32

کوٹہ سسٹم – ایکسپریس اردو

سرکاری ملازمتوں اور پیشہ ور اداروں میں داخلوں کے لیے کوٹہ سسٹم ایک دفعہ پھر ایک نیا تنازع بن جائے گا۔ وفاقی حکومت میں شامل متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں نے وفاقی حکومت کو کہا ہے کہ اگرکوٹہ سسٹم اور نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام کے بارے میں ان کی جماعت کی تجاویزکو اہمیت نہ دی گئی تو پھر ایم کیو ایم کا حکومت کی حمایت کا مسئلہ سنگین ہوجائے گا۔

کراچی کے سابق ناظم مصطفیٰ کمال نے ایک تقریب میں گھن گھرج کے ساتھ کہا تھا کہ ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی سے معاہدہ نہیں کیا تھا بلکہ مسلم لیگ ن کے ساتھ معاہدہ کیا تھا، یوں مسلم لیگ ن کی قیادت اس معاہدہ پر عملدرآمد کی پابند ہے۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم نے دیگر جماعتوں کی طرح کوئی سودے بازی نہیں کی۔ وہ کہتے ہیں کہ کوٹہ سسٹم میں 20 سال تک توسیع کی قرارداد قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں پیش ہونا، ان کی جماعت کے لیے باعث تشویش ہے۔ مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کراچی کے عوام سوال کر رہے ہیں ۔ گزشتہ ہفتہ قومی اسمبلی میں جمعیت علماء اسلام کی خاتون عالیہ کامران نے کوٹہ سسٹم میں 20 سال تک توسیع کی قرارداد پیش کی تھی مگر ایم کیو ایم کے دو اراکین کی مخالفت کے بعد یہ قرارداد مؤخرکر دی گئی، مگر کوٹہ سسٹم کا تنازع پھر تازہ ہوگیا۔

برصغیر میں کوٹہ سسٹم کی تاریخ کا بھی جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ برطانوی ہند حکومت نے کوٹہ سسٹم کا نفاذ کیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنے قیام کے بعد مطالبہ شروع کردیا تھا کہ مخلوط انتخابات کا طریقہ کار ختم کیا جائے اور مذہب کی بناء پر جداگانہ انتخابات کا انعقاد کیا جائے، یوں مذہبی بنیادوں پر جن میں ہندو، مسلمان اور دیگر مذہبی اقلیتیں شامل تھیں کے کوٹہ کی بنیاد پر انتخابات ہوئے۔ مسلم لیگ ہی کے مطالبہ پر انڈیا ایکٹ 1919کے تحت مذہبی بنیادوں پر انتخابات کے لیے نشستوں کا کوٹہ مقرر کیا گیا۔

جب 1945 میں کانگریس اور مسلم لیگ کی مشترکہ حکومت قائم ہوئی تو پنڈت نہرو وزیر اعظم مقرر ہوئے۔ نواب زادہ لیاقت علی خان کو وزارت خزانہ کی ذمے داری سونپی گئی۔ وزیر خزانہ لیاقت علی خان کا مطالبہ تھا کہ سرکاری محکموں اور نئی دہلی کے مرکزی سیکریٹریٹ میں مسلمانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے مسلمانوں کی نمایندگی بڑھانے کے لیے ان کا کوٹہ مقررکیا جائے، لہٰذا انگریز سرکار میں سیکڑوں مسلمان نوجوانوں کو مختلف وزارتوں میں ملازمتیں ملیں۔ زیادہ تر ملازمتیں نائب قاصد اورکلرک وغیرہ کی تھیں مگر کوٹہ سسٹم پر عملدرآمد کی بناء پر دہلی کے مرکزی سیکریٹریٹ میں مسلمان جوان مختلف عہدوں پر نظر آنے لگے۔

برصغیر کے بٹوارے کے بعد نیا ملک پاکستان وجود میں آیا۔ بیرسٹر محمد علی جناح گورنر جنرل اور نوابزادہ لیاقت علی خان وزیر اعظم کے عہدوں پر مامور ہوئے۔ سینیئر بیوروکریٹ غلام محمد کو خزانہ کی وزارت کا چارج دیا گیا ایک اور بیوروکریٹ چوہدری محمد علی بیوروکریسی میں سب سے بڑے عہدہ سیکریٹری جنرل پر فائز ہوئے۔ لیاقت حکومت نے بھارت سے آنے والے مہاجرین کا ملازمتوں میں کوٹہ مقررکیا۔ 1950میں ریجنل کوٹہ رائج کیا گیا۔ حکومت کے معاونین کا کہنا تھا کہ پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے کوٹہ سسٹم مقررکیا گیا ہے۔

پاکستان کی تاریخ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پھر 1955میں سندھ، پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کو ایک صوبے ’’ ون یونٹ‘‘ میں ضم کردیا گیا اور پہلی دفعہ صوبائی خود مختاری ختم کی گئی اور ہر علاقے (Region) کا کوٹہ مقررکیا گیا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں حکومت نے صوبے ختم کردیے اور سول سروس رولز میں ترمیم کی گئی اور پسماندہ علاقوں کے لیے 10 فیصد کوٹہ مقررکیا گیا۔

سابق صدر یحییٰ خان کے دور میں ون یونٹ کو ختم کیا گیا اور سندھ کا صوبہ بحال ہوا اور شہری و دیہی بنیادوں پر کوٹہ سسٹم نافذ کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں کوٹہ سسٹم 10سال کے لیے نافذ کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم مقرر ہوئے اور 1973کے آئین کے تحت کوٹہ سسٹم کی 10 سال کے لیے توسیع کردی۔ جنرل ضیاء الحق نے کوٹہ سسٹم میں 10 سال توسیع کی اور ایم کیو ایم کے عروج کی ایک وجہ کوٹہ سسٹم تھا مگر ایم کیو ایم نے اس دوران پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی حکومتوں سے معاہدے کیے مگر ان معاہدوں پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔

یہ حقیقت ہے کہ کوٹہ سسٹم کے نفاذ کی بڑی وجہ پسماندہ علاقوں کے نوجوانوں کو اعلیٰ ملازمتیں دلانا اور پیشہ وارانہ اداروں میں پسماندہ علاقوں کے طلبہ کو داخلے دلانا تھا تاکہ یہ فارغ التحصیل اپنے اپنے علاقوں میں تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے عمل کو تیز کریں اور ترقی کا ایسا عمل تیز ہو کہ دیہی علاقے شہری علاقوں کے برابر آجائیں۔

1970سے 2024 تک کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو سندھ میں خاطر خواہ ترقی ہوئی۔ اب اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں کو خود مختاری ملی اور قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت سندھ کی آمدنی میں ہزاروں گنا اضافہ ہوا اور سندھ حکومت کو اربوں روپے ملے، سندھ میں ترقی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ اب صوبے کے ہر ایک ڈویژن میں یونیورسٹی قائم ہوئی ہے جن میں جنرل یونیورسٹیوں کے علاوہ زرعی، میڈیکل اور فنون لطیفہ سے متعلق یونیورسٹیاں شامل ہیں۔

دیہی علاقوں کے زیادہ کوٹہ ہونے سے وہاں کے نوجوانوں کو خاطر خواہ فائدہ ہوا۔ اب اندرون سندھ کے تعلق رکھنے والے افراد کی سیکریٹریٹ میں تعداد بڑھ گئی اور یہ امید کی جانے لگی کہ اب دیہی سندھ میں ترقی کا عمل تیز ہوجائے گا۔ مگر حقائق یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت خواندگی کا تناسب 61 فیصد ہے، جب کہ کراچی میں خواندگی کا تناسب 69.9% رہا۔ حیدرآباد میں یہ تناسب 65.7%، شہید بے نظیر آباد میں خواندگی کا تناسب 55.3%، لاڑکانہ میں 48.8%، سکھر میں 52.1%، ٹھٹھہ میں تناسب 44.8% ہے۔ سندھ میں سب سے پسماندہ علاقہ تھرپارکر میں خواندگی کا تناسب 34.1% ہے۔ ان اضلاع کے دیہی علاقوں میں خواندگی کا تناسب شہری علاقوں سے خاصا کم ہے۔

گزشتہ 50 برسوں میں سندھ میں خواتین میں تعلیم کی شرح بڑھی ہے۔ ہزاروں لاکھوں افراد اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑکر شہروں میں جاکر آباد ہوگئے ہیں، یوں صرف کراچی شہر کی آبادی ہی نہیں بڑھی بلکہ دیگر اضلاع کی آبادی بھی بڑھ گئی ہے۔ اس بناء پر سندھ میں دستیاب اعداد و شمار کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1998میں سندھ اربنائزیشن کی شرح 32.3% تھی جو 2020میں 52% سے زیادہ ہوگئی تھی۔

18ویں ترمیم کے بعد قومی مالیاتی ایوارڈ میں سندھ کی آمدنی میں کئی سوگنا اضافہ ہوا تھا، یوں ترقی کی رفتار بہت حد تک بڑھ گئی۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ اگر واقعی قومی مالیاتی ایوارڈ سے ملنے والی ساری رقم سندھ پر خرچ ہوتی تو سندھ ماڈل صوبہ بن جاتا۔ بعض ناقدین کہتے ہیں کہ کوٹہ سسٹم کی بناء پر میرٹ کے عمل کو نقصان ہوا اور گورننس کے سب سے اہم شعبے بیوروکریسی میں نااہل افراد کی تعداد بڑھ گئی۔ خود سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے چند ماہ قبل اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ بیوروکریسی میں منصوبوں کو مکمل کرنے کی اہلیت نہیں ہے۔

ترقیات کے ایک ماہر جو ہمیشہ سندھ کے غریبوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں اپنی تحریروں میں کہہ چکے ہیں کہ موجودہ دیہی علاقے کی کلاسیکل تاریخ پر پورے نہیں اترتے مگر ان تمام حقائق کے باوجود سندھ میں غربت کی شرح زیادہ ہے، یوں اس بحث کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت سندھ ان علاقوں کی نشاندہی کرے جو اب بھی پسماندہ ہیں اور اس کے ساتھ ہی گزشتہ 50 برسوں کے دوران ان علاقوں کی ترقی کے لیے مختص کی جانے والی رقوم اور ان کے استعمال کے بارے میں جامع رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جائے۔

یہ بھی بتایا جائے کہ یہ علاقے کتنے عرصے میں ترقی یافتہ علاقوں کے برابر آسکتے ہیں۔ کوٹہ سسٹم کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر ماہرین کو کھل کر رائے دینی چاہیے، محض جذبات میں حقائق کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے اور ایک ایسا طریقہ کار وضع کرنا چاہیے کہ سند ھ کے ہر علاقے کے لوگوں کو ان کا حق مل سکے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں