52

محمد عمر مہاجر، ممتاز مقرر، ادیب اور براڈ کاسٹر (آخری حصہ)

[ad_1]

راولپنڈی سے آپ کا تبادلہ حیدرآباد سندھ ہوا اور پھرکراچی ہوگیا۔ یہاں آپ نے کئی شعبوں میں کام کیا اور بہترین پروگرامز اس انمول ادارے کو دیے، اسی دوران آپ کا مذہبی پروگرام ’’ قرآن حکیم اور ہماری زندگی‘‘ بے حد مقبول ہوا۔ رواں تبصرہ اور واقعاتی تصویرکشی پر آپ کمال مہارت رکھتے جس کی درخشاں مثالیں قومی تقریبات جس میں لاہور میں منعقد عظیم الشان اسلامی سربراہی کانفرنس پررواں تبصرہ،1967 کے عام انتخابات میں جلسوں کی کمپیئرنگ، آپ کی مادر علمی کی شاندار تربیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، جو نشری دنیا میں ایک یادگارکی حیثیت سے ہمیشہ جانے جائیں گے جو آپ کے ذوق مطالعہ کے وسیع ہونے کی بھی غمازی کرتے ہیں۔

کچھ عرصہ الیکشن کمیشن میں بھی تعینات رہے پھر واپس ریڈیو پاکستان آگئے جہاں آپ کو ترقی دے کر ڈائریکٹر آف لیزاں بنا دیا گیا۔ جب ریڈیو پاکستان کارپوریشن میں تبدیل ہوا تو کچھ عرصے کے لیے آپ کو اسٹاف ٹریننگ اسکول، اسلام آباد کا وائس پرنسپل بنا دیا گیا کو ئی ڈیڑھ سال بعد آپ کا تقرر سیلز آفس میں بحیثیت ڈپٹی کنٹرولر ہوا، آپ کی موجودگی سے اس شعبے میں کافی بہتری آئی اور سیلزکافی بڑھ گئی اور یوں آپ کے بہترین نظم و نسق کی وجہ سے یہ ادارہ بہترین کارکردگی کا حامل بن گیا۔

سیلز کی طرف آنے کے باوجود آپ نے کبھی پروڈکشن سے اپنا تعلق نہ چھوڑا اور کوئی نہ کوئی پروگرام آپ ترتیب دیتے۔ آپ کی بہترین خدمات پر آپ کی مدت ملازمت میں دو سال توسیع بھی کی گئی ۔اس دوران آپ نے ’’ذوق آگاہی‘‘ اور ’’جہان تازہ‘‘ کے ناموں سے معلوماتی پروگرامز بھی پیش کیے جو سامعین میں بے انتہا مقبول ہوئے جن سے عوام الناس کو قائداعظم اور علامہ اقبالؒ کی صد سالہ جشن پیدائش پر) کی حیات کے مختلف پہلوؤں سے متعلق مکمل آگاہی نصیب ہوئی، ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ 2اگست1977 کو ایک طویل خدمت اس ادارے کی انجام دے کر آپ سبک دوش ہوگئے، ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آپ نے اس پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا، جس کے لیے مختلف اسٹیشنوں پر پروگرام کی ریکارڈنگ کے لیے بھی گئے۔

اس سلسلے کا آخری پروگرام کر کے کوئٹہ پہنچ رہ تھے کہ جہاز میں ہی آپ پر دل کا دورہ پڑا، ایئرپورٹ سے سیدھے شفا خانے لے جایا گیا جب کچھ بہتر ہوئے تو کراچی کال کر کے اہل خانہ سے بات کی اور 29ستمبر کو کراچی آنے کی اطلاع دی لیکن حکمت الٰہی کچھ اور ہی تھی اور 28‘29ستمبر کی درمیانی شب آپ اپنے خالق حقیقی کے حضور جا پہنچے اور یوں رب العزت نے آپ کی کہی ہوئی تاریخ پر آپ کوکراچی پہنچایا پر جاگتی حالت میں نہیں پرسکون نیند میں جو ایک نیک روح اپنی تمامتر اچھائیوں کو ادا کرکے رب العزت کے حضور میں جاچکی ہواور یوں زیب نانی سے کیا ہوا یہ آخری وعدہ بھی آپ نے وفا کیا۔ آپ جب بھی ملکی حالات پر گفتگو کرتے تو آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوجاتیں۔

آپ بڑے دل گیر ہوجاتے کیونکہ آپ یہ سمجھتے کہ نوجوان نسل پاکستان کے نظریے سے صحیح طور سے واقف ہی نہیں، اس لیے کسی تعمیری کام پر تخریب کاری کو فوقیت دیتی ہے، وہ کہتے آج کی نسل کو پاکستان بنا بنایا مل گیا، اس لیے ان کے دلوں میں وہ قدر نہیں کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے۔ اس عظیم دھرتی کوکیا کچھ کھوکر حاصل کیا گیا ہے۔

وطن عزیز کے سیاسی حالات پر وہ کہتے کہ ’’پاکستان کو اللہ محفوظ رکھے اور خدا نخواستہ پاکستان کے مزید ٹکڑے ہونے سے پہلے ہمیں اس دنیا سے اٹھالے‘‘ اور خدا نے اپنی بارگاہ میں اٹھے ہوئے ان ہاتھوں کی لاج رکھ لی اور موجودہ دور کے ان نام نہاد سیاسی عناصروں کی ملک دولخت کرنے کی چالوں کو دیکھنے سے پہلے اس محب وطن شخصیت کو اس فانی دنیا سے ابدی دنیا میں بلا لیا۔ اس بدمعاش ٹولے نے غریب مڈل کلاس عوام پر مہنگائی ٹیکسوں کا ایسا شب خون مارا ہے کہ ان کے جینے کے لالے پڑے ہوئے ہیں محض اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے۔ عوام اس آس میں ہیں کہ ایک نجات دہندہ ایسا ہے جو مادر وطن کو اس انتشاری بحرانی کیفیت سے نکال لے گا جب کہ یہ نت نئی توجیہات کا طوفان انھی کا لایا ہوا ہے وہ چیخیں کسی اور کی نکلوانا چاہ رہے تھے پر پانسہ پلٹنے کے سبب اب چیخیں انھی کی نکل رہی ہیں۔ آپ مغربی زبانوں کے ادب کے بارے میں معلومات رکھتے تھے۔

مطالعے کے بے حد شوقین تھے، آپ کو برج کھیلانا پسند تھا اور موسیقی سننا۔ باغبانی کا بھی شوق رکھتے۔ آپ بچوں کو اس بات کی ترغیب دیتے کہ امتحان تو تم نے دے لیا، اب ایمانداری کا تقاضا یہ ہے کہ اب کچھ پڑھ بھی ڈالو۔ آپ اپنی بہت ساری مصروفیات میں کبھی بچوں کی پڑھائی سے غافل نہیں رہے انھیں اپنی زندگی کا بہترین وقت دیتے۔ 1966 میں آپ کو عارضہ قلب کی تشخیص ہوئی تو آپ تقریرکرنے میں دقت محسوس کرتے مگر جب بات ہو بہادر یار جنگ کے حوالے سے کسی یادگار تقریب کی تو ان سے آپ کی یہ والہانہ عقیدت ہی ہوتی کہ آپ اس میں ضرور بہ ضرور شرکت فرماتے اور تقریرکا جادو بھی جگاتے۔ آپ کی وفات کے کئی سال بعد جامعہ عثمانیہ سے ایم اے کے دوران آپ کے لکھے گئے مقالے جس کا عنوان ’’ اردو افسانے کا تشکیلی دور‘‘ کو 2005 میں آپ کی چھوٹی صاحبزادی محترمہ فریسہ عقیل نے اسی نام سے مرتب کیا۔ آپ کے قدیم مضامین ’’ ادب اور ادیب ‘‘ کے نام سے مرتب کیے گئے اور اس کا سہرا بھی فریسہ خالہ کو جاتا ہے۔

یہاں ایک بات ضرورکھٹکتی ہے کہ کیوں ہمارے ثقافتی اور علمی ادارے جو سرکاری سطح پر بڑی بڑی مراعات اور ادارہ چلانے کی گرانٹ لیتے ہیں وہ کیوں ان بلند پایہ اسلاف کی تحریروں کو محفوظ کرنے میں محنت نہیں کرتے، ایمانداری سے اپنی تنخواہیں حلال کیوں نہیں کرتے؟ کیوں ان کے بچوں کو ہی اپنے ماں باپ کی ان نایاب قدروں کی قدر خود ہی کرنی پڑتی ہے یہ تو ان کی اعلیٰ ترین خطوط پر تعلیم و تربیت ہے جو وہ آیندہ نسلوں کے لیے یہ نیک فریضہ انجام دے رہے ہیں اور اپنے والدین کی زندگی بھرکی پوری ایمانداری کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دینا چاہتے لیکن اگر یہ ادارے بجا طور اپنی ذمے داریوں کو نہیں نبھاسکتے تو پھر انھیں بند ہوجانا چاہیے نہ کہ وطن عزیز پر بوجھ بنیں۔ محترمہ فریسہ عقیل صاحبہ کے رفیق حیات وطن عزیز کے معروف استاد دانشور، اردو دان ڈاکٹر معین الدین عقیل ہیں جو ان تمام تخلیقی کاموں میں اپنی اہلیہ کے مددگار ہوتے ہیں۔ فریسہ صاحبہ ابھی اور بھی اپنے والد کی کئی تخلیقات کو کتابی شکل دینے کے لیے کوشاں ہیں۔

اللہ کریم اس لائق فائق جوڑے کو کامل صحت و سلامتی سے رکھے تا کہ خلق خدا ان کی علمی ادبی خدمات سے تادیر استفادہ کرسکے (آمین)۔ یہاں ایک اہم بات کا اعتراف ضروری ہے کہ مادر وطن پاکستان میں علم و ادب کی نشر و اشاعت میں ریڈیو پاکستان نے ہمیشہ اپنا بہترین کردار ادا کیا ہے جہاں کے عالم فاضل لوگوں میں جن میں قمرجمیل، منی باجی و دیگر نے عوام الناس کو علم وآگہی دی۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں