آئینی عدالت کا قیام ناگزیر اور وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔
ہم جوڈیشل ایکٹوازم کے خلاف ہیں، چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ اور آئین کی بالادستی قائم ہو اور ملک میں جوڈیشل ایکٹوازم نہیں ہونا چاہیے، آئینی ترمیم کے لیے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین سے مشاورت جاری ہے، جلد اتفاق رائے ہوجائے گا۔
ایم این اے نفیسہ شاہ نے کہا کہماضی میں عدالت نے نظریہ ضرورت کو جنم دیا اور آمروِں نے آئین کا حلیہ بگاڑا جس کو تحفظ بھی عدلیہ نے دیا اور ماضی میں عدلیہ نے ہی منتخب وزراء اعظم کو بھی عہدوں سے ہٹایا، میری رائے یہ ہے کہ ججز کی تقرری عدلیہ خود نہ کرے ،قانون دان سینیٹر ضمیر گھمرو نے کہا کہ قانون اور آئین بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے اور تشریح کرنا عدالت کا کام ہے۔
[ad_2]
Source link