[ad_1]
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران سے اسرائیل پر 400 میزائل داغے گئے، جب کہ اسرائیل اور امریکا نے تہران کے خلاف جوابی کارروائی کا وعدہ کیا ہے، جس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر جنگ کے خدشات شدت اختیار کرگئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مشرق وسطیٰ کے بارے میں ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے، جب کہ یورپی یونین نے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیل کے مطابق انھوں نے اپنے Iron Doom دفاعی نظام سے زیادہ تر ایرانی میزائلوں کو راستے میں ہی تباہ کردیا ہے اور اسرائیل میں ہونے والے کم جانی نقصان سے ایسا لگتا بھی ہے، لیکن یہ دعویٰ کہ اس دفاعی نظام نے 90 فیصد میزائلوں کو تباہ کیا ہے، سراسر مبالغہ آرائی ہے۔ موجودہ کشیدگی نے سفارتی محاذ پر ہلچل پیدا کردی ہے، اگر ایران یا اس کی حمایت کرنے والے گروپ اس موقع پر خطے میں امریکیوں کے مفادات کو نشانہ بناتے ہیں تو امریکا اپنے لوگوں کے دفاع کے لیے ہر ضروری اقدام کرے گا۔
دنیا اب اسے صرف اسرائیل فلسطین کشیدگی ماننے کو تیار نہیں، یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ اس تصادم میں بڑی طاقتوں نے اسرائیلی جارحیت کا ساتھ دے کر دنیا کو شدید خطرے سے دوچارکردیا ہے۔ ان طاقتوں کے انسانی حقوق، امن اور عالمی قواعد و ضوابط کے دعوے کس قدرکھوکھلے ہیں اور اس بیانیے کا استعمال کس طرح مفادات کے تابع ہے، اسرائیلی بربریت اور غزہ کے شہریوں پر آتش و آہن کی بارش میں یہ سب ظاہر ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں سے دوغلے پن کے خلاف آوازیں اٹھائی جا رہی ہیں۔ جوں جوں اسرائیل کی بربریت بڑھتی جائے گی اسرائیل اور اس کے حامیوں کے لیے عالمی نفرت میں اضافہ ہوتا جائے گا اور دنیا مجبور ہوگی کہ عالمی طاقت کے دوسرے دھڑے کی جانب دیکھے۔ اس عالمی تبدیلی کا عالمی معیشت پرکیا اثر پڑتا ہے، اس کا اندازہ ابھی تک نہیں کیا گیا، اگرچہ اسرائیلی جارحیت اور فلسطینی مزاحمت کی وجہ سے اسرائیلی معیشت پر منفی اثرات ظاہر ہونا شروع ہو چکے ہیں۔
یہ کشیدگی جتنا طول پکڑے گی اس کے علاقائی اور عالمی معاشی اثرات اسی قدر بڑھتے جائیں گے۔ اسرائیل کو اس بربریت پر اکسانے والے اس کے اتحادیوں کے اس جیو پولیٹکل صورتحال میں جو بھی مفادات ہوں مگر یہ طے ہے کہ اس کے نتائج ان کی توقعات کے برعکس برآمد ہو رہے ہیں۔ دنیا کی نظر میں اسرائیل اور اس کے پشتی بانوں کا مجرمانہ کردار مزید واضح ہو چکا ہے، مشرق وسطیٰ کا خطہ جہاں کچھ پہلے تک اسرائیل کی جانب تعلق کے رجحان میں اضافہ ہوا، وہاں اسرائیل کے لیے خطرے کی سطح بلند ہو چکی ہے۔ علاقائی مزاحمتی دھڑوں اور عسکریت پسندوں کا رُخ اسرائیل کی جانب ہوچکا ہے۔ اسرائیل ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی مزاحمت کے ان حملوں اورکارروائیوں کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ یورپی سرمایہ دار خوفزدہ ہیں کہ خطے میں کسی قسم کا سنجیدہ مسئلہ کنٹرول سے باہر ہو سکتا ہے، وہ ہمیشہ ’’ انسانیت‘‘ کی بات کرتے ہیں لیکن ان کے حقیقی مقاصد کچھ اور ہیں۔ فرانس، جرمنی اور برطانیہ کمزور معاشی بحالی اور تیل کی قیمتوں پر اس تنازعے کے اثرات سے خوفزدہ ہیں۔
سب سے بڑھ کر وہ مسلم ممالک میں کسی نئے انقلاب کے پھٹ پڑنے سے خوفزدہ ہیں۔ امن کی اپیلوں کے پیچھے یہی وجوہات کار فرما ہیں، لیکن یورپی حکومتیں، یورپی یونین کو ٹوٹنے سے بچانے میں اتنی مصروف ہیں کہ غزہ کا معاملہ ان کے لیے ثانوی نوعیت کا ہے۔ امریکا میں بالائی سطح تک خدشات موجود ہیں، امریکی حکومت اسرائیل کی مخالفت نہیں کرسکتی ہے،کیونکہ خطے میں ان کا یہی ایک قابلِ بھروسہ حلیف بچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکارانہ لفاظی کے باوجود جوبائیڈن نے اسرائیل کی حمایت کی ہے۔
وسیع پیمانے پر دیکھا جائے تو اسرائیل اس سے پہلے اتنا تنہا کبھی نہیں ہوا ہے۔ ترک اسرائیلی تعلقات کافی کشیدہ ہیں، ترک وزیرِاعظم طیب اردگان نے اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قرار دیا ہے۔ بشار الاسد کی زیرِ قیادت شام ایک رکاوٹ تھا لیکن اس کا رویہ قابلِ پیش گوئی تھا، لیکن اب شام میں جاری انتشار لبنان تک پھیلنے کے باعث دمشق حکومت معاملات کو قابو کرنے کے سلسلے میں قابلِ اعتماد نہیں رہی۔ غزہ کا بحران مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ اردن میں مقیم فلسطینیوں کو مشتعل کرسکتا ہے، سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک مصر ہے۔ مصری حکومت قاہرہ کی سڑکوں پر نئی جنگ کے خوف سے جنگ بندی کروانے میں سب سے زیادہ سرگرم ہے۔ مصر جنگ بندی کے مذاکرات کی میزبانی کر چکا ہے جس میں حماس اور اسلامی جہاد کے سرکردہ رہنما شامل ہوئے تھے۔ مصری حکومت کے مفادات اسرائیل کو زمینی حملے سے روکنے سے وابستہ ہیں۔
دوسری جانب خطے کی تازہ ترین پیش رفت پر تبادلہ خیال کے لیے کابینہ کے ساتھ ایک میٹنگ کے دوران، لبنانی وزیر اعظم نجیب میقاتی نے کہا کہ ان کے ملک میں اسرائیلی فضائی حملوں سے بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد دس لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ میقاتی نے اسے لبنان کی تاریخ کی سب سے بڑی نقل مکانی قرار دیتے ہوئے ’’ تمام محاذوں پر جنگ بندی‘‘ کا مطالبہ کیا۔دوسری جانب لبنان پر اسرائیلی بربریت کے خلاف دنیا نے آواز اٹھانا شروع کر دی ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے اسرائیل سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم لبنان میں جاری فضائی حملوں سے پریشان ہیں۔ جنگ پھیلنے سے مزید تباہ کن نتائج کا خطرہ ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران لبنان اور غزہ میں اسرائیل کے اقدامات اور جرائم سے لاتعلق نہیں رہے گا۔ اسرائیل کے جرائم امریکا کی حمایت سے جاری ہیں۔ انسانی زندگی کے لیے وحشیانہ غفلت کو جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ چینی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے لبنان پر فوجی کارروائیوں اور بڑی تعداد میں انسانی جانی نقصان پر صدمہ ہوا ہے۔
اپنے تئیں اسرائیل یہ سب کچھ اپنی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کر رہا ہے، لیکن ہر گزرتے ہوئے سال کے ساتھ اسرائیل غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے۔ خطے میں اور بین الاقوامی طور پر یہ تیزی سے تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ ان ظالمانہ حملوں نے فلسطین کے پیچیدہ سوال کو مزید بل دے دیے ہیں۔ موت اور تباہی کا ننگا ناچ فلسطینیوں کی نئی نسل کو انتقام کی آگ سے بھر دے گا۔ ان حملوں سے آنے والی اسرائیلی نسلیں کس طرح محفوظ ہوں گی؟ یہ ایک معمہ ہے۔
فضائی حملے میں مرنے والا ہر بچہ انتقام کی پیاس کو مزید بڑھاتا ہے۔ اس راستے پر اس بدقسمت خطے کے لوگوں کے لیے تباہی و بربادی کے علاوہ کچھ نہیں۔ آج بڑی طاقتیں اسرائیل کی پشت پناہی کے لیے کھڑی ہیں، یہ وہ ممالک ہیں جو حقوق انسانی کے چمپئین کہلاتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو دن رات انسانی حقوق کی بات کرتے تھکتے نہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو آزادی اظہار کا علم بردار کہلاتے ہیں، اور یہ ان کا مکروہ چہرہ ہے، یہ ان کا منافقانہ کردار ہے۔ ان سے سوال ہے کہ آج برطانیہ، فرانس اور امریکا اسرائیل کو کھلے الفاظ میں یہ کہہ رہے ہیں کہ تم فلسطینیوں کا قتل عام کرو، ان کا جینا حرام کردو، ہم تمہارے ساتھ کھڑے ہیں، ہم تمہارے لیے ہر قسم کا اسلحہ بھیجیں گے، اپنے بحری بیڑے بھیجیں گے، تم آگے بڑھو اور قتل عام کرو۔ جب کہ دنیا بھر کے عوام بے حس نہیں ہیں، عوام ہر جگہ، ہر فورم پر اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔
طوفان اقصیٰ آپریشن کے دوران متعدد حربے استعمال کیے گئے ہیں اور شہروں کو نشانہ بنانے کی بزدلانہ اسرائیلی کارروائی صہیونی ریاست کے فلسطینی علاقوں پر قبضے کو ایک اسٹرٹیجک وسعت دینے میں بھی مدد فراہم کرتی ہے۔ شہروں پر اسرائیلی حملے مقبوضہ علاقوں میں یہودی آبادکاری کے حق میں پروپیگنڈے کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ اسرائیل اپنی ان کارروائیوں کے ذریعے مغربی کنارے میں آباد کاری کو وسعت دے کر فلسطینیوں کا گلا گھونٹنے اور ان کی ملکیتی اراضی کو ہتھیانا چاہتا ہے۔ شمال مغربی کنارے کے شہروں پر جارحیت کے اہداف کا تعلق فوجی آپریشن کے جغرافیائی عوامل سے ہے، خاص طور پر نابلس، جنین، طولکرم اور طوباس کے کیمپوں میں مزاحمت کے کردار کے حوالے سے جو اسرائیلی اندازوں سے زیادہ ہے اور فوج کو ڈر ہے کہ یہ مزاحمت مغربی کنارے کے باقی علاقوں تک پھیل سکتی ہے۔
یہ بھی خطرہ ہے کہ یہ مزاحمت کیمپوں کے دفاع سے آگے آبادکاروں کے علاقوں کو نشانہ بنا سکتی ہے۔کیمپوں کو نشانہ بنانے کا مقصد اس جدوجہد کے ساتھ ساتھ ان علاقوں سے بیدخل فلسیطنی مہاجرین کی وطن واپسی کے حق کو بھی بری طرح کمپرومائز کرتا ہے۔اسرائیل کی پیٹھ تھپتھپانے والی مغربی طاقتوں کو نجانے کیوں لگتا ہے کہ انسانیت کے خلاف ان کے مظالم کا نقصان اب بھی ان کے قابو میں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے مزاحمتی دھڑوں کی اس جنگ میں شمولیت سے یہ کشیدگی جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی نظر آرہی ہے۔ موجودہ صورتحال نے مشرقِ وسطیٰ کے اُس حصے کو اس سطح پر لا کھڑا کیا ہے کہ اب پہلے والی سطح پر واپسی تقریباً ناممکن ہو گی۔ عالمی طاقت کے ایک دھڑے کی اس جارحیت میں اسرائیل کی حمایت نے اسرائیل فلسطین تنازع کو علاقائی نہیں عالمی سطح کا تنازع بنا دیا ہے۔
[ad_2]
Source link