23

پاکستانی ٹیم انگلینڈ کیلیے ترنوالہ ثابت نہیں ہوگی

بنگلہ دیش کیخلاف ہوم ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش پر پاکستانی شائقین کرکٹ سخت ناراض ہیں، ان کو ڈر ہے کہ انگلینڈ کی ٹیم اب نجانے کیا حال کرے، اس نے تو 2 سال قبل بھی تینوں میچز میں ہرا کر وائٹ واش کیا تھا، سابق کرکٹرز بھی کچھ زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کر رہے، البتہ مجھے اب بھی یہی لگتا ہے کہ پاکستانی ٹیم انگلینڈ کیلئے ترنوالہ ثابت نہیں ہوگی۔

یہ ہماری روایت رہی ہے کہ جب کبھی کوئی کسی خاطر میں نہیں لاتا ایکدم سے ایسی کارکردگی سامنے آتی ہے جسے دیکھ کر سب حیران رہ جاتے ہیں، کیا پتا اب بھی ایسا ہو جائے، 2 سال قبل جب انگلینڈ کی ٹیم پاکستان آئی تو اس کا پیس اٹیک بے حد مضبوط تھا جس کی کمان جیمز اینڈرسن نے سنبھالی ہوئی تھی، اب نئے پیسرز آئے ہیں، خاص طور پر مارک ووڈ کی عدم موجودگی کا پاکستانی بیٹرز کو فائدہ ہوگا، وہ انجری کی وجہ سے نہیں آ سکے، جیمز اینڈرسن ریٹائرمنٹ کے بعد بولنگ کوچ بن چکے مگر ان دنوں اسکاٹ لینڈ میں گالف ٹورنامنٹ کھیل رہے ہیں۔

وہ پہلے ٹیسٹ کے دوران بولرز کی رہنمائی کیلئے موجود نہیں ہوں گے، اولی روبنسن اب اسکواڈ کا حصہ نہیں رہے، موجودہ پیسرز میں سے کسی کو بھی پاکستان میں ریڈ بال کرکٹ کھیلنے کا تجربہ نہیں ہے، کپتان بین اسٹوکس کی بھی پہلے ٹیسٹ میں شرکت مشکوک ہے، وہ اگر کھیلے بھی تو صرف بیٹنگ کر سکیں گے، البتہ ہیری بروک، زیک کرولی، بین ڈکٹ،جو روٹ سمیت کئی اچھے بیٹرز موجود ہیں، دوسری جانب پاکستانی پیسرز اچھی فارم میں نہیں ہیں، شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ میں پہلے والی بات نظر نہیں آ رہی، البتہ دونوں بیحد باصلاحیت ہیں، جس میچ میں اچھا پرفارم کیا ٹیم کو فتح دلائیں گے، ملتان میں ان دنوں شدید گرمی ہے، انگلش کرکٹرز ٹھنڈے موسم سے یہاں آئے ہیں۔

ان کیلئے کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہونا بھی آسان نہیں ہے، اگر ماضی کا دور ہوتا تو پاکستان اسپنرز کے ذریعے انگلینڈ کو خوب پریشان کرتا،البتہ اب ہمارے پاس پہلے جیسے اسپن بولرز موجود نہیں، ابراراحمد یا نعمان علی میں سے جسے بھی موقع ملے اسے صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کرنا چاہیے، بنگلہ دیش کیخلاف پاکستان کی بیٹنگ بھی مایوس کن رہی تھی، البتہ اب یقینی طور پر کھلاڑیوں نے خامیوں کا جائزہ لے کر انھیں دور کرنے پر توجہ مرکوز کی ہوگی جس کا مثبت اثر پڑے گا، مجھے خاص طور پر بابر اعظم سے بہت امیدیں وابستہ ہیں، یہ ٹھیک ہے کہ حالیہ کچھ عرصے کے دوران وہ زیادہ اچھا پرفارم نہیں کرسکے لیکن اب وائٹ بال کی قیادت چھوڑ کر اضافی دباؤ سے آزاد ہوگئے ہیں، اس کا انھیں ٹیسٹ کرکٹ میں بھی فائدہ ہوگا۔

بابر کو اب صرف اپنے کھیل پر ہی توجہ دینے کا سنہری موقع ملا ہے، انھیں اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رنز کے ڈھیر لگا دینے چاہئیں،عبداللہ شفیق کے پاس صلاحیتیں منوانے کا یہ آخری چانس ہوگا، وہ کافی عرصے سے اچھا کھیل پیش نہیں کر پا رہے، اگر پہلے ٹیسٹ میں بھی بڑی اننگز نہ کھیلیں تو سلیکٹرز کے پاس امام الحق کو واپس بلانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا،شان مسعود کو بھی خود کو اچھا کپتان منوانا ہوگا،مسلسل 5 شکستوں کی وجہ سے وہ دباؤ میں تو ہوں گے، البتہ یہ اچھی بات ہے کہ کوچ جیسن گلیسپی ان کو مکمل سپورٹ کر رہے ہیں،انھیں شان کی قائدانہ صلاحیتوں پر مکمل اعتماد ہے، شان کو نہ صرف بطور کپتان بلکہ بیٹسمین کی حیثیت سے بھی اچھی کارکردگی دکھانا ہوگی۔

ایک بار جب وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ساتھیوں کے دل میں بھی عزت بڑھ جائے گی،انگلینڈ کی ٹیم اپنے جارحانہ انداز کھیل کی وجہ سے مشہور ہے جسے انھوں نے بیز بال کا نام دیا ہے،پاکستان کے پاس صائم ایوب ایسے کرکٹر ہیں جو حریف بولرز پر اٹیکنگ کرکٹ سے حاوی ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں، محمد رضوان اور سلمان علی آغا بھی ضرورت پڑنے پر بڑی اننگز کھیلنے کے اہل ہیں،ٹیسٹ سیریز کیلئے پاکستانی تیاریوں کو آئیڈیل قرار نہیں دیا جا سکتا، ون ڈے ٹورنامنٹ کرانے کے بجائے کھلاڑیوں کو کچھ ریڈ بال میچز کھیلنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے تھا، خیر اب جو ہو گیا اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا،توقع یہی کرنی چاہیے کہ ٹیم اچھا کھیل پیش کرے گی، ابھی تک یہ علم نہیں کہ پچز کیسی بنائی جائیں گی۔

اسپن پچ بنائی تو ہمارے پاس بظاہر ایسے اسپنرز نہیں ہیں جو حریف بیٹنگ کو زیادہ پریشان کر سکیں، پیسرز کیلئے سازگار پچ پر اپنے بیٹرز کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، ٹیم مینجمنٹ کیلئے یہ مشکل فیصلہ ہوگا، اس سیریز میں فتح پاکستانی ٹیم کیلئے بیحد اہم ہے، اگلے سال ملک میں چیمپئنز ٹرافی ہونی ہے، اگر ٹیم نے اچھا کھیل پیش کیا تب ہی شائقین میچز دیکھنے کیلئے اسٹیڈیم کا رخ کریں گے، امید پر دنیا قائم ہے ہمیں بھی امید رکھنی چاہیے کہ ٹیم سیریز میں مایوس نہیں کرے گی۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں