[ad_1]
اس ہفتے میرے کالم میں دو نامور شاعروں کا احوال شامل ہے، ایک کا تعلق کراچی سے ہے اور دوسرے کا تعلق بمبئی کی فلم نگری سے ہے۔ قمر جلالوی اردو ادب کے حلقوں میں بڑی شہرت کے حامل رہے ہیں جب کہ دوسری شخصیت قمر جلال آبادی کی ہے جنھوں نے بحیثیت گیت نگار بمبئی کی فلمی دنیا میں بڑا نام کمایا تھا۔
قمر جلالوی کی شاعری سے اردو ادب کا دامن مالا مال ہوا ہے اور ادبی دنیا میں ان کی شاعری کے چرچے رہے ہیں جب کہ قمر جلال آبادی نے ایک طویل عرصہ بحیثیت گیت نگار بمبئی کی فلموں سے وابستہ رہ کر گزارا ہے اور شہرت کے ساتھ دولت بھی کمائی ہے۔ استاد قمر جلالوی نے بڑی غربت میں زندگی گزاری ہے۔ ساری زندگی محنت کی مگر دو وقت کی روٹی کے علاوہ کچھ حاصل نہ کر پائے وہ بہت اچھے شاعر تھے ان کے کلام میں گہرائی بھی تھی اور گیرائی بھی، فقیر منش آدمی تھے، اپنی غزلیں لکھ کر دوسروں کو دے دیا کرتے تھے۔
ان کی غزلوں کو گا کر بہت سے گلوکاروں اور گلوکاراؤں نے شہرتِ دوام حاصل کی مگر کسی نے بھی ان کی غربت کو دورکرنے کی کبھی کوشش نہیں کی اور ان کے کلام کو گا کر خوب مال و دولت بھی حاصل کی، ان کی غزلوں کی دھوم نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان کے ادبی حلقوں تک پہنچی ہوئی تھی۔ قمر جلالوی کی غزلوں کو جس گلوکار اور گلوکارہ نے اپنایا اسے عزت، شہرت اور خوب دولت بھی ملی۔ گلوکارہ منی بیگم اور غزل سنگر حبیب ولی محمد نے گائیکی کی دنیا میں جو عروج حاصل کیا وہ استاد قمر جلالوی کی ہی غزلوں کا مرہون منت رہا ہے۔ ان کی بے شمار غزلیں حالاتِ زمانہ اور لوگوں کی بے حسی کی غماز ہیں اور خود غرض معاشرے کی عکاسی کرتی ہیں۔
تم کو ہم خاک نشینوں کا خیال آنے تک
شہر تو شہر بدل جائیں گے ویرانے تک
اس ایک شعر میں پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک کے حالات کا احاطہ کیا ہوا ہے، اس شعر نے پوری تاریخ رقم کی ہے۔ قمر جلالوی کی ایک اور غزل نے بھی بڑی دھوم مچائی تھی، جس کا ہر شعر قمر جلالوی کی زندگی کی محرومیوں کا اظہار ہے:
کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو
نہ جانے کیسے خبر ہوگئی زمانے کو
دعا بہارکی مانگی تو اتنے پھول کھلے
کہیں جگہ نہ ملی میرے آشیانے کو
زندگی، موت اور دنیاوی رشتوں کی بھیڑکوکس انداز میں مخاطب کیا ہے کہ اس دنیا کی حقیقت کھل کر بیان ہو جاتی ہے۔ ان کی بعض غزلوں کو گا کر تو فنکار محفلیں لوٹ لیا کرتے تھے، جیسے کہ ان کی مندرجہ ذیل یہ غزل ہے:
مریضِ محبت انھیں کا فسانہ
سناتا رہا دم نکلتے نکلتے
آج کے دور کی مشہور گلوکارہ عابدہ پروین اور منی بیگم کو تو خاص طور پر جو مقبولیت حاصل ہوئی، اس کی بنیاد قمر جلالوی کی غزلیں ہیں، ہر محفل میں ان گلوکاراؤں سے قمر جلالوی کی غزلوں کی فرمائشیں کی جاتی ہیں اور ان کی گائی ہوئی غزلوں سے محفلیں خوب گرم ہوتی ہیں، ان کی غزلوں کو بے شمار قوالوں نے بھی اپنی مقبولیت کا ذریعہ بنایا ہے اور قوالوں نے قمر جلالوی کی غزلیں گا کر خوب دولت بھی کمائی ہے اور شہرت بھی سمیٹی ہے اور افسوس کی بات یہ تھی کہ استاد قمر جلالوی نے اپنی ساری زندگی غربت کے ساتھ ہی بسرکی، ان کی زندگی فقر و فاقہ ہی سے دوچار رہی، مگر قمر جلالوی نے کبھی کسی سے شکوہ شکایت نہیں کی وہ انتہائی صابر و شاکر انسان تھے۔
ہر حال میں مگن رہتے اور اپنے جذبات کا اظہار شاعری کی زبان میں ہی کرتے رہتے تھے اور پھر زندگی کے آخری دنوں میں اپنی غربت کا کفن پہن کر ہی اس بے حس اور بے وفا دنیا سے منہ موڑ گئے تھے۔اب میں آتا ہوں ہندوستان کے ایک فلمی شاعر قمر جلال آبادی کی طرف جو فلمی دنیا میں شکیل بدایونی، حسرت جے پوری، کیفی اعظمی، مجروح سلطان پوری اور ساحر لدھیانوی جیسی شہرت تو نہ رکھتے تھے مگر انھوں نے بھی کافی عرصہ بمبئی کی فلمی دنیا میں گزارا اور ان کے لکھے ہوئے گیتوں کو بھی بڑی شہرت ملی تھی۔ 1942 میں انھوں نے فلمی گیت نگار کی حیثیت سے اپنے سفرکا آغازکیا تھا۔ سب سے پہلے انھوں نے مشہور فلم ساز ادارے پنچولی پروڈکشن کی فلم زمیندار کے لیے گیت نگاری کا آغاز کیا تھا۔
ان کا لکھا ہوا گیت گلوکارہ شمشاد بیگم کی آواز میں فلم کی زینت بنا تھا، جس کے بول تھے دنیا میں غریبوں کو آرام نہیں ملتا۔اس فلم میں نامور شاعر بہزاد لکھنوی نے بھی گیت لکھے تھے بعد میں وہ صوفیانہ زندگی کی طرف مائل ہوگئے تھے، قمر جلال آبادی کے لکھے ہوئے گیت ان کے دورکے نامور گلوکار اورگلوکاراؤں نے گائے تھے جن میں امیر بائی کرناٹکی، جی ایم درانی، گلوکارہ ثریا کے علاوہ محمد رفیع، لتا منگیشکر، مکیش مناڈے، آشا بھوسلے اور کشورکمار نے بھی گائے تھے اور ان کے گیتوں کی موسیقی اس دورکے مشہور موسیقار سردار ملک اور ایس۔ڈی برمن نے مرتب کی تھی اور اپنے دور میں ان گیتوں کو بھی بڑی شہرت ملی تھی، اس دور کے لکھے چند گیتوں کے مکھڑے قارئین کی دلچسپی اور معلومات کے لیے درج ذیل ہیں:
٭سنتی نہیں ہے دنیا فریاد کسی کی
٭دل کس لیے روتا ہے
اک دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے
کوئی یہاں گِرا، کوئی وہاں گِرا
اب میں ایک اور دلچسپ گیت کی طرف آتا ہوں جسے محمد رفیع اور لتا منگیشکر نے ڈوئیٹ کی صورت میں گایا تھا:
سن میری سانوری، سن میرے سانوریا
مجھ کو کہیں بھول نہ جانا
مذکورہ دوگانا فلم ’’آنسو‘‘ کے لیے ریکارڈ کیا گیا تھا۔ یہ فلم 1953 میں ریلیز ہوئی تھی، اسی زمانے میں ایک اورگیت بڑا مشہور ہوا تھا جس کی سارے ہندوستان میں ایک طویل عرصے تک دھوم مچی رہی تھی، جو عوام الناس میں بہت پسند کیا گیا تھا، جو ایک عوامی گیت بن کر منظر عام پر آیا تھا اور زبان زد خاص و عام رہا تھا، جس کے بول تھے:
خوش ہے زمانہ آج پہلی تاریخ ہے
دن ہے سہانا آج پہلی تاریخ ہے
یہ گیت گلوکار کشور کمار نے گایا تھا اور اسی گیت کی وجہ سے کشور کمار لائم لائٹ میں آیا تھا۔ جس زمانے میں قمر جلالوی نے گیت لکھے، ان کے گیتوں کو جن موسیقاروں نے دھنوں سے سجایا تھا، ان میں ماسٹر غلام حیدر، مدن موہن اور دلیپ کمار، مدھوبالا کی مشہور فلم سنگدل کے موسیقار سجاد حسین بھی شامل تھے جو بہت ہی منفرد انداز کی موسیقی دیتے تھے۔
[ad_2]
Source link