27

تقسیم کی بھولی بسری آوازیں

میں نے جب اپنا ناول’’ نہ جنوں رہا نہ پری‘‘ لکھا تھا تو تب امی کی آنکھیں اتنی کمزور ہوگئی تھیں کہ وہ کتاب یا اخبار نہیں پڑھ سکتی تھیں، وہ اسے پڑھنا چاہتی تھیں،کیونکہ وہ تقسیم کے موضوع پر تھا۔ تب فینی نے ان کو میرا ناول پڑھ کر سنایا تھا۔

فینی کے لیے اسے پڑھنا مشکل تھا کیونکہ وہ روتی جاتی اور آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کر کے امی کو سناتی۔ امی جو بہت مضبوط اعصاب کی مالک تھیں وہ اس ناول کو سن کر بہت روئی تھیں۔ تقسیم کا درد انھوں نے جھیلا تھا۔ اپنی بہن اپنا شہر اپنے پیاروں کی قبریں اور اپنی یادیں وہ سب پیچھے چھوڑ کر میری وجہ سے ہندوستان سے پاکستان ابا کے ساتھ چلی آئی تھیں۔ یہ ان کی زندگی کا سب سے مشکل سفر تھا۔

تقسیم ہند برصغیرکی تاریخ کا وہ واقع ہے جس نے لاکھوں افراد کی زندگیوں کو پلٹ کر رکھ دیا۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، اپنے پیاروں سے جدا ہوئے اور نئی سرحدوں کے بیچ اپنی شناخت کی تلاش میں بھٹکنے لگے۔ اس عظیم انسانی المیے کے دوران عورتوں کا کردار اور ان کی داستانیں اکثر نظر انداز ہوئی ہیں۔ یہ وہ آوازیں ہیں جو وقت کے ساتھ دب گئیں یا خاموش کر دی گئیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ تقسیم کا سب سے بڑا بوجھ انھی عورتوں نے اٹھایا تھا اور ان کی جدوجہد کو نظر اندازکرنا ان کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔

تقسیم کے دوران عورتوں کو محض متاثرین کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا بلکہ وہ اس بحران کا مرکز تھیں۔ ایک طرف وہ اپنا شہر، گھر سب کچھ چھوڑ آئی تھیں۔ اغوا، عصمت دری اور جبری مذہبی تبدیلی جیسے واقعات نے ان کے وجود کو مٹا دینے کی کوشش کی، وہ اس کرب سے گزریں۔ اپنی آنکھوں کے سامنے انھوں نے اپنے پیاروں کو کھویا، اپنے گھروں کو لٹتا ہوا دیکھا۔ تقسیم کے دوران ہزاروں عورتیں اغوا ہوئیں اور جبراً ان عورتوں کی شادیاں دوسری قومیتوں اور مذاہب کے مردوں کے ساتھ کردی گئیں۔

یہ کتنا بڑا ظلم تھا وہ عورتیں جو کل تک مسلمان تھیں، وہ ہندو گھرانے میں بیاہ دی گئیں یا جو ہندو تھیں ان کو مسلمان گھرانے میں بیاہ دیا گیا۔ ان عورتوں کا کرب اور ان کی بے بسی نے ان کے اندرکتنا غصہ، شکایت اور نفرت کو جنم دیا ہوگا۔

تقسیم جیسا سفاک حادثہ ہو یا جنگ اس سے سب سے زیادہ متاثر عورتیں اور بچے ہوتے ہیں۔ تقسیم کی جب بات ہوتی ہے تو مردوں کی قربانیاں اور ان کے تجربات زیر بحث آتے ہیں مگر عورتوں کی قربانیاں اور ان کے کرب پرکوئی بات نہیں کرتا۔ عورتوں کی کہانیاں گمنام ہی رہ جاتی ہیں۔

اس کی ایک بڑی وجہ وہ روایتی سوچ ہے جس میں عورتوں کے ساتھ پیش آنے والے مظالم کو خاندانی عزت و وقار سے جوڑا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عورتوں کے ساتھ پیش آنے والے ظلم و زیادتی کے واقعات پر بات کرنے سے گریزکیا گیا۔ اس موضوع پر سماج میں ایک خاموشی رہی۔ عورتوں کی خود مختاری اور ان کی حیثیت کو تقسیم کے بعد کی ریاستوں نے بھی اس طور پر تسلیم نہیں کیا جس کی وہ حقدار تھیں۔

عورتوں کو تقسیم کے دوران بے شمار ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا اور انھوں نے مزاحمت بھی کی ۔ عورتوں نے اپنی عزت بچانے کے لیے خود کشی کو ترجیح دی جب کہ کچھ نے اپنی زندگیاں داؤ پر لگا کر اپنے خاندانوں کو بچایا۔ ان واقعات میں مزاحمت اور جرات کی مثالیں چھپی ہوئی ہیں۔ عورتوں کی جرات اور ان کے عزم کو تقسیم کے بیانیے میں شامل نہ کرنا ان کی قربانیوں سے انکار کرنے کے مترادف ہے۔

گھروں کے آنگنوں میں کھیلتی ہوئی لڑکیاں جب قافلوں میں اپنے والدین کے ساتھ نکلیں ہوں گی تو انھیں نہیں معلوم تھا کہ وہ دوبارہ اپنے گھروں کو نہیں دیکھ پائیں گی۔ ان کے خواب ان ریل گاڑیوں میں کہیں کھوگئے جنھیں خون کے دھبوں نے داغدار کر دیا تھا، جن عورتوں کو اغوا کیا گیا، ان کی داستانیں سننے والا اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنے والا کوئی نہ تھا۔ وہ اپنے خاندان کی گمشدگی کے ساتھ ساتھ اپنی شناخت کی گمشدگی کا بھی دکھ جھیل رہی تھیں۔

آج جب تقسیم کو سات دہائیاں گزر چکی ہیں تو ضروری ہے کہ اس پر بات کی جائے۔ یہ کہانیاں ہمیں بتاتی ہیں کہ عورتوں نے کیسے تاریخ کے بدترین حالات کا سامنا کیا اور کس طرح نا انصافی اور جبر نے ان کی زندگیوں کو متاثرکیا۔ عورتیں آج بھی مختلف مسائل کا شکار ہیں۔ آج بھی عورتوں کو مذہبی، نسلی اور طبقاتی بنیادوں پر ظلم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں تاریخ کو نئے سرے سے دیکھنے کی ضرورت ہے جس میں عورتوں کا بیانیہ بھی شامل ہو۔ عورتوں نے جو کچھ تقسیم کے وقت جھیلا وہ محض ذاتی المیہ نہیں تھا بلکہ اس میں اجتماعی درد اور مزاحمت جھلکتا ہے، جو آج بھی عورتوں کو درپیش ہے۔

تقسیم کے وقت اور اس کے بعد عورتوں کے ساتھ جو مظالم ہوئے وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ انھیں نظر اندازکرنا یا بھول جانا ممکن نہیں ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ تاریخ صرف مردوں کے تجربات پر مبنی نہیں ہوتی بلکہ اس میں عورتوں کے تجربات بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنا کسی بھی دوسرے انسان کے۔ اردو ادب میں کرشن چندر، عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو کی تحریروں میں تقسیم کے دوران عورتوں کے حالات کو نمایاں کیا گیا ہے۔ ان لکھاریوں نے اپنی تحریرکے ذریعے عورتوں پرگزرے مظالم کو ادب کا حصہ بنایا اور ان کو اجاگرکیا۔

تقسیم ہند کا زخم کبھی مندمل نہیں ہوسکتا۔ یہ عورتیں تاریخ کے اوراق میں گم ہوگئیں، مگر ان کی کہانیاں آج بھی زندہ ہیں، وہ جرات اور حوصلے کی داستانیں چھوڑگئی ہیں۔وقت آگیا ہے کہ ہم ان آوازوں کو سنیں، ان کہانیوں کو اپنی تاریخ کا حصہ بنائیں اور ان عورتوں کی قربانیوں کو وہ مقام دیں جس کی وہ حقدار ہیں یہ کہانیاں محض ایک وقت کی نہیں بلکہ ہر اس عورت کی ہیں جو آج بھی اپنے وجود اور اپنی خود مختاری کے لیے لڑ رہی ہے۔ تقسیم کے بعد جب عورتیں واپس اپنے گھروں کو پہنچیں تو وہ گھر جوکبھی محبت اور اپنائیت کا گہوارہ تھے، اب اجنبی بن چکے تھے۔

دروازے بند تھے اور دلوں پر تالے لگ چکے تھے۔ ان عورتوں نے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کو اپنے آنچل میں چھپا لیا اور اپنی خاموشی کو ہی اپنی زبان بنا لیا۔ وقت کی بے رحم آندھی نے ان سے سب کچھ چھین لیا تھا۔ سماج انھیں دیکھتا تو تھا مگر ان کی کہانیوں کو سننے کی جرات نہیں کرتا تھا، وہ اپنے اندر ایک جنگ لڑ رہی تھیں۔ وہ جنگ جو انھوں نے کسی سرحد پر نہیں لڑی بلکہ وہ جنگ ان کے دلوں میں لڑی گئی۔ وہ عورتیں جنھیں تاریخ نے بھلا دیا درحقیقت وہی تاریخ کا سب سے مضبوط حصہ تھیں۔ جب جب بھی تقسیم پہ بات ہوگی ان عورتوں کو بھی یاد کرنا ہوگا، جن کی داستانیں تاریخ کا حصہ ہیں۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں