30

ملائیشیا سے معاشی و اقتصادی شراکت

بلاشبہ پاکستان اور ملائیشیا کے درمیان کاروباری و تجارتی روابط کے فروغ کے وسیع امکانات موجود ہیں۔  فوٹو : انٹرنیٹ

بلاشبہ پاکستان اور ملائیشیا کے درمیان کاروباری و تجارتی روابط کے فروغ کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ فوٹو : انٹرنیٹ

پاکستان اور ملائیشیا نے تجارت، سرمایہ کاری، دفاع، زراعت اور دیگر شعبوں میں دوطرفہ تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے، متعدد ایم او یوز پر دستخط بھی کیے گئے ہیں۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں پاکستان ملائیشیا کا تیسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔

بلاشبہ پاکستان اور ملائیشیا کے درمیان کاروباری و تجارتی روابط کے فروغ کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ پاکستان میں ملائیشیا کی طرز پر افرادی قوت میں سرمایہ کاری کر کے پائیدار معاشی ترقی کے اہداف حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے، اس ضمن میں ملائیشیا بھی پاکستان کی بھرپور معاونت کر سکتا ہے ، جب کہ ملائیشیا کے صنعتکار بھی پاکستان میں محفوظ سرمایہ کاری کرسکتے ہیں، اسی طرح ملائیشیا میں بھی پاکستانی سرمایہ کاری کے وسیع امکانات موجود ہیں جب کہ اس ملک میں سرمایہ کاری سے آسیان بلاک کے 15 ملکوں کی وسیع مارکیٹ تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

ملائیشیا تیزی سے ہائی انکم اکانومی کی طرف سے بڑھ رہا ہے اور اس کے فوائد ملائیشیا کے عوام کو بھی مل رہے ہیں۔ ملائیشیا کی حکومت نے افرادی قوت میں زبردست سرمایہ کاری کی ہے جس سے پائیدار معاشی ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے میں مدد مل رہی ہے۔ دنیا کی 39 فیصد آبادی اس معاشی بلاک سے وابستہ ہے جس سے پاکستانی سرمایہ کاروں اور برآمد کنندگان کو بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔درحقیقت کسی بھی ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کی شرح اُس ملک کے مثبت تشخص اور سفارتی تعلقات کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے۔

وطن عزیز میں ہونے والی بیرونی سرمایہ کاری کی شرح سے اپنے سفارتی تعلقات کی مضبوطی کا اندازہ لگانا کوئی مشکل امر نہیں۔ پاکستان کا ہدف بیرونی سرمایہ کاری کو لانا اور ملک میں کاروبار کے لیے ماحول کو سازگار بنانا تھا، جسے میں اس کامیابی ملنا عوام کے لیے خوش آیند امر ہے۔ اسپیشل انوسٹمنٹ فیسی لی ٹیشن کونسل یا ایس آئی ایف سی کا قیام اور پاکستان انوسٹمنٹ پالیسی کو متعارف کرانا دراصل پاکستانی کی معاشی ترقی کے سفر کے اہم سنگ میل ثابت ہوئے۔ بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے جاری کیے گئے ان منصوبوں نے ملک بھر میں شہرت اور قبولیت حاصل کی۔

ان اقدامات اور پالیسیوں کا نفاذ دراصل معاشی بحالی کی فوری ضرورت کا ردعمل تھا اور اس سارے عمل کا مرکزی ہدف یہ تھا کہ افسر شاہی اور قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے ان مسائل و مشکلات پر قابو پایا جا سکے جو براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ ان معاشی پالیسیوں کا مقصد، بین الصوبائی روابط و تعاون کو بڑھا کر، ہر طرح کے شعبے جیسے کہ زراعت و انفارمیشن ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنا تھا۔ ملائیشیا اور پاکستان کے درمیان کل تجارت 1.4 بلین امریکی ڈالر رہی جس میں پام آئل، ملبوسات، ٹیکسٹائل، کیمیکل اور کیمیکل پر مبنی مصنوعات اور الیکٹرک اور الیکٹرانک مصنوعات شامل ہیں۔

تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافے کے علاوہ دفاع، سیاحت، زراعت، گرین انرجی، ہنر مند افرادی قوت اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے شعبوں میں مزید تعاون کی راہیں تلاش کی جائیں گی۔پاکستان میں زیادہ ملازمتوں کی ضرورت ہے جس سے ملکی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہو۔ یہ ملازمتیں صرف زراعت کی میکانائزیشن اور صنعتی بنیاد کو بحال کرنے کے ذریعے پیدا کی جاسکتی ہیں۔ معیشت کی بحالی صرف اُسی صورت میں ممکن ہے جب ہم مقامی سرمائے کو متحرک کرنے کی حوصلہ افزائی کریں اور یہ غیر رسمی معیشت کا حجم کم کرنے، رسمی معیشت میں اضافے کے لیے ٹیکسوں کی شرح کم کرنے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کاروباری منصفانہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ پاکستان کو اپنی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔

پاکستان کو سوچی سمجھی صنعتی پالیسی کی ضرورت ہے جو ہماری مصنوعات کو برآمدات کے لیے عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کے قابل بنائے۔ صنعتی پالیسی پیداوار کو مسلسل اپ گریڈ کرنے اور برآمدات کو فروغ دینے کے لیے ایک طویل مدتی منصوبہ ہوگا۔ ایک ایسی معیشت کے لیے جو فی الحال ’لو ٹیک (Low Tech)‘ مصنوعات تیار کرتی ہے، صنعت کی ترقی آہستہ ہونی چاہیے۔ فی الحال پاکستان کے پاس پیچیدہ سازوسامان کی پیداوار کرنے کے تربیت یافتہ افرادی قوت (سرمایہ) نہیں ہے۔ نہ ہی حکومت تحقیق و ترقی (آر اینڈ ڈی) اور تربیت کے ذریعے مدد فراہم کر رہی ہے۔

مخصوص مواقعوں پر، فرموں کو ترجیحی کریڈٹ یا لاجسٹکس میں سرمایہ کاری کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ مندرجہ بالا امور قومی صنعتی پالیسی کا حصہ ہونا چاہئیں۔ صنعتوں کا فروغ آنکھ جھپکتے نہیں ہوتا بلکہ یہ قدم بہ قدم عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ معیشت کی موجودہ کمزوری سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ امپورٹ کنٹرول یا امپورٹ ٹیکس میں اضافے جیسے قوانین میں تبدیلی سے بھی صنعتوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ کمپنیاں مقامی حالات کے مطابق نئی ٹیکنالوجی کو ڈھالنے کی اپنی صلاحیت کے بارے میں بھی فکر مند ہیں۔ صنعتوں کے فروغ کے لیے حکومتی سرپرستی ضروری ہے۔

سیاحت، کال سینٹرز اور ترجمہ اور تشریح جیسی سہولیات کی تیاری کے لیے صنعتوں کو راغب و متوجہ کرنا بھی یکساں اہم و ضروری ہے اگر قومی فیصلہ ساز صنعتوں کو فوری مالی مراعات اور ٹیکسوں میں چھوٹ دیں تو اس سے معیشت کو کم فائدہ ہوگا لیکن اگر افرادی قوت کی تربیت میں سرمایہ کاری کر کے صنعتوں کو تحقیق و ترقی کی جانب راغب کیا جائے تو اس کے دور رس نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔معاشی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ عوام کی صلاحیتوں سے بہتر انداز میں تصرف کیا جائے۔

شہری علاقوں میں، ہمیں نئے دور کی صنعتوں کا قیام عمل میں لانا چاہیے، جیسا کہ بیک آفس پروسیسنگ، انجینئرنگ خدمات، فری لانسنگ اور فن ٹیک وغیرہ۔ مہارت، فنانسنگ اور بنیادی ڈھانچے کو بنانے کے لیے مدد کے ساتھ، یہ کمپنیاں تیزی سے ترقی کر سکتی ہیں۔ حکومت کو گلوبلائزیشن کے عمل اور اس کے اثرات کو بھی سمجھنا ہوگا۔ ایشین ٹائیگر بننے کے لیے افرادی قوت پر فخر اور ٹیکنالوجی پر مبنی برآمدات اب کافی نہیں رہیں۔ دنیا کو دیکھا جائے تو ابھرتی ہوئی معیشتیں اعلیٰ ہنر مند مینوفیکچرنگ کی طرف بڑھ رہی ہیں اور یہی پاکستان کا بھی ہدف بھی ہونا چاہیے۔

پاکستان کو بڑے پیمانے پر پیشہ ورانہ تربیت اور خصوصی صنعتی شعبوں کے لیے آن لائن تربیتی معاونت کے لیے گرانٹ بھی حاصل کرنی چاہیے۔ جس سے تکنیکی عملے کو مدد مل سکتی ہے بیرونی سرمایہ میں اضافہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک غیر ملکی سرمایہ کاروں کو منافع بخش کاروبار آفر نہیں کیے جاتے، یا پھر انھیں ایسے منصوبوں میں شامل نہیں کیا جاتا جو پہلے سے منافع میں چل رہے ہوں تاکہ ان کا ہمارے نظام پر اعتماد بحال ہوسکے۔ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ملکی معیشت کی بہتری میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب یہ یکمشت ہو۔ بالخصوص آئی ٹی سیکٹر میں اگر بڑے معاہدے ہو جائیں تو اس سے پاکستانی عوام کو فوری فوائد حا صل ہو سکتے ہیں۔

عوام کو اب سخت فیصلوں کی عادت ہونے لگی ہے، وہ شاید اپنے معیارِ زندگی پر سمجھوتا اور حالات کی نوحہ گری کرنے کے علاوہ کچھ اور کرنا ہی نہیں چاہتے۔ عوامی سطح پر یہ تاثر مضبوط ہونے لگا ہے کہ جب تک پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں ہے مہنگائی بڑھے گی اور قوتِ خرید کم ہو گی۔ مشرقِ وسطیٰ اور خلیجی خطے کی ریاستوں کے ساتھ اقتصادی تعلقات پاکستان کی معیشت کو فروغ دینے کے لیے اہم ہیں۔ ان کی اہمیت یوں مزید بڑھ جاتی ہے کہ اگست 2019سے بھارت کے ساتھ پاکستان کے تجارتی تعلقات معطل ہیں اور کابل میں طالبان حکومت کی وجہ سے افغانستان کے ساتھ معاشی بات چیت بھی اکثر مشکلات کا شکار رہتی ہے۔

ایک اور حوصلہ شکن عنصر دہشت گردی ہے، خاص طور پر چینی کارکنوں پر حملے۔ یہ صورتحال پاکستان میں بڑے منصوبے شروع کرنے کے لیے بیرونی ممالک کے سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کا باعث ہے۔ اگر حکومت غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا چاہتی ہے تو ان مسائل سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ یہ بہتری اور بحالی پاکستان کی صلاحیتوں، عزم و حوصلے اور جمہوریت پسندی کی واضح دلیل ہے۔ ملک سیاسی قیادت اور ریاستی اداروں کی مشترکہ کوششوں کی وجہ سے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ وطن عزیز کا مستقبل روشن اور امید افزاء ہے جس میں عوام کے لیے ترقی، خوشحالی اور استحکام کی یقین دہانی ہے۔

دگرگوں حالت سے لے کر اب تک پاکستان نے معاشی بحالی اور سفارتی مراسم کے محاذوں پر بے مثال کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ عالمی مسائل و مشکلات کے باوجود پاکستان کی کامیابیوں کا یہ سفر وطن عزیز کے غیر متزلزل عزم و حوصلے اور ہمت و جرات کی دلیل ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کے متعدد دو طرفہ معاہدوں سے لے کر معیشت کی بحالی کے بصیرت افروز منصوبوں اور پالیسیوں کے اجراء تک رواں برس میں حاصل کی جانے والی ہر کامیابی اور پورا کیا جانے والا ہر ہدف پاکستان کے، بالخصوص اپنی عوام اور بالعموم اقوام عالم کے لیے، ایک روشن و پائیدار مستقبل کو پانے کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں