30

دہشت گردی اورسہولت کاری – ایکسپریس اردو

شمالی وزیرستان کے علاقے اسپن وام میں سیکیورٹی فورسز اور خوارج کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس کے دوران چھ خوارج ہلاک ہوگئے جب کہ شدید فائرنگ کے تبادلے کے دوران ایک لیفٹیننٹ کرنل سمیت چھ جوان شہید ہوگئے۔ دوسری جانب بلوچستان کے ضلع قلات میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں تین سیکیورٹی اہلکار شہید جب کہ چار زخمی ہوگئے۔

بلاشبہ قوم کو اپنے شہدا پر فخر ہے کہ جنھوں نے ملکی دفاع و سلامتی کی خاطر اپنی جانیں نچھاورکی ہیں۔گزشتہ تین برس سے ہم بالخصوص افغانستان سے پاکستان داخل ہونے والے دہشت گردوں کی وارداتوں کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں۔ دہشت گرد تنظیمیں اس قدر طاقتور ہوچکی ہیں کہ ملک کے مختلف شعبوں میں ان کے ہمدرد اور سہولت کار موجود ہیں۔ ملک کے دو صوبوں میں دہشت گردی کی وارداتیں ہونا بھی معنی خیز ہے۔

پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت طالبان دہشت گردوں کو سہولتیں فراہم کی جاتی رہیں جو اس پارٹی کے تخریبی، احتجاجی مظاہروں میں بھی شریک ہوتے رہے۔ افغان طالبان چونکہ افغانستان پر بغیر انتخابی اور جمہوری عمل کے قابض ہوئے ہیں، اسی لیے وہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان کے ذریعے کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ خیال درست ثابت ہوتا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کی واپسی کی وجہ سے وہ دہشت گرد عناصر متحرک ہوگئے ہیں جن کے ٹھکانے سرحد پار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی لہر کے تانے بانے افغانستان سے جا ملتے ہیں، لیکن یہ ماضی میں اپنائی گئی پالیسیوں کا خمیازہ ہے جو آج ہم بھگت رہے ہیں۔

افغانستان کا جنوبی حصہ جس کی سرحد پاکستان کے سابقہ فاٹا سے ملتی ہے، دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ جنت کا کام دے رہا ہے، جہاں وہ کسی روک ٹوک کے بغیر پوری آزادی کے ساتھ اپنے تربیتی مراکز چلا رہے ہیں، افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد ان تنظیموں کے لیے حالات سازگار ہوگئے ہیں۔ اسی لیے تحریک طالبان سے الگ ہونے والے گروپ اور کئی اس کی سسٹر آرگنائزیشنز متحد ہوچکی ہیں، ان گروپس کی جڑیں خیبر پختون خوا سمیت ملک کے دیگر حصوں تک پھیلی ہوئی ہیں، اپنے سہولت کاروں اور انفارمرز کی مدد سے ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ ٹی ٹی پی کی قیادت افغانستان میں منظر عام پر آتی رہتی ہے، گزشتہ دنوں بھی افغانستان میں ایک مدرسے کی تقریب میں ٹی ٹی پی قیادت نے شرکت کی تھی، ان کی تصاویر بھی میڈیا میں سامنے آچکی ہیں۔

درحقیقت پاکستان کے پالیسی ساز طویل عرصے تک افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے درمیان تعلقات کی گہرائی اور وسعت پذیری سے لاعلم رہے یا مصلحتاً اسے نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکا اور سوویت یونین کی جنگ اور بعد میں دہشت گردی کے خلاف جنگ نے وسط ایشیاء، جنوبی ایشیا اور ایران و مشرق وسطیٰ کے خطے کو کئی پہلوؤں سے متاثرکیا ہے۔ اس سارے خطے میں سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا رجحان بڑھ گیا، غیر قانونی کاروبار کو فروغ حاصل ہوا، جس کی وجہ سے بلیک اکانومی کا پھیلاؤ خطرناک حد تک بڑھ گیا، ریاستی ڈھانچے کو نقصان پہنچانے کے لیے ناجائز دولت کا بے دریغ استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے بیوروکریسی، نظام انصاف کی کارکردگی میں کمی آئی اور کرپشن بڑھی۔افغانستان کی غیرملکی تجارت کا انحصار پاکستان کی بندرگاہیں ہیں۔

افغانستان کی طالبان حکومت کو ٹی ٹی پی کی خاطر اتنا آگے نہیں جانا چاہیے کہ پاکستان تجارتی بندشوں پر مجبور ہوجائے۔ افغانستان میں ایسے گروپ موجود ہیں جن کی روزی روٹی دہشت گردی سے وابستہ ہے اور وہ اس وقت ہی آزادانہ کام کر سکتے ہیں جب کسی خطے میں حکومت کی رٹ نہ ہو اور ریاست کا کوئی مستحکم نظام انصاف نہ ہو اور نہ متحرک انتظامیہ ہو اور نہ ہی ایک تربیت یافتہ پروفیشنل آرمی موجود ہو، افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہ افغانستان کو لاقانونیت کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں، لہٰذا افغانستان کی عبوری طالبان حکومت کو پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی کرنے کے بجائے دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے تعاون کا ہاتھ بڑھانا چاہیے۔ سوشل میڈیا اٹھا کر دیکھ لیں اس پر موجود ہر افغان، پاکستان کے خلاف کتنا زہر بھرا پروپیگنڈا کر رہا ہوتا ہے، یہ لوگ افغانستان میں نہیں بلکہ پاکستان میں رہ کر یہ سب کر رہے ہوتے ہیں۔

یہ کام خیبر پختونخوا میں زور شور سے ہو رہا ہے۔ اس سب کے پیچھے منظم گروہ کام کر رہے ہیں جن کا فائدہ بدامنی میں ہے۔ جو اسمگلر صرف غیر قانونی سگریٹ افغانستان سے اسمگل کر کے اربوں روپے کماتے ہیں وہ اسلحہ، منشیات، گاڑیوں، گاڑیوں کے پرزے، الیکٹرانکس، معدنیات اور دیگر اشیاء کی اسمگلنگ سے کتنے کھرب روپے کماتے ہوں گے۔ یہی نہیں کہ یہ سب افغانستان سے آ رہا ہے۔ بلکہ جو یہاں سے وہاں اسمگلنگ ہو رہی ہے اس کی پشت پناہی بھی یہی لوگ کرتے ہیں۔ ان دہشت گردوں نے کبھی ان اسمگلنگ کے ٹرکوں اور اسمگلروں پر حملہ نہیں کیا ، کبھی ان کا راستہ نہیں روکا ہے، کبھی ان سے بھتہ وصول نہیں کیا ہے۔ یہ اسمگلر انتہائی طاقت ور ہوگئے ہیں۔ کون ہے جو چین کے ساتھ ہمارے معاملات خراب کر رہا ہے۔ کون ہے جو اس ملک میں ترقی نہیں ہونے دے رہا۔ کون ہے جو کراچی کی بندرگاہ سے طورخم تک ان کے لیے سہولت کاری کر رہا ہے۔

یہ جو سسٹم میں کرپٹ لوگ ہیں، یہی ان کے سہولت کار ہیں۔ ان کی طاقت ہیں ان کو کون ختم کرے گا؟ ان سہولت کاروں کی موجودگی میں لوگ بھی مرتے رہیں گے اور دہشت گردی بھی بڑھتی رہے گی۔ چین ایک علاقائی طاقت سے بڑھ کر عالمی سیاست کا طاقتور کھلاڑی بن چکا ہے۔ دُنیا سرد جنگ کے طاقت کے دو مراکز سے سمٹ کر ایک مرکز اور اب طاقت کے کئی مراکز کے تصور کو حقیقت میں بدلنے کے لیے پوری طرح تیار کھڑی ہے، قوموں کے درمیان معاشی اور علاقائی تعاون کے نت نئے امکانات ابھر رہے ہیں۔ چین کے ون بیلٹ ون روڈ میں سی پیک کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ سمندر سمٹ رہے ہیں۔ فاصلے کم ہو کر قوموں کو قریب لا رہے ہیں۔

بھارت پاکستان کو خطے میں بالادستی کے خواب کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے اور پاکستان بالخصوص بلوچستان میں نفرت کا کھیل جاری رکھنے کے لیے زخمی سانپ کی طرح تڑپ رہا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں افغانستان سے لائے جانے والے امریکی ساخت کے اسلحے کے استعمال کے ثبوت ایک بار پھر منظر عام پرآچکے ہیں۔ پینٹاگون کے مطابق امریکا نے افغان فوج کو کل 427,300 جنگی ہتھیار فراہم کیے، جس میں 300,000 انخلا کے وقت باقی رہ گئے، اس بنا پر خطے میں گزشتہ دو سالوں کے دوران دہشت گردی میں وسیع پیمانے پر اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پینٹاگون کے مطابق امریکا نے 2005 سے اگست 2021 کے درمیان افغان قومی دفاعی اور سیکیورٹی فورسز کو 18.6 ارب ڈالر کا سامان فراہم کیا۔ یہ تمام حقائق اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ افغان ریجیم نہ صرف ٹی ٹی پی کو مسلح کر رہی ہے بلکہ دیگر دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ راستہ بھی فراہم کر رہی ہے۔

بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ’’را‘‘ مختلف جی پی ایس کے ذریعے سی پیک CPECکے منصوبوں پر حملے کروا کے ان منصوبوں کی پیش رفت رکوانے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ افغانستان سے 23 دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں جن میں سے 17 دہشت گرد تنظیمیں صرف پاکستان میں دہشت گردی پھیلاتی ہیں۔ بلوچستان کا امن تباہ کرنے کے لیے پاکستان کا ازلی دشمن ملک بھارت فنڈنگ کرتا ہے، اس کے علاوہ مزاحمتی تحریکیں اور کالعدم تنظیمیں منشیات فروشی، بھتہ خوری اورلوگوں کو اغوا بھی کرتی ہیں کچھ لوگ مذموم مقاصد کے لیے خواتین اور سادہ لوح نوجوانوں کو ریاست کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔

پاکستان کی ہر حکومت نے افغانستان کا ساتھ دیا ہے‘ افغانستان میں غیرملکی فوجوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے افغان مجاہدین اور طالبان قیادت کا بھرپور ساتھ بھی دیا ہے، لاکھوں افغان باشندوں کو اپنے ملک میں پناہ بھی دیے رکھی ہے، ان حقائق کے باوجود افغانستان کا حکمران طبقہ، چاہے وہ مذہبی طبقہ ہو، چاہے لبرل اور ماڈریٹ طبقہ ہو یا اریسٹوکریٹس کا طبقہ ہو، ان کا پاکستان مخالف سوچ رکھنا ایک المیہ ہی کہلا سکتا ہے۔ ریاست بلاشبہ پوری طاقت سے دہشتگردی کے خلاف نبرد آزما ہے لیکن ہمیں سوچنا ہوگا کہ کمی کہاں باقی ہے؟ کیوں ہم اتنی قربانیوں کے باوجود اب تک اس لعنت سے چھٹکارا نہیں پاسکے۔ پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے لیکن افغانستان کو بھی یہ بات باور کرانے کی اشد ضرورت ہے کہ خیر سگالی کی یہ ٹریفک یک طرفہ نہیں چل سکتی۔

اقوام عالم کو بھی سفارتی سطح پر یہ بات اچھی طرح باور کرانی ہوگی کہ خطے میں امن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک افغانستان سلگ رہا ہے اور اس سے بھی زیادہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ افغانستان میں امن کا راستہ پاکستان سے ہوکر جاتا ہے۔ دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے ان کے سہولت کاروں پر آہنی ہاتھ ڈالنا ناگزیر ہوچکا ہے، اگر ریاستی منصوبہ بندی میں کوئی کمی یا کمزوری رہ گئی ہے تو اسے دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں