[ad_1]
جناب حسن نصراﷲعزم و ہمت،جرات و بہادری اور مزاحمت کی علامت تھے۔ایسے افراد صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔جمعتہ المبارک 27ستمبر کی شام اسرائیل نے بیروت میں ان کے زمین دوز دفتر پر حملہ کیا۔امریکا نے غزہ کے معصوم شہریوں اور لبنان کے مظلوم عوام کو نیچا دکھانے کے لیے بنکر بسٹر بم مہیا کر رکھے ہیں۔ یہ بم زمین میں 30میٹر گہرے مورچوں تک مار کر سکتے ہیں۔یہ کنکریٹ سے بنے چھ میٹر مضبوط بنکرز کو بھی اُڑا سکتے ہیں۔
جناب حسن نصراﷲ اپنے بنکری دفتر میں موجود تھے جب اسرائیل نے ایسے 85بموں سے حملہ کیا۔ہر دو سیکنڈ کے وقفے سے یکے بعد دیگرے بم برسائے گئے۔اس حملے میں جناب حسن نصراﷲ،ان کی اہلیہ فاطمہ یٰسین،ان کی بہت پیاری بیٹی زینب اور کچھ رفقائے کار داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنے خالقِ حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے۔
ہمیں ان کی اگلی زندگی میں سرخروئی کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ویسے تو ہم میں سے ہر ایک کا حتمی فیصلہ اﷲ نے کرنا ہے لیکن حسن نصراﷲ ایک عظیم کاز کے لیے جیتے رہے۔ساری عمر انھوں نے خطرات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینا سیکھا اور عزم و ہمت کی ایک روشن مثال قائم کی۔انھوں نے اپنی جوانی امت کے نام کر دی۔انھوں نے فلسطینیوں کو حوصلہ عطا کیا۔خدا رحمت کند ایں عاشقاںِ پاک طینت را۔
جناب حسن نصراﷲ بیروت کے علاقے حمود میں 31اگست1960کو پیدا ہوئے۔آپ کے والد عبدالکریم نصراﷲ پھل اور سبزیاں بیچتے تھے۔جناب حسن نصراﷲ ابتدا سے ہی مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند تھے۔انھوں نے ابتدائی تعلیم النجا اسکول اور بعد میں ایک پبلک اسکول سے حاصل کی۔1975میں لبنان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تو نصراﷲ خاندان اپنے آبائی گاؤں بسوریہ چلا گیا۔وہاں حسن نے سیکنڈری اسکول تعلیم قریبی قصبے ٹائر میں حاصل کی۔
اس عرصے میں انھوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ شیعہ امل تحریک میں بھی حصہ لیا ۔1976میں جناب حسن عراق چلے گئے جہاں انھوں نے جناب باقر الصدر کے نجف الاشرف اسکول میں داخلہ لیا۔یہاں جناب الصدر نے حسن نصراﷲ کی خداداد صلاحیتوں کا اندازہ لگاتے ہوئے کہا کہ میں آپ کے اندر بے پناہ لیڈر شپ کی خوشبو پاتا ہوں۔حسن نصراﷲ اور ان کے درجنوں ہم جماعتوں کو عراق سے بے دخل کر دیا گیاجب کہ جناب باقر الصدر کو پہلے قید اور بعد میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔جناب امام خمینی بھی بے دخل ہوئے اور ان کے ساتھ لبنان کے جناب عباس موسوی بھی۔بے دخل ہونے پر جناب عباس موسوی اور جناب حسن لبنان واپس آ گئے۔
لبنان واپسی پر جناب عباس موسوی نے ایک مدرسہ قائم کیا۔جناب حسن نصراﷲ نے اس مدرسے میں پڑھنا اور پڑھانا شروع کر دیا۔وہ امل تحریک کی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔1989 جناب حسن قم ایران چلے گئے،جہاں انھوں نے اپنی مذہبی تعلیم جاری رکھی۔1991میں جناب حسن ایک دفعہ پھر لبنان آ گئے۔اسرائیل کے لبنان پر حملے کے بعد یہ لوگ امل تحریک سے دور ہو گئے اور جناب طفیلی اور عباس موسوی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر نئی سیاسی و عسکری تنظیم حزب اﷲ کی بنیاد رکھی اورجناب طفیلی پہلے سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد ان کو جناب عباس موسوی نے ری پلیس کر دیا۔
حزب اﷲ کی ایک اعلیٰ ترین سات رکنی کونسل ہے جس کے ممبران سیکریٹری جنرل کا انتخاب کرتے ہیں۔ 1992میں جناب عباس موسوی ایک بڑی ریلی کی قیادت کر کے واپس لوٹ رہے تھے تو ان کے قافلے پر اسرائیلی گن شپ ہیلی کاپٹروں سے حملہ ہوا جس میں وہ مارے گئے۔جناب موسوی کی رحلت کے بعد صرف ساڑھے 31سالہ حسن نصراﷲ کو حزب اﷲ کا نیا سیکریٹری جنرل چن لیا گیا۔عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ان کا انتخاب ایران اور شام کی حمایت کی وجہ سے عمل میں آیا۔جناب حسن جب حزب اﷲ کے سیکریٹری جنرل بنے،اس وقت بہت کم لوگ انھیں جانتے تھے ۔
ان کے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے لوگوں نے انھیں جانا۔اکثر لوگ ان کی کم عمری اور کم تجربے کی وجہ سے حیران تھے کہ یہ نوجوان کیونکر اس تنظیم کو چلا پائے گا۔یہ وہ وقت تھا کہ لبنان شدید خانہ جنگی کی لپیٹ میں تھا۔جناب حسن نے اگلے کچھ ہی عرصے میں اسرائیل کے اندر اور باہر اسرائیلی اثاثہ جات پر کاری ضرب لگا کر ثابت کر دیا کہ وہ صلاحیت و اہلیت میں کسی سے کم نہیں۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ لبنان کی خانہ جنگی کو ختم کروانا اور حزب اﷲ کو دنیا کی سب سے بڑی غیر ریاستی عسکری و سیاسی تنظیم بنانا ہے۔فی الو قت حزب اﷲ لبنان کی پارلیمنٹ میں بہت بڑی جماعت ہے۔
ایسے لگتا ہے کہ جناب حسن نصراﷲ اسرائیل اور امریکا کی مشترکہ انٹیلی جنس بیسڈ کارروائی کے شکار ہوئے۔یہ ماننا پڑے گا کہ اسرائیلی انٹیلیجنس کی پہنچ مثالی ہے اور اس کی کارروائیاں لا جواب ہیں۔ہمیں اس سے سیکھنا چاہیے۔ایران اب تک یہ پوز کرتا آیا ہے کہ وہ فلسطین، لبنان، شام،عراق اور یمن میں اپنی Proxiesکو عسکری چھتری مہیا کر سکتا ہے۔غزہ اور لبنان اسی غلط فہمی کا شکار ہوئے۔
شاید اسی غلط فہمی میں غزہ کے مجاہدین نے پچھلے برس 7اکتوبر کو حملہ کر کے اسرائیل کو بہانہ مہیا کیا کہ وہ غزہ پر چڑھ دوڑے۔اب غزہ ملبے کے ایک بڑے ڈھیر اور اوپن ایئر جیل میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں ہر جگہ موت رقصاں ہے۔ایران اپنے اتحادیوں کی کیا مدد کرے،خود ایران اسرائیلی و امریکی انٹیلیجنس اور ٹیکنالوجی کے سامنے بے بس ہے۔
اسرائیل نے ایران کے سب سے اہم نیوکلیر سائنس دان کو دن دیہاڑے نشانہ بنایا۔نیوکلر پلانٹ کے اندر دھماکہ کیا۔ تہران میں زیرِ زمین نیوکلیر ڈاکومنٹس کے دفتر سے ڈاکومنٹس نکال کر لے گیا۔قاسم سلیمانی قتل ہوئے اور ان کے جنازے میں شریک 120افراد لقمۂ اجل بنے۔تہران میں جناب اسمٰعیل ہانیہ کوایرانی سرکاری رہائش گاہ میں ٹارگٹ کر کے مارا۔ اسرائیل ایران ، شام،لبنان اور فلسطین میں جہاں چاہتا ہے کارروائی کرتا ہے اور جس رہنما کو چاہتا ہے ،مار دیتا ہے۔دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملے اور اس کے نتیجے میں ہلاکتوں کے بعد دو ہفتے کی تاخیر سے غیر موئثرجواب دیا گیا۔ البتہ یکم اکتوبر کی شام ایرانی حملے میں اسرائیل کے اندر کافی اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا۔
ابھی تمام معلومات سے پردہ نہیں اُٹھا لیکن بیروت میں پیجر اور واکی ٹاکی کے پھٹنے کے بعد حزب اﷲ کا کیمونیکیشن سسٹم بیٹھ گیا تھا۔ کیمونیکیشن نیٹ ورک ختم ہونے پر آپ دشمن کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں۔ حزب اﷲ مجبور ہو گیا کہ سیل فونز کو کیمونیکیشن کے لیے استعمال کرے۔موبائل فونز استعمال ہونے پر سگنلز کو پکڑنا اور گفتگو سنناآسان ہو گیا۔
ایسے میں جناب حسن نصراﷲ کو ٹارگٹ کرنا ممکن ہو گیااسرائیل نے اپنے جنگی طیارے اس طرح بیروت پر اڑائے کہ ان کے بوم اور موبائل کے سگنلز سے جناب حسن نصراﷲ کی بنکر میں موجودگی کا یقینی پتہ لگ گیا۔ جب جناب حسن اپنے دفتر میں تھے کہ یہ جان لیوا حملہ ہو گیا۔ایران کے اپنے اسرائیل کے ہاتھوںبکے ہوئے لوگ ایک عرصے سے اسرائیل اور امریکا کی مدد کر رہے ہیں لیکن ایرانی حکومت،افواج اور انٹیلیجنس ایجنسیوں میں گھسے ایجنٹوں سے اداروں کو پاک نہیں کیا جا سکا۔
ایران کے ساتھ حزب اﷲ اور حماس میں بھی اسرائیلی ایجنٹس ہر سطح پر موجود ہیں۔ہمیں اس صورتحال سے سیکھنا چاہیے۔ ہمارے ہاں بھی پاکستان کے اندر 20سے زائد سکھوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ہمیں اپنے اردگرد نگاہ رکھنا ہو گی۔ اسرائیل پر ایرانی حملے کے بعد جنگ کا دائرہ بہت وسیع ہو کر ہمارے پڑوس میں آ سکتا ہے ۔خدا کرے ہم اپنے ملک کی حفاظت کے ضامن بنیں۔
[ad_2]
Source link