[ad_1]
آرٹیکل 63A اپنی اصلی شکل میں بحال ہوا۔ اس شق میں سزا کا تعین نہیں ہوا لیکن جاتے جاتے جو ووٹ اپنی پارٹی کے خلاف دے گا وہ بہرحال گنتی میں شمارکیے جائیں گے اور یہ بھی کہ فیصلے کا اختیار ان کی پارٹی کے سربراہ کریں گے، ان کے خلاف ریفرنس اسپیکرکو تفویض کیا جائے کہ نہیں۔ اس معاملے پر دو وقتوں میں، جج صاحبان نے فیصلے صادرکیے، فیصلے میں پہلے یہ کہا گیا کہ اس بات کا فیصلہ پارٹی کا سربراہ کرے گا کہ ووٹ کہاں ڈالنا ہے اور پھر اسی فیصلے میں یہ کہا گیا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ پارٹی کا پارلیمانی لیڈر فیصلہ کرے گا کہ ووٹ کہاں ڈالنا ہے۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ آرٹیکل A کے معاملے میں جو بھی فیصلے کیے گئے وہ غلط تھے مگر اب جو ہوا ہے وہ ٹھیک ہے۔ ہاں! مگر اس فیصلے کا وقت سازگار نہیں ہے! اب سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی Review کی درخواست دائرکی تھی اس کی سنوائی میں دو سال چار مہینے کیوں لگ گئے؟
تشریح کی آڑ میں آرٹیکل 63A کو دوبارہ لکھا گیا، جوکام پارلیمنٹ نے کرنا تھا وہ جج صاحبان نے کیا۔ سیاسی لیڈران کا یہ عندیہ تھا کہ اس معاملے کو عدالتِ عظمیٰ کے فل کورٹ بینچ میں سنا جائے اور تمام جج صاحبان اس معاملے پر اپنا فیصلہ صادرکریں، لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ عدالتِ عظمیٰ میں کل تین جج صاحبان بیٹھتے، کیس کو سنتے اور فیصلے صادرکرتے تھے۔ پنجاب کی پوری حکومت کا تختہ الٹایا گیا اور اقتدار کی سجی سجائی پلیٹ پرویز الٰہی کو پیش کردی گئی۔ پورے ملک میں افراتفری کا عالم تھا، کبھی یہ لانگ مارچ تو کبھی وہ جلسہ تو کبھی یہ جلوس، کبھی خان صاحب کو گولی ایک ٹانگ میں لگتی ہے اورکبھی خان صاحب پٹی دوسری ٹانگ میں باندھ کر آجاتے ہیں۔
ڈالر نے تین سو روپے تک کی اڑان بھر لی۔ مہنگائی 35% تک پہنچ گئی، افغان بارڈر پر اسمگلنگ عروج پر تھی۔ ادھر قمر جاوید باجوہ اتحادی حکومت کو بلیک میل کرنے میں مشغول تھے کہ ان کی مدت ملازمت میں اضافہ کیا جائے۔ یہ سب کمال تھا آرٹیکل 63A کی تشریح کا، اگر حمزہ شہباز شریف کی حکومت پنجاب میں قائم ہو جاتی تو شاید ایسا نہ ہوتا۔ خان صاحب کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کیوں چلائی گئی۔ خان صاحب کی غیر سنجیدہ اور ناقص پالیسیوں نے ملکی معیشت کو کھڈے لائن لگا دیا۔
خان صاحب اب تک انقلاب لانے میں ناکام ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے معیشت واپس بحالی کی طرف لوٹ رہی ہے اور دوسرا یہ کہ خان صاحب لوگوں کو سڑکوں پر نہ لا سکے اور نو مئی جیسا کوئی واقعہ دوبارہ جنم نہ لے سکا۔ یہ تمام معاملات جڑے ہیں خان صاحب کی سیاسی تربیت کے ساتھ۔ وہ صرف ہنگامہ آرائی اور شور وغل برپا کرنا جانتے ہیں۔ ان کی کارکردگی صفر تھی اور نہ ہی وہ کچھ دے پائیں گے۔
جو سیاست خاں صاحب کرنا چاہتے ہیں، وہ ٹی ٹونٹی کا میچ ہے اور اس کے لیے خان صاحب کو ایک پچ درکار ہے جو وہ بنا نہ پائے۔ اب پیچھے بھی نہیں ہٹا جا سکتا۔ تحریک چلانے کے لیے ان کے ساتھ کوئی اتحاد بھی نہیں بنا پا رہا ہے، جس طرح سے خان صاحب کے مخالفین نے ان کے خلاف بنایا تھا۔
اب آئینی ترامیم کا بل کسی وقت بھی پارلیمنٹ میں پیش ہو سکتا ہے۔ اس میں اگر مولانا فضل الرحمن نے ساتھ دیا تو ٹھیک ورنہ سقم (بی) کے تحت فلورکراسنگ ہوگی ۔اس طرح آئینی عدالت قائم ہو جائے گی ۔یہی اسمبلی تھی 1997 میں جب میاں نواز شریف بھاری اکثریت سے کامیاب قرار پائے تھے اور بے نظیر صاحبہ کے پاس صرف سترہ نشستیں تھیں۔ بے نظیر صاحبہ نے امید کی شمع کو بجھنے نہ دیا۔
وہ ایک دور اندیش سیاستدان تھیں، وہ پراسز کو سمجھتی تھیں۔ میاں نواز شریف اس راستے کو ترک کرکے آگے نکل چکے تھے۔ خان صاحب ایک حقیقت تو ہیں مگر ان کا راستہ انتشار اور فساد کا راستہ ہے، وہ اب اگر اقتدار کی طرف آئیں گے تو کسی انقلاب کے تحت آئیں گے کیونکہ جمہوری راستوں کے ذریعے اقتدار کی طرف آنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ انقلاب کبھی مؤخر نہیں کیے جاسکتے اگر انقلاب نہیں آئیں گے تو آگے جا کر ان کی جگہ نئے انقلابات لے لیں گے، لٰہذا خان صاحب کو اب فیصلہ لینا ہوگا کہ وہ اپنی حکمتِ عملی کو تبدیل کریں، اسمبلی میں بیٹھیں، تعمیرِ نو میں اپنا حصہ ڈالیں۔ سندھ اور بلوچستان میں خان صاحب کی پارٹی کوئی وجود نہیں رکھتی۔ ان کے لیے پنجاب اور خیبر پختونخوا ایک تسلیم شدہ حقیقت ہیں۔
پی ایم ایل (نون) کی یہ کوشش ہے کہ علی امین گنڈا پور جو اس وقت بیانیہ بنا رہے ہیں، اس کی آڑ میں پنجاب سے پی ٹی آئی کا خاتمہ کیا جائے۔ خان صاحب کے مقدمات کا معاملہ بھی پیچیدہ ہے، اگر آئین میں ترامیم کی گئیں تو خان صاحب کو ریلیف ملنے کے آثار بہت کم ہیں۔
پاکستان کی جمہوری ارتقاء نے اب نیا رخ اختیار کر لیا ہے، یہاں فلور کراسنگ قانون کا سقم ایسا ہی ہے جیسے ہندوستان میں ہے۔ یہ سقم برطانیہ میں Norm ہے جو کہ غیر مہذب سہی مگر غیر قانونی نہیں ہے۔
آرٹیکل 63A کو آئین میں اس لیے شامل کیا گیا ہے کہ غیر جمہوری قوتیں کسی پارلیمانی پارٹی کے ارکان اسمبلی کو توڑا نہ جاسکیں لیکن پھر بھی فلورکراسنگ ہوتی رہی ہے۔ حاصل بزنجو صاحب کے ساتھ کیا ہوا، جب وہ سینیٹ کی چیئرمین شپ کے امیدوار بنے اور کس طرح سے ان کو شکست سے دوچارکیا گیا۔ یہ پہاڑ جس پر توڑا جاتا ہے، وہ ہی اس بوجھ کو جانتا ہے اور جو اس سے مستفیض ہوتا ہے، وہ خوش رہتا ہے۔ پی ٹی آئی کل تک اس سے مستفیض تھی تو خوش تھی اوراب پریشان ہے۔ پی ٹی آئی پھر مستفیض ہو سکتی ہے اگر جب پیپلز پارٹی اور پی ایم ایل (ن) پریشان ہوں۔
فلور کراسنگ جمہوری تاریخ کا حصہ ہے۔ غیر مہذب سہی مگر ہے حقیقت اور پھر کون جانے کس کا ضمیر کیا کہتا ہے، لہٰذا ضمیر کی بات یہاں کہی ہی نہ جائے۔ کیا پتا کہ کوئی اپنے ضمیرکی ملامت پر اپنی پارٹی کی مخالفت کر رہا ہو۔ تو پھر جانے دیجیے واپس پارٹی کے سربراہ کے پاس آیا کہ وہ ان کے خلاف اسپیکرکے پاس ریفرنس بھیجنا چاہتے ہیں ؟ اور پھر کیا الیکشن کمیشن اسے سیٹ سے محروم کرتی ہے کہ نہیں؟ اور جانے دیجیے اس کو عوام کے پاس کہ کیا وہ ان کو دوبارہ ووٹ دے کر جتواتے ہیں کہ نہیں۔
[ad_2]
Source link