25

حکایات سعدی – ایکسپریس اردو

آج کوئی موضوع سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، کبھی کبھی ایسا سب لکھاریوں کے ساتھ ہوتا ہے کہ ذہن بنجر ہو جاتا ہے لیکن کالم نگاری بھی ایک ایسی مشقت ہے جس سے مفر نہیں، لیکن آج کل ہواؤں کا رُخ کچھ بدلا ہوا ہے، کون جانے کب بارش ہو جائے اورکس کو بہا لے جائے۔ اس لیے قلم اٹھانے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے کہ کیا لکھا جائے اورکسے چھوڑ دیا جائے۔ سوچا چلیں آج کچھ حکایات شیخ سعدیؒ کی قارئین کی نذر کر دی جائیں۔

(1)۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی انگوٹھی میں ایک ایسا بیش قیمت نگینہ جڑا ہوا تھا جس کی مالیت کا اندازہ کوئی بھی جوہری نہ کر سکتا تھا، وہ نگینہ کیا تھا گویا دریائے نور تھا۔ رات کو دن میں بدل دیتا تھا۔ ایک مرتبہ سخت قحط پڑا، لوگ بھوک سے مرنے لگے، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے جب حالات کی سنگینی کا ادراک کیا تو بہت پریشان ہوئے اور اپنی انگوٹھی کا نگینہ فروخت کر کے اس کی قیمت سے اناج خرید کر لوگوں میں تقسیم کیا اور انھیں قحط سے نجات دلائی۔

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے رفقا کو جب اس نگینے کی فروخت کا حال پتا چلا تو ان سے کہا کہ ’’آپ نے اتنا قیمتی اور بیش قیمت نگینہ کیوں فروخت کر دیا، وہ تو آپ کو بہت عزیز تھا۔‘‘ اپنے رفیقوں کی بات سن کر انھوں نے جواب دیا کہ ’’ہاں مجھے وہ نگینہ بہت پسند تھا، مگر میں یہ کیسے گوارا کر لیتا کہ میری رعایا بھوک سے مر رہی ہو اور میں اپنی انگلی میں اتنا بیش قیمت نگینہ پہنے رہوں، کسی بھی حاکم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی رعایا کا خیال رکھے اور اگر لوگ تکلیف میں ہوں تو وہ اپنا آرام بھول کر عوام کی بہبودکے لیے کام کرے، کیونکہ رعایا اولاد کی طرح ہوتی ہے اور حاکم باپ کی طرح۔‘‘

(2)۔ایک بادشاہ ہمیشہ معمولی کپڑے کا لباس زیب تن کرتا تھا، ایک دن ایک درباری نے کہا کہ ’’اے بادشاہ سلامت! آپ یہ معمولی کپڑے کی قبا کیوں زیب تن کرتے ہیں، آپ اس ملک کے بادشاہ ہیں، آپ کو چاہیے کہ چین کے ریشم کی قبا تیارکروائیں اور اسے اپنی پوشاک کا درجہ دیں۔‘‘ درباری کی بات سن کر بادشاہ نے کہا کہ ’’ہاں، مجھے بھی چینی ریشم بہت پسند ہے اور میرا جی بھی چاہتا ہے کہ قیمتی پوشاک پہنوں، مگرکیا کروں یہ خزانہ میرا اپنا نہیں ہے، اس پر میرا کوئی حق نہیں ہے، یہ رعایا کی امانت ہے۔

یہ ملک بھی رعایا کا ہے اور یہاں کے ذرے ذرے پر یہاں کے عوام کا حق ہے۔ اس خزانے کا بہترین مصرف یہ ہے کہ اسے میں رعایا کی فلاح و بہبود پہ خرچ کروں، اس ملک کو مضبوط کروں، رعایا کے سکھ کے لیے اس خزانے کو خرچ کروں، رعایا بادشاہ کے لیے پھل دار درخت کی مانند ہے، اس کی پرورش اور نگہداشت بادشاہ کا فرض ہے۔‘‘

(3)۔ ایران کا ایک مشہور بادشاہ ایک دن شکارکھیلتے کھیلتے اپنے ساتھیوں سے بچھڑگیا اور ایسی جگہ جا پہنچا جہاں گھوڑے چرا کرتے تھے، بادشاہ کا لشکر بہت پیچھے رہ گیا، اس چراگاہ کے گلہ بان نے جب بادشاہ کو دیکھا تو اس کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے اس کی طرف بڑھا، بادشاہ چونکہ اس وقت اکیلا تھا، اس لیے سمجھا کہ یہ کوئی دشمن ہے، یہ سوچ کر اس نے فوراً ہی تیرکمان نکال کرگلہ بان پر تیر چلانے کا ارادہ کیا کہ فوراً ہی وہ گلہ بان بول پڑا۔

’’حضور بادشاہ سلامت! میں آپ کا گلہ بان ہوں اور آپ کے گھوڑوں کی حفاظت کرتا ہوں، نہ کہ آپ کا دشمن۔‘‘ بادشاہ نے جب گلہ بان کی آواز سنی تو اپنا ارادہ ملتوی کردیا اور کہا ’’تیری قسمت اچھی تھی، ورنہ میں تجھ پر تیر چلانے ہی والا تھا، اگر تُو ایک لمحہ بھی چپ رہتا تو یقیناً ہلاک ہو جاتا۔‘‘

گلہ بان نے عرض کی کہ ’’اے بادشاہ سلامت! بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ آپ اپنے اس خادم کو نہیں پہچان سکے جو ایک طویل عرصے سے آپ کے گھوڑوں کی نگہبانی کر رہا ہے اور میں جو کہ ایک معمولی گلہ بان ہوں اپنے تمام گھوڑوں کو پہچانتا ہوں، حضور! جس گھوڑے کو طلب کریں گے میں فوری طور پر حاضرکردوں گا، لیکن میں جو کئی بار آپ کے حضور حاضر ہو چکا ہوں، اسے آپ نہ پہچان سکے۔ اے عالی شان بادشاہ! یہ ہرگز آپ کے لیے مناسب نہیں کہ آپ اپنی رعایا سے غافل ہوں کہ دوست اور دشمن کی تمیز بھول جائیں۔ حکومت کرنے کا سنہری اصول یہ ہے کہ بادشاہ اپنا تخت آسمان پر نہ بچھائے، وہ زمین پر رہ کر مظلوموں کے دکھ درد سنے اور ان کا مداوا کرے، ہر فریادی کے دل کی پکار سنے۔‘‘

(4)۔حضرت شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ باختر کے حاکم کے دو بیٹے تھے، دونوں ہی فنون سپہ گری میں ماہر تھے، شہ زور اور حوصلہ مند تھے، حاکم نے محسوس کیا کہ میرے بعد ان دونوں کی کوشش ہوگی کہ وہ حکومت پر قابض ہو جائیں اور یوں دونوں ایک دوسرے کے قتل کے دَر پے ہوں گے۔ اس نے تمام پہلوؤں پر غور کر کے فیصلہ کیا کہ ملک کو دو برابر حصوں میں تقسیم کرکے دونوں کو دے دیا جائے اور انھیں نصیحت کی جائے کہ ہمیشہ آپس میں متحد رہنا، اسی میں دونوں کی بھلائی ہے۔

دونوں بیٹے عادت و خصلت میں ایک دوسرے کی ضد تھے۔ ایک بیٹا خدا ترس، ہمدرد اور خوش اخلاق تھا، تو دوسرا بیٹا سخت گیر، ظالم اور لالچی تھا۔ جب باپ کی وفات ہوگئی تو دونوں کے مزاج کھل کر سامنے آگئے۔ پہلا بیٹا جو خدا ترس اور نیک طینت تھا، اس کو عوام بے حد پسند کرنے لگے، اس نے ملک میں باغات لگائے، غریبوں کو روزگار دیا، صاف پینے کا پانی مہیا کیا، صفائی ستھرائی پر خاص توجہ دی، لوگوں کو سستا اور فوری انصاف مہیا کیا، عوام اس کی تعریف کرتے نہ تھکتے۔

لوگ اسے دعائیں دیتے اور اس کی لمبی عمر کی دعا کرتے۔ اس کے برعکس دوسرا بیٹا جو سخت گیر اور لالچی تھا، وہ عیش و عشرت میں پڑ گیا، ہر وقت چھوٹے بھائی سے جلنے لگا۔ ملک میں افراتفری پھیلی، لوگوں کا جینا دوبھر ہوگیا، مہنگائی نے زندگی عذاب بنا دی، پورا ملک کوڑے دان بن گیا، سارے وزیر رشوت کھاتے اور اس میں سے حاکم کو بھی حصہ دیتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حاکم لالچی ہے، جب صورت حال بہت بگڑ گئی تو لوگوں نے چھوٹے بھائی کے ملک کی طرف جانا شروع کر دیا، پڑوس کے بادشاہ کو جب صورت حال پتا چلی تو اس نے لالچی بیٹے کے ملک پہ حملہ کیا، حاکم اور اس کے حواریوں کو گرفتار کر لیا اور ملک پر اپنا قبضہ کر لیا۔

(5)۔ایران کے بادشاہ نوشیرواں عادل نے ایک بار شکار کے دوران اپنے نوکروں کو نمک لانے بازار بھیجا، لیکن ساتھ ہی یہ تاکید بھی کر دی کہ نمک بغیر پیسے دیے نہ لانا، ایسا نہ ہوکہ تمہیں سپاہی جان کر وہ پیسے لینے سے منع کر دیں اور تم مفت میں نمک لے آؤ۔ سپاہی نے کہا کہ ’’ حضور! نمک ہی تو ہے، اگر بغیر پیسے دیے مل بھی گیا توکیا حرج ہے۔

آپ بادشاہ ہیں اور ہم سپاہی، بھلا نمک دینے سے کون منع کرے گا۔‘‘ بادشاہ نے کہا کہ ’’ اگر تم لوگ بغیر پیسے دیے نمک لائے تو یہ رواج عام ہو جائے گا۔ ظلم کی بنیاد جب دنیا میں رکھی گئی وہ بھی معمولی تھا، پھر جو بھی آیا اس میں اضافہ کرتا چلا گیا۔ اگر بادشاہ عوام کے باغ سے ایک سیب کھائے گا تو اس کے نوکر پورا باغ ہی اجاڑ دیں گے، اگر بادشاہ دو انڈوں کے ظلم کو جائز جانے گا تو اس کے سپاہی ہزاروں مرغ سیخوں پہ چڑھا دیں گے۔‘‘

شیخ سعدی کہنا یہ چاہتے ہیں کہ حکمرانوں کی غفلت کا انجام یہ ہو سکتا ہے کہ ان کی معمولی کوتاہی کو ان کے ماتحت بڑا بنا دیتے ہیں، اگر حاکم معمولی نفع حاصل کرتے ہیں تو ان کے ماتحت اس سے کئی گنا زیادہ منافع بلا تکلف حاصل کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں، مثل مشہور ہے کہ رائی کا پربت بنتا ہے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں