30

جھیلوں کی ملکہ، دودی پت

آزاد کشمیر اور خیبر پختونخواہ کی سرحدی بلندیوں پر واقع دودی پت سر کو جھیلوں کی ملکہ کہا جاتا ہے۔ کیوں کہا جاتا ہے یہ تو مجھے نہیں معلوم لیکن میں نے اس سے بھی حسین جھیلیں دیکھ رکھی ہیں۔ چوںکہ حسن تو دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے اس لیے ہم کسی ایک جگہ کے حسن کو دوسرے سے موازنہ نہیں کر سکتے اور مجھے یہ عجیب بھی لگتا ہے کہ خدا کے بنائے ہوئے پہاڑوں، جھیلوں، جنگلوں، صحراؤں اور مناظر کا ایک دوسرے سے موازنہ کرنا۔

بات یہ ہے کے ہر جگہ کی اپنی وائبز، اپنا ماحول اور جغرافیے کے حساب سے موسم ہوتا ہے۔ سو ہر جگہ ہر شخص کا تجربہ بھی مختلف ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک ہی جگہ دو بار جانے والے شخص کو دونوں بار وہی مزہ یا موسم نہیں ملتا۔

سو اگر اس خوب صورت جھیل کو ملکہ کہا جاتا ہے تو ہمیں قبول ہے۔ ہو نہ ہو کوئی اور جھیل، جھیلوں کی شہزادی بھی کہلاتی ہو۔

امسال کسی پہاڑ کو سر کرنے کی بجائے کسی دوردراز جھیل تک جانے کا منصوبہ بنایا۔ کرومبر کے لیے دوست تیار نہ تھے سو قرعہ دودی پت کے نام نکلا۔

3800 میٹر بلندی پر واقع، وادیٔ کاغان کی یہ خوب صورت جھیل ضلع مانسہرہ کے مشرقی کونے میں آزاد کشمیر کے پاس واقع ہے۔ اس تک پہنچنے کا راستہ بہت زیادہ مشکل یا آسان نہیں لیکن لمبا ضرور ہے۔ کم از کم زندگی میں ایک بار تو یہاں لازمی جانا چاہیے۔

کچھ دوست دودی پتسر جانے کی تفصیلات بار بار پوچھ رہے ہیں۔ ویسے اس پر کچھ دوست پہلے لکھ چکے ہیں لیکن چلیں میں بھی اپنا تجربہ بھی بیان کر دیتا ہوں تاکہ جانے والوں کو مشکل پیش نہ آئے۔

جھیل کا ٹریک ناران سے آگے بیسل سے شروع ہوتا ہے۔

مشہور زمانہ مون ریسٹورنٹ کے پیچھے سب سے پہلے ایک روایتی ڈولی میں بیٹھ کے دریائے کنہار پار کرنا پڑتا ہے، جس کے بعد ایک میدان اور پھر پہاڑی پگڈنڈی شروع ہوتی ہے۔

یہ حصہ قدرے آسان ہے۔

اس کے بعد آپ کو جھیل سے آنے والا تند و تیز نالہ ’’پوربی ناڑ‘‘ پار کرنا ہوتا ہے۔ یہاں آپ کو دھیان رکھنا پڑتا ہے کہ کئی لوگ اس نالے میں گر بھی جاتے ہیں جس کا پانی شدید ٹھنڈا ہے۔

ادھر سے کچھ حصہ گلیشیئر ٹریک ہے۔

یہاں سے پہاڑی راستے اونچے ہوتے چلے جاتے ہیں جہاں کچھ کچھ مقامات پر دشواری پیش آ سکتی ہے۔

یہ شروع کا ٹریک جو پتھروں، پگڈنڈیوں اور چار گلیشیئرز پر مشتمل ہے، کہیں کہیں آپ کا امتحان لیتا ہے اور یہ ملا کی بستی تک کے ٹریک کا چالیس فی صد ہے۔

اس کے بعد ایک ناہموار مگر خوب صورت سرسبز میدان شروع ہوتا ہے جو آپ کے صبر کا امتحان لیتا ہے کہ یہ ختم ہی نہیں ہوتا۔

یہاں کہیں دلدل، کہیں نالے، اونچائیاں اور کہیں پھول دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ ٹریک بہت خوب صورت ہے۔ کہیں رنگ برنگ پھول کھلے ہیں تو کہیں نالے کا شور آْپ کو متوجہ کرتا ہے۔ کہیں بھیڑوں کا ریوڑ آپ کا راستہ کاٹے گا تو کہیں مقامی بچے پیسے مانگتے مانگتے دور تک آپ کا پیچھا کریں گے۔

یہاں آپ آہستہ بھی قدم اٹھائیں تو آرام سے سات گھنٹوں میں مُلا کی بستی پہنچ جائیں گے۔ اچھی رفتار والے ساڑھے پانچ یا چھ گھنٹوں میں یہ ٹریک ختم کر سکتے ہیں۔

بہتر ہے بیسل سے صبح یا بارہ بجے کے قریب نکلیں تاکہ مغرب سے پہلے مُلا کی بستی پہنچ جائیں۔

جھیل کا بیس کیمپ ملا کی بستی ایک خوب صورت میدان ہے جہاں آپ کو چند خیمے ملیں گے (سیزن میں ایک خیمے کا چھے سے آٹھ ہزار تک وصول کیا جاتا ہے) جہاں آپ رات گزار سکتے ہیں۔ چوںکہ ہمارے اپنے خیمے اور کھانا تھا لہٰذا کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ آپ بھی اپنا خیمہ اور کھانا ساتھ لے کے جا سکتے ہیں۔ پورٹرز کی سہولت گھوڑوں سمیت موجود ہے۔

مُلا کی بستی پہنچ کے آرام کریں اور قریبی جگہ کو ایکسپلور کریں۔ یہاں نالے کے آس پاس بے شمار خوب صورت منظر مل جائیں گے۔ اگلے دن جھیل کے لیے نکلیں۔ کچھ لوگ ایک ہی دن میں جھیل دیکھ کے واپس جانا چاہتے ہیں جو ایک بے وقوفی ہے۔ بھائی اتنی دور آئے ہو تو جی بھر کے جھیل پر وقت گزارو، ایسی جگہوں پہ انسان روز روز تو نہیں آتا۔

اگر آپ دو دن میں یہ ٹریک کرنا چاہتے ہیں تو پہلے دن مُلا کی بستی تک آئیں اور دوسرے دن آرام سے جھیل دیکھ کے واپسی کریں کہ واپسی کا سفر کم وقت لیتا ہے۔

مُلا کی بستی سے جھیل تک کا ٹریک دو گھنٹوں کا ہے جس میں سب سے پُرکشش مقامات ہیں۔

گلہری کے یہ بھائی آپ کو کہیں بھی شرارتیں کرتے مل جائیں گے۔ سرسبز پہاڑوں والا یہ ٹریک بھی بہت خوب صورت ہے جس میں چڑھائی کچھ زیادہ ہے۔ بہتر ہے کہ آپ پہاڑ کے اوپر سے ہی جائیں تاکہ بعد میں آپ کو شدید اونچائی کا سامنا نا کرنا پڑے۔ یہاں بھیڑ بکریوں کے ریوڑ، گھوڑے اور چھوٹے چھوٹے پہاڑی نالے آپ کو دعوتِ عکاسی دیں گے۔ فوٹوگرافی کے شوقین حضرات یہاں بہترین فریم لے سکتے ہیں۔

جھیل تک پہنچنے کے بعد اسے چاروں طرف سے جی بھر کے دیکھیں۔

دودی پتسر، مغربی ہمالیہ میں گلیشیئر کے پانیوں سے بنی ہے جس کا سبزی مائل نیلگوں پانی پوربی ناڑ کے ذریعے کنہار تک پہنچتا ہے۔ یہ جگہ لولوسر دودی پتسر نیشنل پارک کا حصہ ہے جو حکومت کی طرف سے ایک قدرتی محفوظ علاقہ قرار دیا گیا ہے۔

اس کو پار کریں تو آگے سرال جھیل آوارہ گردوں کا امتحان لینے کو تیار بیٹھی ہے۔

یہاں ہر سمت آپ کو الگ ہی منظر ملے گا۔ ہمیں یہاں ہر طرح کا موسم ملا۔ دھوپ، بادل، بارش۔ جولائی اور اگست یہاں جانے کے بہترین مہینے ہیں۔

ہم نے چار گھنٹے جھیل پہ رُک کے واپسی اختیار کی اور نالے کے ساتھ نیچے والا ٹریک لیا جو قدرے ہموار ہے۔ یہاں سے ڈیڑھ گھنٹے میں ملا کی بستی پہنچے جہاں شدید بارش شروع ہوگئی۔

بارش تھمی تو دھوپ نکل آئی اور دھنک کے ساتوں رنگ آسمان پر بکھر گئے۔

دودی پت سر اور آس پاس کے علاقے میں تقریباً روز ہی بارش ہوتی ہے۔ کبھی کم کبھی زیادہ سو اپنے ساتھ برساتی لازمی رکھیں۔ یہ اب آپ کی قسمت پر ہے کہ کس دن زیادہ اور کس دن کم بارش ہوتی ہے۔ ہمارے ہوتے روزانہ دوپہر ایک سو تین بجے کے بیچ بارش ہوتی تھی۔

یہاں خیموں میں ہمارے پاس سب سے بڑی نعمت گرم چائے تھی۔ ہمارے گروپ لیڈر معظم بھائی نے ٹریکنگ کے بعد بارش میں سب کو چائے اور گرم پکوڑے سرو کیے تو سفر کی ساری تھکن اتر گئی۔ زیادہ بلندی پر ہونے کی وجہ سے یہاں کھانا خصوصاً گوشت پکانا کچھ مشکل ہے اس لیے گوشت کھانا ہے تو اسے پہلے سے ہی کچھ بھون کے آئیں تاکہ یہاں زیادہ مشقت نہ کرنی پڑے۔

آسمان صاف ہو تو مُلا کی بستی میں رات ایک بجے کے آس پاس آْپ کو زبردست کہکشاں بھی نظر آئے گی۔

واپسی کے لیے بھی کوشش کریں کہ صبح ہی نکلیں۔ ہم آٹھ بجے نکلے اور لگ بھگ بارہ بجے واپس بیسل پہنچ گئے۔ واپسی میں ڈیڑھ دو گھنٹے کم لگتے ہیں کہ ٹریک بھی دیکھا بھالا ہوتا ہے اور چڑھائی کم ہے۔

بیسل آ کے تازہ دم ہوں، کھائیں پیئیں اور واپسی کی راہ لیں۔

آپ جھیل کی طرف جاتے اور واپس آتے ہوئے گھوڑا بھی کروا سکتے ہیں جس کا ریٹ ان دنوں چھے سے آٹھ ہزار روپے سکہ رائج الوقت تھا۔

مختلف فیملیز بھی یہاں موجود تھیں سو آپ بھی اپنی فیملی کو ٹریک کروا کے یا گھوڑوں پر لے کے جا سکتے ہیں۔

زیادہ چھوٹے بچوں کو مت لے جائیں کہ اونچائی پر سانس کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔

ایک اچھی بات یہ کہ بیشتر ٹریک صاف ستھرا تھا۔ کچرا کہیں کہیں نظر آیا۔ آپ بھی جب جائیں تو یادوں سمیت اپنا کچرا بھی واپس لے کر آئیں۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں