47

عشق باطن – ایکسپریس اردو

[ad_1]

بیاء جی کی یہ کتاب نظر سے گزری تو ٹیبل پر رکھ دی،کتابوں کے ایک ڈھیر میں یہ بھی گم سی ہو گئی۔ چند دن پہلے اسٹڈی میں پڑی یہ کتاب ’’عشق باطن‘‘ دوبارہ نظر آئی، پڑھنی شروع کی تو کمال شاعری نکلی۔ جذب‘ وجدان اور عشق سے گندھے ہوئے لازوال شعر جنھیں پڑھنے سے انسان سحر زدہ سا رہ جاتا ہے۔ بیاء جی سے ایک تقریب میں بہت پہلے ملاقات ہوئی تھی۔ مگر انھیں دیکھ کر اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی عمدہ شاعرہ ہیں۔ برادرم فرحت عباس شاہ نے ‘ اس کتاب پر لب کشائی فرماتے ہوئے رقم کیا ہے۔ ویسے میری نظرمیں فرحت عباس شاہ‘ شاعر تو با کمال ہے ہی‘ مگر اندر سے وہ درویش ہے:

لوگوں نے عشق کی بھٹی میں تپ کر کندن ہونے کا نام ہی سنا ہو گا۔بیا ء جی اس عمل سے گزر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دکھوں میں ہر روز نکھار اور شاعری میں گداز بڑھتا جا رہا ہے۔ غزل دیکھیے:

ہجرکے جان گداز موسم میں

کام بگڑے کئی سنوارے ہیں

میری خوشیاں تمہارے دامن میں

میری جھولی میں غم تمہارے ہیں

اب کیا کریں کہ اس سفر کا کہ جو ہمارے عہد کی اکلوتی صوفی شاعرہ بیا ء جی نے اختیار کیا ہے۔ آغاز تو ہے لیکن انجام کوئی نہیں۔ موڑ اور پڑاؤ ضرور آتے ہیں لیکن قیام نصیب نہیں ہوتا۔ بیا ء جی کے سفر عشق کے ایک پڑاؤ کی کتھا زیر نظر کتاب میں موجود ہے اور اگلی کہانی کا انتظار و اشتیاق بڑھ گیا ہے۔ اس لیے کہ یہ کہانی لکھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اگرچہ بقول بیاء جی:

زندگی کا راز داں ہوتا نہیں

وقت سب پر مہرباں ہوتا نہیں

لیکن مجھے لگتا ہے بیاء جی پر مہربان ہو چکاہے۔

محترم رضا عباس رضا‘ عشق باطن میں لکھتے ہیں:بیاء جی کی ذات کا ایک پہلو ہے آج مجھے جس پہلو پر بات کرنا ہے وہ ہے ان کی شاعری ۔ میںنے اس کی شاعری سنی بھی ہے اور پڑھی بھی،وہ فراموشی کی زمین میں یاد دہانی کے بیج بونے کا ہنر جانتی ہیں۔ وہ غزل اور نظم دونوں میں طبع آزمائی کر چکی ہیں۔شاعری ذات سے کائنات کا ایک سفر ہے، اس سفر میں اگر عشق مصطفی ؐ و آل مصطفی ؐ کی صورت دل سے زبان اور زبان سے تحریر تک آ جائے تو یہ مان لینا چاہیے کہ دین‘ دنیا سے الگ نہیں ہے۔

تاریخ ہے گواہ کہ روئے زمین پر

انسانیت کا مہر درخشاں حضورؐ ہیں

علم اونچا امام پاک تیرا

اسی کو میں نے قبلہ کر لیا ہے

بیاء جی ہمیں انجانے موسموں کی سیر کراتی ہیں وہ یہ یقین رکھتی ہیں کہ ذات کا تجربہ‘ کائنات کے مشاہدے کی بنیاد ہے وہ کہتی ہیں:

رقص در رقص کسی عکس کو پیشانی پر

میرے جذبات کو تحریر کیے رکھتا ہے

محترم ڈاکٹر صابر مرزا نے اسی کتاب کے بابت فرمایا ہے:بیاء جی نے ان میں قلبی واردات و رومانی شاعری کے علاوہ بھی معاشرتی ناہمواریوں سے پیدا ہونے والے امتیازات اور عہدرواں کے مسائل و دکھ درد کو محسو س کرتے ہوئے انھیں درد بھرے الفاظ دے کر اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کیا ہے۔ بیاء جی کو اشعار میں اپنے احساسات و خیالات کو عیاں کرنے کا سلیقہ و ہنر بخوبی آتا ہے۔

میری رائے میں بیاء جی کا شمار ادبی دنیا کی چند باصلاحیت خواتین میں ہوتاہے۔ بیاء جی کی اس کتاب یعنی ’’عشق باطن‘‘ میں غزلیات اپنی جگہ نہایت خوبصورت ہیں لیکن ان کی نظمیں اور کافیاں بھی اپنی مثال آپ ہیں، ان میں کئی جگہوں پر صوفیانہ انداز کی جھلک اور اسلوبیاتی تنوع بھی دکھائی دیتا ہے ایسا لگتا ہے کہ بیاء جی نے زیست کے اس سفر میں آنے والی دھوپ اور چھاؤں کا بھرپور طریقے سے ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ جس نے انھیں خوب سے خوب تر اور کندن بنا دیا ہے۔ نیچے دیے گئے بیاء کی عقیدت بھری نعت کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

تخلیق کائنات کا عنوان حضورؐ ہیں

لاریب دو جہان کے سلطان حضور ؐ ہیں

ذکر رسول ؐ پاک ہے ذکر خدائے پاک

محبوب حق کے روپ میں یزداں حضورؐ ہیں

ڈاکٹر صغیر احمد صغیر رقم دراز ہیں: مشاہرہ جاری تھا،ہر آنے والے شاعر کو وہ واہ کی داد مل رہی تھی۔ کوئی واہ واہ کرتا ،کوئی تالیاں بجا کر داد دیتا لیکن مہمان خصوصی کی نشست پر براجمان شخصیت کی طرف سے داد ایک مسکراہٹ کی شکل میں وارد ہو کر آنکھوں کے رستے دل میں اتر جاتی۔

خوبصورت سے کہیں آگے کا ایک پروقار چہرہ‘ چمکدار مسکراتی آنکھیں رکھنے والی وہ خاتون تھیں بیاء جی۔مشاہرہ ختم ہوا اور ہم جیسے کئی بیچارے بیاء جی کے ساتھ تصویر بنوانے کی خواہش کا قتل کرتے پائے گئے۔ وجہ؟ سادہ سی وجہ تھی کہ بیاء جی کے اندر کا فقیر جو نہ خود نمود و نمائش کو خود پر سوار ہونے دیتا ہے نہ ہی اپنے چاہنے والوں کو۔ بیاء جی کی شخصیت کی کئی پرتیں ہیں جو اول تو ہر شخص پر کھلتی ہیں اور کچھ نہ کچھ کھلیں بھی تو مہ و سال لگ جاتے ہیں۔ نام‘ مسکراہٹ‘ قد و قامت‘ مشاغل سے لے کر مصوری اور شاعری سب کچھ پراسرار بلکہ الف لیلوی۔

اب چند اشعار عشق باطن سے پیش کرتا ہوں:

زندگی کا راز داں ہوتا نہیں

وقت سب پر مہرباں ہوتا نہیں

عشق باطن میں ازل سے ہے مقیم

ہر کسی پر یہ عیاں ہوتا نہیں

…………

وصل کو ہجر کرنے آئی ہوں

آج بے موت مرنے آئی ہوں

تیری دہلیت کا سفر گویا

پاؤں کانٹوں پہ دھرنے آئی ہوں

…………

دھوپ کو جب سہارا کر لوں گی

چھاؤں سے میں کنارا کر لوں گی

تیرے تھوڑے سے نفع کی خاطر

میں مکمل خسار یہ کر لوں گی

صاحبان زیست‘ کمال شاعری جو دل اور روح کو چھو لیتی ہے ۔ اور معلوم تک نہیں ہو پاتا!



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں