38

سیاسی احتجاج کے حقیقی متاثرین

ستمبر کے آخر میں پی ٹی آئی نے اپنا راولپنڈی کا جلسہ منسوخ کر کے احتجاج کا اعلان کردیا، جس کے لیے متعلقہ انتظامیہ نے بھی اپنے حفاظتی اقدامات کیے اور اس کا ایک اہم فیصلہ میٹرو سروس کی بندش تھی جس کے نتیجے میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان سرکاری طور پر سستی ٹرانسپورٹ کا اہم ذریعہ میٹرو بسیں بند رکھی گئیں اور دیگر اقدامات بھی کیے گئے جس سے جڑواں شہروں کے درمیان سفر کرنے والے ہزاروں مسافر بری طرح متاثر ہوئے اور جن افراد کے لیے سفر ضروری تھا انھیں بسوں، ٹیکسیوں، بائیکیا سہولیات اور دیگر ذرایع سے منزل مقصود تک پہنچنا پڑا۔ یہ احتجاج ہفتے کو تھا اس لیے جڑواں شہروں میں سرکاری ملازم تو محفوظ رہے جب کہ دیگر لوگ بری طرح متاثر ہوئے کیونکہ غیر سرکاری ٹرانسپورٹ سروس فراہم کرنے والوں کی اچانک چاندی ہوگئی اور انھوں نے مجبور مسافروں سے منہ مانگے کرائے وصول کیے۔

ملک میں آئینی طور پر احتجاج اور جلسے کرنے کا سیاسی جماعتوں کا آئینی حق ضرور ہے اور وہ یہ حق استعمال بھی کرتی ہیں مگر اپنی حکومت کی برطرفی کے بعد سے بانی پی ٹی آئی نے سیاسی مقاصد کے لیے نہیں بلکہ اپنی رہائی اور مقدمات سے نجات کے لیے ملک میں جلسوں کا سلسلہ شروع کرایا ہے اور اس سلسلے میں کے پی، اسلام آباد اور لاہور میں پی ٹی آئی کے جلسے ہو بھی چکے ہیں۔

اسلام آباد کے جلسے میں جارحانہ انداز اور قابل اعتراض تقریر کے ماہر خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ نے جو کچھ کہا تھا، اس کی پاداش میں وہ خود کسی جگہ 8 گھنٹے کی حاضری دے چکے تھے اور متعدد پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاریاں بھی ہوئی تھیں جن میں بعض ارکان پارلیمنٹ بھی شامل تھے، جن کی گرفتاری پر اسپیکر قومی اسمبلی نے ایکشن لیا تھا اور انھیں ایوان میں لانے کا حکم دیا تھا جو (ن) لیگی اسپیکر کا آئینی اختیار تھا اور انھوں نے اپنی مرضی سے استعمال کیا جب کہ پی ٹی آئی حکومت کے اس وقت کے اسپیکر اسد قیصر اپنا یہ آئینی اختیار استعمال کرتے ہی نہیں تھے، کیونکہ انھیں اس وقت کے وزیر اعظم نے سختی سے روکا ہوا تھا کہ وہ ان کے سیاسی مخالفین ارکان پارلیمنٹ کی ایوان میں حاضری کے لیے کوئی پروڈکشن آرڈر جاری نہ کریں۔ اپنے پارٹی سربراہ کے حکم کی تعمیل ان کے ماتحت اسپیکر حرف آخر سمجھتے تھے اور اتنے اہم عہدے پر تعینات اسپیکر قومی اسمبلی میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ وہ اپنے وزیر اعظم کو سمجھاتے کہ عوام کے منتخب ارکان کو پارلیمان میں طلب کرنا ضروری ہے۔ اسپیکر اسد قیصر نے اس سلسلے میں اپنے ایک رہنما عمر ایوب کے والد گوہر ایوب اسپیکر قومی اسمبلی کی بھی پیروی نہیں کی تھی اور پی ٹی آئی کے وفاقی وزیر عمر ایوب نے بھی حکومت کو گرفتار ارکان کو ایوان میں لانے کا مشورہ نہیں دیا۔

حکومت کے خاتمے کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں کو اب احتجاج کا حق یاد آ رہا ہے جو انھیں اپنی حکومت میں یاد نہیں تھا۔ انھیں قومی اسمبلی میں (ن) لیگ اور پی پی کے ارکان پارلیمنٹ کا موجود نہ ہونا نظر نہیں آتا تھا جن میں موجودہ وزیر اعظم اور اس وقت کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق، رانا ثنا اللہ، خواجہ آصف، خورشید شاہ و دیگر یاد نہیں تھے جو عوام کے منتخب نمایندے تھے، مگر اسپیکر انھیں ایوان میں طلب نہیں کرتے تھے کیونکہ اسپیکرکو پتا تھا کہ اگر انھیں ایوان میں لایا گیا تو وہ حکومتی مظالم پر احتجاج کریں گے اور ان کے وزیر اعظم کی موجودگی میں سلیکٹڈ، سلیکٹڈ کے نعرے لگائیں گے جو ناقابل برداشت ہوتے تھے۔

پنجاب کی وزیر اطلاعات نے راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے احتجاج پرکہا کہ ملک کے حالات احتجاج اور جلسوں کے متقاضی نہیں ہیں کہ سیاسی کشیدگی بڑھائی جائے جس سے کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آجائے۔ انھوں نے کہا کہ احتجاج اور جلسوں کے ذریعے تحریک انصاف ایسے حالات پیدا کر رہی ہے کہ انھیں کچھ لاشیں مل جائیں تاکہ وہ اس کا سیاسی فائدہ اٹھا سکیں جب کہ پنڈی کے عوام بھی لاہورکی طرح پی ٹی آئی کو مسترد کر چکے ہیں۔ اب پی ٹی آئی کے خیبرپختون خوا کے وزیر اعلیٰ جتھے ساتھ لا کر راولپنڈی کے حالات خراب نہیں کرسکیں گے مگر پنجاب حکومت پی ٹی آئی اور اس کے وزیر اعلیٰ کے ہنگامہ آرائی کے مذموم مقاصد کامیاب نہیں ہونے دے گی۔

اسی سال فروری میں 2018 جیسے الیکشن ہو چکے اور نئے انتخابات کے حالات ہیں نہ آثار مگر بانی پی ٹی آئی اپنی رہائی کے لیے ملک میں جلسوں کا احتجاج کا اعلان کر چکے ہیں، جن شہروں میں وہ جلسے یا احتجاج کرنا چاہتے ہیں وہاں حکومت دفعہ 144 یا پابندی لگا کر اگر اجازت نہیں دیتی تو عدلیہ پی ٹی آئی پر مہربان ہوکر متعلقہ شہروں کی انتظامیہ کو حکم دے کر اجازت دلا دیتی ہے، جس کی سزا عوام بھگتتے ہیں جنھیں انتظامی اقدامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ موجودہ حکومت بھی ماضی کی طرح حکومت مخالفین کو جلسوں اور احتجاج سے روکنے کی پہلے کوشش اور بعد میں عوام کی حفاظت کے نام پر پولیس اورکنٹینرز کے ذریعے راستے روکے جاتے ہیں اور راولپنڈی میں بھی یہی ہو رہا ہے اور بعض مقامات پر رکاوٹوں کے توڑنے پر شیلنگ بھی ہوئی۔

کے پی کے ترجمان کے مطابق پی ٹی آئی نے اپنے بانی کی رہائی کے لیے احتجاجی سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ یہ سلسلہ ایک لحاظ سے عدالتی فیصلوں کے بھی خلاف ہے، کیونکہ رہائی کا حکم عدالتوں کی طرف سے ملتا ہے حکومت عدالتی حکم پر ہی کسی کو رہا کرسکتی ہے۔ 15 روز میں اپنے بانی کو اڈیالہ جیل سے چھڑانے کے دعویدار کے پی کے وزیر اعلیٰ نے سرکاری وسائل استعمال کر کے راولپنڈی کے یوم احتجاج پر جوکچھ کیا وہ دنیا نے دیکھ لیا۔ ترجمان کے پی کے مطابق رہائی کے لیے فیصلہ کن مرحلہ شروع ہو چکا ہے اور کے پی کے وزیر اعلیٰ نے پنجاب پر چڑھائی کی۔ کے پی کے جلوس میں خان کی حمایت کے ترانوں نے نفرتیں بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پشاور موٹر وے بند رہنے سے دونوں صوبوں کی ٹرانسپورٹ بند رہی جس سے پی ٹی آئی نہیں ملک کے عوام ہی متاثر ہوئے اور عوام ان احتجاج و جلسوں سے متاثر ہوتے آ رہے ہیں۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں