[ad_1]
مولانا رومی کا قول ہے کہ اصل تو ہماری سوچ ہے، ورنہ ہم گوشت اور ہڈیوں کا ڈھانچہ ہیں، انسان کی سوچ ہی اسے کامیابی اور ناکامی سے دوچار کرتی ہے۔
سوچنا انسان کی جبلت میں شامل ہے، ہماری سوچ کبھی مثبت ہوتی ہے اور کبھی منفی۔ مثبت سوچ کی طرح منفی سوچ بھی ایک ذہنی رویہ ہے جو نفسیاتی نقطہ نظر سے منفی حالات کے ردعمل میں وجود میں آتی ہے۔ یہ ہمارے لاشعور میں پروان چڑھتی ہے، جب یہ طاقتور ہوجاتی ہے تو ہمارے شعور پر حاوی ہوکر ہمارے مزاج کا حصہ بن جاتی ہے اور یوں ہماری سوچ منفی ہو جاتی ہے۔
نفسیاتی طور پر انسانی زندگی کے ابتدائی ایام بالخصوص بچپن میں پیش آنے والے واقعات، سانحات اور تجربات جن کے منفی اثرات ہوتے ہیں وہ ہمارے لاشعور کا حصہ بن جاتے ہیں جو فردکی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ جب ہم شعورکی منزل میں قدم رکھتے ہیں تو اکثر ذاتی تجربات، ثقافتی اثرات، سیاسی اور اقتصادی عوامل بالخصوص معاشی بدحالی، انصاف سے محرومی اور مایوسی کے جذبات ہماری منفی سوچ کو مزید منفی بنا دیتے ہیں۔ ناامیدی اور ناکامیاں اسے مزید پروان چڑھانے کا سبب بنتی ہیں۔ رائے عامہ میں منفی سوچ کی شرح زیادہ ہوگی، تو نتیجے میں غیر شعوری طور پر ہمارے لاشعور میں منفی سوچ زیادہ پروان چڑھے گی ، یہ وہ تمام عوامل ہیں جو معاشرے میں منفی سوچ کے فروغ کا باعث بنتے ہیں۔
عام طور پر یہ بات سمجھی جاتی ہے کہ مثبت سوچ ہوگی تو نتائج بھی مثبت ہوں گے مگر ایسا نہیں ہے۔ بعض اوقات مثبت سوچ کے مثبت نتائج نہیں ہوتے تو ایسی صورت میں مثبت انداز فکر رکھنے والے کو مایوسی ہوتی ہے اور اس کی سوچ کا زاویہ بدل جاتا ہے اور وہ منفی سوچ اختیار کر لیتا ہے۔
منفی سوچ کے فروغ کی بڑی وجہ معاشرے کا عمومی رویہ ہے جس میں منفی سوچ کے حامل افراد کی شرح زیادہ ہے، جس معاشرے پر قدم قدم پر مثبت طرز عمل کی حوصلہ شکنی کرنے والے عناصر موجود ہوں، وہاں مثبت سوچ کو پروان چڑھانے کا عمل مشکل ہوتا ہے۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ رہا ہے کہ یہ عناصر منفی باتیں کر کے مثبت سوچ رکھنے والے کو منفی سوچ اختیارکرنے پر بار بار اصرار کرتے ہیں۔ ان کی منفی باتیں مثبت سوچ کے حامل شخص کے لاشعور میں جمع ہوتی رہتی ہیں پھر وہ اس کے شعور پر حاوی ہو کر اس کی سوچ کو منفی سوچ میں بدل دیتی ہیں اور یوں منفی سوچ اس فرد کے کردار کا حصہ بن جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ منفی سوچ کے ہماری زندگی پرکیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ کہتے ہیں کہ منفی سوچ اور پاؤں کی موچ انسان کو آگے بڑھنے سے روکتی ہے۔ منفی سوچ نہ صرف انسان کی تخلیقی صلاحیت کو متاثرکرتی ہے بلکہ اس کی قوت عمل کو بھی مفلوج کردیتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ ناکامی سے دوچار ہو جاتا ہے۔
ایک کہاوت ہے کہ کھانے کا برتن جب چولہے پرجلتا ہے تو اپنے ہی کنارے جلاتا ہے۔ منفی احساس میں مبتلا شخص ایسی ہی کیفیت سے دوچار رہتا ہے یہ کوئی سادہ بات نہیں ہے بلکہ نفسیاتی حوالے سے دماغی خودکشی کے مترادف ہے۔ منفی سوچ اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے احساسات جیسے تناؤ، غصہ اور بہت سی جسمانی علامات بن کر ہمارے لیے بیماریوں کا خطرہ بن جاتی ہیں۔
بعض لوگوں کی منفی سوچ ان کی ذات تک محدود رہتی ہے لیکن بعض کی منفی سوچ دوسروں کی زندگی میں بھی زہرگھول دیتی ہے جس کے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا منفی سوچ سے نجات ممکن ہے؟ اس کا بہتر جواب تو ماہر نفسیات ہی دے سکتے ہیں، میری ناقص رائے میں چند باتوں پر عمل کر کے منفی سوچ سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ سب سے پہلے تو منفی سوچ کے حامل افراد سے تعلقات استوارکرنے سے گریز کیا جائے، اگر یہ ممکن نہ ہو توکم از کم ان سے تعلقات میں فاصلہ رکھا جائے۔
آپ کے ذہن میں خود سے کوئی منفی خیالات آئیں، بالخصوص محرومیوں اور ناکامیوں کے حوالے سے تو فوراً اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو جو رب تعالیٰ نے آپ کو عطا کی ہیں، ان کا شمار کرنا شروع کردیں، آپ یقین کریں کہ آپ کی محرومیوں کے مقابلے میں رب تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا پلہ بھاری ہوگا۔ یہ انداز فکر آپ کو منفی سوچ سے نجات دلا سکتا ہے۔ جب آپ کے ذہن میں کسی شخص کے معاملات کے حوالے سے کوئی منفی خیال جنم لے تو مکمل غیر جانب داری کے ساتھ اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیں اس کو سیاق و سباق کے حوالے سے دیکھیں اور تمام حقائق جاننے کے بعد اپنی رائے قائم کریں۔
منفی سوچ کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنی ذات کے خول سے باہر آئے، خود کو ہر حال میں درست سمجھنے کا رویہ درست نہیں، درست اور صحیح رویہ یہ ہے کہ اپنے مخالف کی بات بھی سنی جائے اگر دلائل مضبوط ہوں تو انھیں تسلیم کیا جائے۔
انتہا پسندی بھی ایک انسانی رویہ ہے بعض عناصر اسے ایک منفی رویہ تصور کرتے ہیں جوکہ درست نہیں۔ انتہا پسندی کا بنیادی سبب حساسیت ہے۔ حساسیت انسان کی خاص صفت ہے اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک تعمیری پہلو اور دوسرا تخریبی پہلو۔ تعمیری پہلو یہ ہے کہ آدمی اصولوں بالخصوص ایمانداری، عدل و انصاف اور حق گوئی کے معاملے میں سخت رویہ رکھتا ہو۔
انتہا پسندی کا تخریبی پہلو یہ ہے کہ آدمی اپنے جذبات اور حساسیت کی بنا پر دوسروں سے نفرت کرنے لگے۔ یہ رویہ عموماً فرقہ واریت کو فروغ دینے والے عناصر اور بعض سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں میں نظر آتا ہے۔ انتہا پسندانہ سوچ کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ مناظرے بازی سے گریزکرتے ہوئے مکالمے کے کلچرکو فروغ دیا جائے۔ مناظرے میں فتح اور شکست کا مزاج ہوتا ہے، یہ مزاج مسائل کے حل کی جانب نہیں لے جاتا بلکہ اس سے تنازعات میں شدت آ جاتی ہے، جب کہ مکالمہ برابری کی سطح پرکیا جاتا ہے، جو درست نتیجے پر پہنچنے میں مدد دیتا ہے اس لیے معاشرے میں مکالمے کا فروغ ضروری ہے۔
یاد رکھیں، معاشرے میں تنوع زندگی کا حسن ہے، زاویہ نگاہ کا فرق ہو یا نقطہ نظرکا فرق، نظریات کا ہو یا عام سوچ کا، وہ اسی تنوع کا نتیجہ ہے۔ اس کے نتیجے میں ہی تضادات اور اختلاف رائے جنم لیتا ہے۔ ہمیں اختلاف رائے کے ساتھ جینا ہے، اس سے فرار ممکن نہیں ہے۔ اسی میں رہتے ہوئے ہمیں عمل کی راہیں تلاش کرنی ہیں، اسی میں ہماری کامیابی ہے۔
[ad_2]
Source link