30

پنجابی کا مان اکرم شیخ

لگ بھگ آٹھ سال قبل کی بات ہے، ایک دعوت نامہ موصول ہوا۔ عنوان تھا: بلھے شاہ دی گلوبلائزیشن۔ بلھے شاہ کے حوالے سے یہ منفرد زاویہ پہلی بار سنا۔ اس منفرد موضوع پر گفتگو پنجابی کے معروف شاعر، محقق، مترجم اور دانشور اکرم شیخ نے کرنا تھی۔

اکرم شیخ سے ان دنوں ان کی شاعری، تراجم اور کالم نگاری کے حوالے سے نیا نیا تعارف ہوا تھا۔ وہ اس قدر عمدہ اور منفرد محقق بھی تھے، اس کا اندازہ ان کی گفتگو کی گہرائی اور نکتہ آفرینی سے ہوا۔ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی والا معاملہ تھا۔ افسوس کہ پنجابی ادب کا یہ درخشاں ستارہ گزشتہ ہفتے راہی عدم ہو گیا۔

آگے بڑھنے سے قبل ان کا کچھ تعارف:

اکرم شیخ 1948میں لاہور کے نواحی قصبے للیانی میں پیدا ہوئے۔ میٹرک کیا مگر نصابی تعلیم سے اکتاہٹ ہو گئی لیکن مطالِعے کی عادت گھٹی میں داخل ہو گئی۔ قصور کے حلقہ ارباب ذوق میں ایک خاموش سامع کی حیثیت سے شریک ہوتے رہے اور علم و ادب کے مباحث بغور سنتے رہے۔

اسی دوران غزل اور افسانہ لکھنا شروع کر دیا۔ اسیر عابد سے تعلق استوار ہوا جو پنجابی زبان و ادب کے نامور دانشور تھے، انھوں نے علامہ اقبالؒ کی ’’بالِ جبریل‘‘ اور ’’دیوانِ غالب ‘‘کا منظوم پنجابی ترجمہ کیا۔ وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے اکرم شیخ کی سوچ و فکر میں ماں بولی پنجابی کا چراغ روشن کیا۔ اور پھر چل سو چل۔ پنجابی زبان ہی طرززیست اور سوچ کا مرکز بن گئی۔

1986 میں لاہور آئے۔ ایک اخبارمیں پروف ریڈر کی ملازمت کی۔ بہ قول ان کے اردو میرا ذریعہ روزگار تھا اور پنجابی میرا تخلیقی اظہار تھا۔ یہ سلسلہ بھرپور اور زرخیز ثابت ہوا۔ دو سال قبل تک ان کی اٹھارہ کتب شایع ہو چکی تھیں جب کہ گیارہ زیر طبع تھیں۔

بلھے شاہ سے اکرم شیخ کا خصوصی تعلق رہا۔ انھوں نے آغاز میں ہی بلھے شاہؒ کا کلام پڑھنا شروع کیا اور بقول ان کے”آج تک پڑھ رہا ہوں کیونکہ جب بھی پڑھتا ہوں، بلھے شاہ کی سوچ کا ایک نیا در وا ہوتا ہے”۔

اکرم شیخ کے مطالعے کا نچوڑ یہ تھا کہ بلھے شاہ محض ایک صوفی ہی نہیں دانشور، فلسفی، مورخ اور سماج کے ناقد بھی تھے۔ بلھے شاہ ایک ایسی جادونگری ہے ، شہر طلسمات ہے جس کے کئی ایک دروازے ہیں اور اس میں ہر طرح کے آئینے رکھے ہوئے ہیں اور اس میں انسان اپنے کئی روپ دیکھتا ہے۔ وہ ایک جگت صوفی ہے۔ بلھے شاہ پس ماندہ انسانیت کا صوفی ہے۔ صوفی ازم انسان سے ہوتا ہوا خدا کی طرف جاتاہے اور انسان میں ہی خدا تلاش کرتا ہے۔

اکرم شیخ کو ہمیشہ یہ دکھ اور گلہ رہا کہ پنجابی کو اس کا جائز مقام نہیں دیا جا رہا۔

وہ اکثر کہتے کہ احمد راہی جیسے بڑے لوگوں کی بھی یہی رائے تھی۔ شیوکمار بٹالوی بھی ایسا ہی سوچتا تھا۔ وہ پنجابی ثقافت کا سب سے بڑا شاعر ہے۔ان کے بقول اتنی شاندار روایت رکھنے کے باوجود پنجابی زبان کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ تقسیم کے بعد کے حکمرانوں نے پنجابی زبان و ادب کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا۔ مغلوں کی افسرشاہی جو انگریزوں کے ساتھ وابستہ تھی انھوں نے ہی پہلے فارسی، پھر اردو اور انگریزی کو پنجابی کے مقابلے میں ترجیح دی۔

آکرم شیخ کی شایع کتابوں کے مضامین سے ان کی وسعت مطالعہ اور دلچسپی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

کافر کافر آکھدے(بلھے شاہ دا صوفی نظریہ)، نانک تے بلھا(دو پنجابی صوفیاں دی فکری سانجھ)، بلھا تے منصور(بلھے شاہ پر منصور حلاج کے اثرات)، بلھا بھگت(بھگتی تحریک اور بلھے شاہ)،بُرا حال ہویا پنجاب دا(بلھے شاہؒ کے زمانے کے سیاسی اور سماجی حالات)، ڈاڈھے نال پریت(بابا فریدؒ کی حیاتی اور کلام)،حسین فقیر نمانا(شاہ حسین کا فکری جائزہ)، بلھے شاہ دی گلوبلائزیشن(بلھے شاہ کا معاشی نظریہ)، میرا بلھا شاہ(بلھے شاہ ایک وجود میں جگت صوفی)، نانک لالو لال ہے(گورونانک کی حیاتی کلام اور نظریہ)،پتھراں وچ اکھ(پنجابی غزلاں دا مجموعہ)، رب تے بھگت(بھگت کبیر بارے) و دیگر۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں