[ad_1]
کسی کو کچھ نہ بتانے کی شرط پر ہم آپ کو ایک راز کی بات بتانا چاہتے ہیں اور وہ یہ کہ کرکٹ میں گرین شرٹس، شاہینوں کو اورمجاہد، غازیوں کا جو حشرنشر ہوا ہے، اس سے ہمیں بڑی خوشی ہوئی اور بہت زیادہ خوشی کرکٹ کے ساتھ ساتھ ان ’’گرگٹوں‘‘ کے رنگ بدلنے سے ہوئی جو کرکٹ کو اپنا مقصد حیات اور پاکستانی کھلاڑیوں کو فاتحین بنا کر اخباروں میں مدح سرائیاں کرتے تھے اورکھیل کی خبروں کو جنگی خبریں بنا کر شاعریاں کرتے تھے ۔ہماری اس بات پر برا سا منہ ، ناک بھوں چڑھانے اورہمیں غدار سمجھ کر دانت پیسنے سے پہلے ۔ ذرا یہ سوچئیے اگرچہ کسی پاکستانی سے سوچنے کی توقع کرنا ، مرغی سے دودھ دینے کی توقع کرنا ہے لیکن پھر بھی ہم بتائے دیتے ہیں کہ آج یہ ہماری حالت ہے کہ سیاست، معیشت اور’’بہت کچھ‘‘ کھیل بچوں کا بنا ہوا ہے ، یہ سب کچھ اس ’’ورلڈکپ‘‘ ہی کا تو شاخسانہ ، آفٹر شاکس اورسائیڈ ایفکٹس ہی تو ہیں، جو پلاننگ کی جاتی ہے اس کا یہی نتیجہ تو نکلنا تھا جو نکل آیا ،نکل رہا ہے اورنکلتا رہے گا، کیوں کہ اب تو اس کے ساتھ چف منتر اورجادو ٹونا بھی شامل ہوگیا ہے۔
خوشحال خٹک نے اپنی ایک غزل میں بہت ساری مثالوں سے واضح کیا ہے کہ ہرکوئی اپنے اپنے کام کے لیے پیدا ہوا ہے ،تلوار سے تلوار کا کام لیا جاسکتاہے ، قلم سے قلم کا اسی طرح کلہاڑی سے کلہاڑی کا کام ہوسکتا ہے بیلچے کا نہیں، اچھا شہسوار ضروری نہیں کہ اچھا باورچی بھی ہو اوراچھے ترکھان کااچھا لوہار ہونا ممکن نہیں ۔ جس کا کام اسی کو ساجھے ۔ برطانیہ کے وزیراعظم چرچل کی بیوی نے آخری انتخابات میں اپنا ووٹ چرچل کے بجائے اس کے مخالف لارڈ ائیلی کو دیا تھا اورشوہر کو بتا بھی دیا کہ تم زمانہ ’’جنگ‘‘ کے لیے موزوں تھے لیکن اب زمانہ امن کے لیے تم نہیں اور ائیلی موزوں وزیراعظم ہیں ۔
ہمیں پکاپکا یقین ہے کہ اگر نذر، منورظریف، رنگیلا یا عمرشریف سیاست میں آئے ہوتے تو پاکستانی انھیں بھی بھاری اکثریت سے کامیاب کرادیتے اور سیاست میں ایک اور’’گل سرسبد‘‘ کا اضافہ کرتے، بلکہ ایک زمانے میں بشیر ساربان اورعالم چنا کو بھی سیاست میں آنے کی دعوتیں دی گئی تھیں لیکن انھوں نے ’’خود‘‘ کو اور پاکستان دونوں کو بچاتے ہوئے انکار کیا۔ یہ کہہ کر کہ یارو مجھے معاف کرو میں ’’نشے ‘‘ میں ہوں۔
لیکن کپتان صاحب تو ساری عمر کھیل بچوں کاکھیلتے رہے تھے یعنی لڑکپن کے دائرے میں تھے اس لیے آگئے، اورایسے آگئے کہ کشتوں کے پشتے لگا دیے، اس بدنصیب ’’کھیت‘‘ میں اس نے وہ وہ کچھ بویا ہے جو اس ملک کے لوگ صدیوں تک کاٹتے رہیں گے ۔
باغے بدست بچگاں افتاد
ایک دانا دانشور کاکہنا ہے کہ جس کو جو کچھ ’’ بننا‘‘ ہوتا ہے، تیس پینتیس سال کی عمرتک بن جاتا ہے اور پھر ہمیشہ وہی رہتا ہے جو ان تیس پینتیس سال کی عمر میں ’’بن‘‘ چکا ہوتا ہے اس کے بعداگر وہ حادثاتی یااتفاقی طورپر کچھ اوربھی بنتا ہے تو اس میں بھی اس پہلے ’’بننے والے‘‘ کی خوبو موجود ہوتی ہے اگر وہ کوچوان، ڈرائیور، معمار، استاد، یاکچھ بنا ہو تو بعد میں اگر وہ بادشاہ بھی بن جائے تو اندر کوچوان یاڈرائیور یا معمار ہی رہے گا ، وہی سوچ وہی الفاظ وہی اصطلاحات تکیہ کلام اورتشبیہات استعمال کرے گا۔
شفیق الرحمان نے ایک افسانہ نگار کا ذکر کیاہے جو پہلے درزی تھا چنانچہ اس کے افسانوں میں بھی ان تمام چیزوں کی تشبیہات ہوتی تھیں جو درزیوں میں مروج ہیں، مطلب یہ کہ ہمارے کپتان کو کرکٹ ورلڈ کپ کی سعادت کے بدلے حکمرانی تو مل گئی لیکن یہ کسی نے نہیں سوچا کہ کرکٹ بائی چانس کی کپتانی اورچیز ہے ۔اورملک چلانا قطعی مختلف چیز ہے ،یہاں بائی چانس گیندیں نہیں چلتیں بلکہ بے رحم حقائق چلتے ہیں ،سنجیدہ مسئلے چلتے ہیں اورکھیل ہی کھیل میں پلنے بڑھنے والے ’’ہیرو‘‘ سے جب ’’اپنا گھر‘‘ بھی بسایا نہ جا سکا… یعنی اس میں گھر بسانے اورچلانے کی اہلیت نہیں تھی تو وہ ملک کو کیا چلاتے؟
’’کھیل ‘‘ کی دنیا میں ایک اور عنصر یہ ہوتا ہے کہ اکثر کھلاڑی نہ دم چف ، تعویذگنڈے اور جنتر منتر پر یقین رکھتے ہیں اوراس پر انحصار کرتے ہیں، چنانچہ موصوف نے بھی …کھیل کی طرح حکومت میں بھی ان چیزوں پر انحصار کیا اور پھر کسی کے مرید بن گئے،ایک چف کرکے اس نے پندرہ سوسال پہلے کی ریاست مدینہ کو پاکستان پہنچا دیا اوردوسرے چف سے بدمعاشوں کو صادق وامین بنا ڈالا۔ یعنی پھر وہی …
کھیل بچوں کا ہوا دیدہ بینا نہ ہوا
اجمال اس ساری تفصیل کی یہ ہے کہ اچھا ہوا جو کرکٹ میں ہمارے معجزات کاسلسلہ رک گیا ورنہ اور ناجانے کتنے حکمران ہمیں کھیلوں کے میدان سے نصیب ہوتے ۔اگرچہ خطرہ مستقل طور پر ٹلا نہیں ہے، کرکٹ خاندان بھی موجود، اسٹاربھی موجود ہیں اور بھلکڑ بھی۔۔ اس لیے آیندہ بھی خطرہ ہوسکتا ہے کہ نہ جانے کب کوئی کھیل کا ہیرو ملک کو کرکٹ کا میدان بنا دے۔ لیکن عارضی طورپر تو یہ خطرہ ٹل گیا ۔ ہماری تو خواہش ہے کہ یہ ایک ہی تجربہ کافی ہے کھیل کے ہیروؤں کو ملک پر مسلط کرنے کا… اورآیندہ کے لیے یہ سلسلہ رک جائے لیکن معاملہ ’’پاکستانی اونٹ‘‘ کا ہے جو کسی بھی وقت کسی بھی کروٹ بیٹھ سکتا ہے اوردماغی عدم استعمال کاشکار پاکستانی عوام کے بارے میں یہ بات یقینی ہوچکی ہے کہ یہ کھیل کو جنگ سمجھ کر ’’لڑتے ‘‘ ہیں اورجنگ کو کھیل سمجھ کر کھیلتے ہیں اوریہاں
کھیلو گے کودوگے ہوگے خراب
پڑھو گے لکھو گے بنوگے نواب
کی حقیقت کو الٹایا جاچکا ہے ۔
[ad_2]
Source link