[ad_1]
ایسا کبھی نہ کبھی ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ اْس دن جی چاہتا ہے کہ بس بستر پر لیٹے رہیں۔ کوئی کام کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ محض اٹھ کر پانی پینے کا خیال بھی عذاب لگتا ہے۔ مگر انسان کے کاندھوں پہ ذمے داریاں سوار ہوں تو وہ ایسی حالت میں کچھ شرمندگی اور احساس ندامت بھی محسوس کرتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اکثر اوقات سمجھ نہیں آتا، خود پہ سستی و کاہلی کی یہ کیفیت کیوں طاری ہو گئی؟ ماہرین طب کی رو سے یہ ایک پیچیدہ عجوبہ ہے جو کئی وجوہ کی بنا پر پیدا ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر کہتے ہیں کہ انسان جسمانی اور ذہنی وجوہ کے باعث سستی وتھکن کا شکار ہوتا ہے۔ جسمانی وجوہ یہ ہیں: پوری نیند نہ لینا، پْرآسائش طرز زندگی جس میں حرکت کم سے کم ہو جاتی ہے اور بعض وٹامن یا معدنیات کی کمی جس کی وجہ سے انسان اپنے اندر کم توانائی پاتا ہے۔مثال کے طور پہ انسان بذریعہ غذا فولاد یا وٹامن ڈی مطلوبہ مقدار میں نہیں لے رہا تو وہ تھکن اور کاہلی محسوس کرے گا۔ ہلنے جلنے کا محض خیال ہی اسے تکلیف دینے لگتا ہے۔
تھکن کی ذہنی وجوہ یہ ہو سکتی ہیں: تناو (stress)، کوئی بے چینی (anxiety) اور ڈپریشن۔ یہ تینوں کیفیات انسان پہ چھائی رہیں تو وہ سستی و تھکن کا نشانہ بن جاتا ہے۔ تب اسے اپنی زندگی جہنم لگنے لگتی ہے اور کوئی امید و خوشی دکھائی نہ دینے پر وہ سست و کاہل بننے لگتا ہے۔ منفی خیالات اس میں پنپتے مثبت جذبے مار ڈالتے ہیں۔
طرزِ زندگی کے اثرات
قبل ازیں بتایا گیا کہ انسان کا طرز ِ زندگی بنیادی طور پہ طے کرتا ہے کہ وہ دن میں چست و چالاک رہے گا یا پھر اس پہ سستی و تھکن طاری رہے گی۔کھانا پینا، نیند لینا، ذہنی دباو میں مبتلا ہونا اور کتنا آرام کرنا اس طرززندگی کے اہم عناصر ہیں۔
٭ غذا: آج کل یہ رجحان بن گیا ہے کہ انسان دن بھر میں بیشتر عرصہ بنی بنائی یعنی پروسیس شدہ غذائیں کھاتا ہے جن میں میدے، چینی اور نمک کی بھرمار ہوتی ہے۔ یہ غذائیں انسان کو فوری توانائی تو مہیا کرتی ہیں مگر ان میں غذائیت عنقا ہوتی ہے۔اور جسم میں غذائیات کی کمی تھکن و کاہلی و پژمردگی جنم لینے کی اہم وجہ ہے۔ لہذا ان عوارض سے چھٹکارے کے لیے ایسی غذائیں بھی کھائیے جن سے آپ کو معدنیات ، وٹامن بھی مل سکیں۔ صحت مند پروٹین ، چکنائی اور کاربوہائڈریٹس بھی حاصل ہوں۔اور یہ عناصر پھل، سبزی اور ثابت اناج سے حاصل ہوتے ہیں۔ کوشش کیجیے کہ ایسا گوشت تناول کریں جو گھاس کھانے والے جانور کا ہو۔
٭ نیند: جدید طبی تحقیق سے افشا ہو چکا کہ انسان کی روزمرہ زندگی میں نیند کی بہت اہمیت ہے کیونکہ اسی کے دوران ہمارا جسم سر تا پا ، خاص طور پہ دماغ اپنی مرمت کرتا ہے۔جاگتے ہوئے ہمارا جسم مسلسل کام میں مصروف رہتا ہے۔لہذا یہ سرگرمی اسے ٹوٹ پھوٹ کا شکار کر دیتی ہے۔ جب انسان نیند لے تو تبھی ہمارا جسم اپنی مرمت کر کے ٹوٹ پھوٹ دور کر لیتا ہے۔
انسان کے لیے ضرروی ہے کہ وہ چوبیس گھنٹے میں سات گھنٹے کی نیند ضرور لے۔اگر وہ اس سے کم نیند لے گا تو جلد تھکن و سستی میں مبتلا ہو جائے گا۔ یہ درست ہے کہ بعض انسان قدرتی طور پہ کم سوتے ہیں اور پھر بھی دن میں چست وتوانا رہتے ہیں، مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔ زیادہ تر انسانوں کو ضرورت ہوتی ہے کہ وہ سات آٹھ گھنٹے کی نیند لیں تاکہ اپنی روزمرہ سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔ یہ نیند انھیں چارج کر کے مسائل زندگی سے مقابلہ کرنے کے قابل بنا دیتی ہے۔
٭ ذہنی دباؤ: دور جدید کی بھاگتی دوڑتی زندگی میں کئی انسان مختلف کام کرتے ہوئے ذہنی دباؤکا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اس کیفیت کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ جسم میں کورٹیسول ہارمون کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ یہ مقدار مسلسل بڑھی رہے تو انسان اپنی توانائی کھو بیٹھتا ہے۔ تبھی تھکن و سستی اس پہ حملہ کر دیتی ہے۔ ذہنی دباؤ کی توانائی چوس کیفیت سے نکلنے کے لیے ورزش ایک آسان طریقہ ہے۔ نماز پڑھنے سے بھی انسان کو سکون ملتا ہے کہ وہ نہ صرف عبادت ہے بلکہ ایک عمدہ طریق ِ حرکت بھی ہے۔ بعض اوقات کھلی ہوا میں لمبے اور گہرے سانس لینے سے بھی ذہنی دباؤ میں افاقہ ہوتا ہے۔
٭طبی وجوہ: قبل ازیں بتایا گیا کہ جسم میں مخصوص معدنیات اور وٹامن کی کمی ہو جائے تو تب بھی انسان تھکن، اضمحلال اور سستی محسوس کرتا ہے۔ کبھی کبھی کوئی بیماری یا طبی خلل بھی اس حالت کو جنم دیتے ہیں۔ ان کی وجہ سے جسم میں توانائی کم ہو جاتی ہے اور انسان کمزوری و لاغرپن کا نشانہ بن جاتا ہے۔
مثال کے طور پہ جب ہمارا تھائرویڈ غدہ اپنے ہارمون بنانا چھوڑ دے تو وہ ایک خلل، ہائپوتھائروڈزم (Hypothyroidism)کا شکار ہوتا ہے۔ اس خلل میں انسان شدید تھکن محسوس کرتا ہے۔ گرمی سردی کو برداشت نہیں کر پاتا۔ اس کے اعصاب درد کرتے ہیں۔ ڈپریشن بھی آن چمٹتا ہے۔جسم میں خون کی کمی (اینیما) اور ذیابیطس مرض بھی انسان کو تھکن و کاہلی میں مبتلا کرتے ہیں۔ اگر آپ دن کے بیشتر عرصہ تھکن و کمزوری محسوس کرتے ہیں تو کسی اچھے ڈاکٹر سے اپنا معائنہ کرائیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ تھکن پیدا کرنے والی کسی بیماری کا نشانہ بن چکے ہوں۔ تب علاج سے تھکن دور ہونے کا موقع بڑھ جاتا ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ جسم میں فولاد، وٹامن ڈی اور بی وٹامنوں کی مقدار موزوں و مناسب ہونی چاہیے۔ ان کی عدم موجودگی بھی انسان کو تھکن واضمحلال میں مبتلا کرتی ہے۔ خون کا ایک سادہ سا ٹیسٹ بتا دیتا ہے کہ یہ وٹامن ومعدن جسم میں پوری مقدار میں ہیں یا نہیں۔ خدانخواستہ نہ ہوں تو ڈاکٹر غذائیں تجویز کریں گے یا پھر غذائی سیپلیمنٹ بھی تجویز کر سکتے ہیں۔
تھکن دور کرنے والے عملی اقدامات
انسان اگر خوداعتمادی اور دلیری سے کام لے تو نامساعد حالات میں بھی وہ تھکن، سستی اور ناامیدی سے چھٹکارا پا کر زندگی کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ذیل میں ایسے طریقے دئیے جا رہے ہیں جو یہ منزل پانے میں آپ کی مدد کریں گے۔
٭…قابل عمل منصوبہ بنائیے:جیسا کہ بتایا گیا، ورزش باقاعدگی سے کرنا تھکن و اضمحلال کو دور بھگاتا ہے۔مگر سستی کی وجہ سے بیشتر مردوزن ورزش کے لیے وقت نہیں نکال پاتے۔اس ناکامی کی ایک وجہ یہ ہے کہ ورزش کرنا انھیں کار ِعظیم لگتا ہے۔ یہ نفسیاتی بوجھ یہ منصوبہ بنا کر ختم کیجیے کہ میں پیر، منگل اور بدھ کو بیس منٹ ورزش کروں گا۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد انسان کے لیے آسان ہو جاتا ہے کہ وہ درج بالا دنوں میں ورزش کر لے۔ یہ فیصلہ سازی اس کے اعتماد و حوصلے میں اضافہ کرتی ہے۔ ورزش کی عادت پھر پروان چڑھنے لگتی ہے اور یوں انسان تھکن و سستی سے نجات پا کر عملی زندگی کی سمت پلٹ آتا ہے۔وہ پھر ہفتے کے پانچ چھ دن ورزش کرنے لگتا ہے کیونکہ اْس پہ اِس سرگرمی کے سیکڑوں فوائد اجاگر ہو جاتے ہیں۔ غرض ورزش کو بوجھ نہ سمجھیے بلکہ یہ انسان کو جسمانی و ذہنی طورپہ تندرست و توانا بنانے والا مفت و بہترین نسخہ ہے۔
٭…ہر کام سے لطف اٹھائیے:روزمرہ زندگی میں بوریت کا احساس بھی انسان کو سست و کاہل بنا سکتا ہے۔ لہذا ایسی مصروفیت تلاش کیجیے جسے انجام دیتے ہوئے آپ لطف محسوس کریں۔ مثلاً کسی سماجی تنظیم سے منسلک ہو کر دکھی انسانیت کی خدمت کیجیے۔یوں آپ کو مقصد ِ زندگی ملے گا اور دوسروں کے کام آکر سکون کا قیمتی احساس بھی۔ دور حاضر کی تیزرفتار حیات میں کئی مردوزن کا مقصد زیادہ سے زیادہ پیسا کمانا بن گیا ہے۔ حالانکہ ساری مادی اشیا دنیا ہی میں رہ جاتی ہیں۔ انسان کا بنیادی مقصد سکون حاصل کرنا ہونا چاہیے تاکہ وہ دنیا میں ایک اعلی و خوشگوار زندگی گذار سکے۔ سستی و کاہلی سے نجات پانے کے لیے آپ کوئی کھیل کھیلئے۔ سوشل میڈیا چھوڑ کر وقت نکالیے اور سیر وسیاحت کیجیے۔غرض کوئی ایسی سرگرمی تلاش کیجیے جو آپ کو فرحت و خوشی دے سکے۔ اس طریق عمل سے انسان اپنی تھکن و نااْمیدی ختم کر سکتا ہے۔
٭…باقاعدگی اختیار کیجیے: انسان اگر روزمرہ زندگی میں باقاعدگی چھوڑ دے تو تب بھی وہ خصوصاً ذہنی تھکن کا نشانہ بن جاتا ہے۔ کام کرنے کو جی نہیں کرتا اور اپنی ذمے داریاں طوعاً کراہاً ہی ادا کی جاتی ہیں۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ انسان اپنے روزانہ کے کام روٹین یعنی باقاعدگی سے کرے۔ یوں وہ ذہنی وجسمانی طور پہ چست و ہوشیار رہتا ہے۔ زندگی کو مثبت انداز میں دیکھتا ہے اور وقتی پریشانیوں اور مشکلات سے نہیں گھبراتا بلکہ جوان مردی سے ان کا مقابلہ کرتا ہے۔منفی پن کو اپنے اوپر غالب نہیں آنے دیتا۔
٭…سادگی و قناعت اپنائیے: انسان اگر بہت زیادہ خواہشات پال لے اور وہ پوری نہ ہوں تو یہ ناکامی بھی اسے مایوسی، سستی و ناامیدی کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے۔ اس خطرناک کیفیت سے بچاؤ کا بہترین حل یہی ہے کہ انسان قناعت و سادگی پہ عمل پیرا ہو۔ خدائے برتر نے اسے جو نعمتیں عطا کی ہیں، ان پہ شکر گذار ہو۔ یہ عمل اسے مایوسی کے گھپ اندھیرے میں جانے سے روک دیتا ہے۔ نیز اسے ذہنی وجسمانی طور پہ صحت مند رکھتا ہے۔ کم سے کم تمنائیں رکھنے والا انسان ہی بہترین زندگی گذارتا ہے۔
٭…میل جول رکھیے: ہمارے دین میں رہبانیت نہیں ہے یعنی وہ دوسرے انسانوں سے کٹ کر زندگی گذارنے کی تلقین نہیں کرتا اور یہ نہایت صائب بات ہے۔ انسان بنیادی طور پہ معاشرتی جاندار ہے۔اس لیے مثبت طور پہ اپنے عزیزوں اور دوستوں سے روابط رکھیے۔ یہ طریق کار بھی انسان کو تھکن، سستی اور پژمردگی کے منفی عناصر سے محفوظ رکھ کر اس کی زندگی شادکام بنائے رکھتا ہے۔
[ad_2]
Source link