[ad_1]
آئی ایم ایف نے پاکستان کیلئے 7 ارب ڈالر کے ایکسٹنڈڈ فنڈ پروگرام کی منظوری کے بعد بیل آؤٹ پیکیج کے تحت ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کر دی ہے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے مشکل کاروباری ماحول، کمزور حکمرانی اور ریاست کا زیادہ عمل دخل سرمایہ کاری میں رکاوٹ بنتے ہیں جبکہ نئے قرض پروگرام کا مقصد میکرو اکنامک استحکام کی بحالی، سرکاری اداروں کی اصلاحات، عوامی خدمات کی فراہمی میں بہتری ہے۔’’ آئی ایم ایف پیکیج اور ملکی معیشت پر اس کے اثرات‘‘ کا جائزہ لینے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین معاشیات اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر قیس اسلم
(ماہر معاشیات)
پہلے معیشت دو طرح کی تھی، ایک امیر کی اور ایک غریب کی مگر اب اس کی تیسری قسم بھی موجود ہے جسے سرکار کہتے ہیں۔ یہ ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے اپنی زندگی بہترین گزار رہی ہے۔ آئی ایم ایف کا فلسفہ سادہ ہے کہ بجلی، تیل، گیس، سب مہنگا ہوگا، ٹیکس بھی لگیں گے، بتائیں کہ کیا ان حالات میں کاروبار کر سکتے ہیں؟ بیرونی سرمایہ کاری آئے گی؟ قسط کیسے واپس کریں گے؟ یہ سارے معاملات سرمایہ دارانہ معیشت کو بہتر کرنے کیلئے ہیں۔
آئی ایم ایف معیشت کو ریگولیٹ کرنے آرہا ہے مگر ہمارے طور طریقوں اور رویوں سے لگتا ہے کہ اس کی ’ری سٹرکچرنگ‘ کی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں روایتی معیشت، سندھ میں جاگیردارنہ معیشت جبکہ کراچی اور پنجاب میں سرمایہ دارانہ معیشت ہے۔ اب یہاں بھی مافیاز حکومتی پالیسیوں اور مارکیٹ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں ضروری ہے کہ حکومتی اخراجات اورحکومت کا سائز کم کیا جائے، مارکیٹ کو فری کر دیا جائے، ٹیکس اور مہنگائی میں کمی لائی جائے۔
ملکی معیشت کا پہیہ چلانے کیلئے عوام اور تاجر دوست پالیسیاں بنائی جائیں۔ خطے میں ہماری زمین سب سے کم پیداوار دے رہی ہے۔ ہمارے 40 فیصد چھوٹے کسان ہیں، 40 فیصد جاگیردار ہیں جبکہ 20 فیصد سرمایہ دار ہیں جو مزید پھنس گئے ہیں، آئی ایم ایف پیکیج کے بعد ان پر ٹیکس و دیگر بوجھ بڑھے گا۔ ہماری لینڈ ریفارمز نہیں ہیں، ہماری لیبر میں 60 فیصد نوجوان، 30 فیصد بچے اور 10 فیصد بوڑھے ہیں۔ہمیں ان نوجوانوں سے فائدہ اٹھانا ہے۔
نوجوانوں کو آئی ٹی و دیگر جدید کورسز کروائے جائیں، انہیں ایسی سکلز سے آراستہ کیا جائے جن کی عالمی ڈیمانڈ ہے، اس سے وہ نہ صرف اپنا روزگار کما سکیں گے بلکہ ملکی معاشی ترقی میں بھی اپنا حصہ ڈالیں گے۔ہماری زراعت میں ترقی ہوئی ہے، مینوفیکچرنگ میں نہیں، جی ڈی پی کا 52 فیصد سروس سیکٹر سے آتا ہے، ہماری زراعت پر ٹیکس نہیں، ہزاروں ایکڑ زمین والے چند ہزار کا ٹیکس دیتے ہیں،صرف بینکنگ سیکٹر اور آئی پی پیز کو مضبوط کرنے سے معیشت نہیں چل سکتی، ہمیں اپنے نظام اورسمت کو درست کرنا ہوگا۔
پروفیسر ڈاکٹر مبشر منور خان
(ڈین فیکلٹی آف کامرس، جامعہ پنجاب)
ہر طرف آئی ایم ایف پیکیج پر بات ہو رہی ہے، سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس کیوں گئے؟ ہم نے سیاست کیلئے آئی ایم ایف کو ’ولن ‘بنا دیا ہے حالانکہ وہ مدد کرتا ہے۔ ہر حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ آخری پروگرام ہوگا اور اب یہ 25و اں پروگرام ہے جس کی ہر طرف گونج ہے۔ آئی ایم ایف پیکیج فائدہ مند ہوتا ہے۔ ایک حکومت نے اسی کشمکش میں ایک سال گزار دیا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہیے یا نہیں اور جب تاخیر سے آئی ایم ایف کے پاس گئے تو وعدے پورے نہیں کیے۔ یہ درست نہیں تھا،ا س سے نقصان ہوا۔
موجودہ حکومت نے صورتحال کا درست ادراک کیا اور اپنی سیاسی ساکھ کو داؤ پر لگا کر آئی ایم ایف پروگرام لیا۔ پہلے 24 واں پروگرام لیا، اور اب نیا پروگرام ہے جس کی کافی اہمیت ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کی علامتی اہمیت زیادہ ہے۔ اس سے فارن ایکسچینج ریزرومیں اضافہ ہوتا ہے، اب ہمارے پاس 2 ماہ کے ذخائر موجود ہیں۔ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر اس سال جبکہ باقی اگلے تین برسوں میں ملیں گے۔ آئی ایم ایف سے پیکیج ملنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے ملک کی معاشی پالیسیوں پر اعتماد ہے اور پالیسیوں کو آئی ایم ایف کی تجاویز اور مطالبات کی روشنی میں بہتر بنایا گیا ہے۔
اس طرح مختلف ممالک اور عالمی ادارے بھی اعتماد کرنے لگتے ہیں جس سے سرمایہ کاری و دیگر راستے ہموار ہو جاتے ہیں۔ میرے نزدیک حالیہ آئی ایم ایف پیکیج میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کا کردار انتہائی اہم ہے، ان کی سپورٹ کے بغیر موجودہ حالات میں یہ ممکن نہیں تھا۔ پیکیج تو مل رہا ہے، سوال یہ ہے کہ یہ ہماری معیشت کیلئے بہتر ہوگا یا نہیں؟ میرے نزدیک اس سے فائدہ حاصل ہونے کا انحصار اس کے استعمال پر ہے۔ اگر ہم نے آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کیا، معاشی اصلاحات لائے، اپنا نظام بہتر بنایا تو یقینا فائدہ ہوگا۔ اس وقت ہماری جی ڈی پی کا 20 فیصد حکومتی اخراجات میں خرچ ہوتا ہے جو بہت بڑی رقم ہے۔ ایک طرف ہم قرض لے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف پنجاب میں 60 کروڑ روپے کی نئی گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں، اس سے پہلے نگران دور حکومت میں اسسٹنٹ کمشنرز کو لگژری گاڑیاں خرید کر دی گئیں تھی۔
یہ کمشنرز اور بیوروکریٹس تو ہمارا ہی حصہ ہیں، اسی معاشرے سے اوپر آئے ہیں تو ان کیلئے شاہانہ لائف سٹائل کیوں؟ انہیں بھی علم ہے کہ ملک کے حالات کیا ہیں۔ ہمارے سرکاری اداروں میں ضرورت سے زیادہ ملازمین ہیں، ڈرائیورز، سٹینوگرافر، چپراسی و دیگر عملہ ہے، جو میرے نزدیک اداروں پر اضافی مالی بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ ہر حکومت مسائل حل کرنے کی باتیں تو کرتی ہے لیکن پھر مسائل کو قالین کے نیچے دبا دیا جاتا ہے۔ جب تک حکومت اصل مسائل کو جڑ سے ختم نہیں کرے گی، مشکل فیصلے نہیں لے گی تب تک مسائل بڑھتے جائیں گے۔
میرے نزدیک حالات کے پیش نظر حکومت کو اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی۔ حکومتی اخراجات میں کمی لانا ہوگی، اس کیلئے حجم بھی کم کیا جائے۔ افسران کو نارمل انسان بنایا جائے، عام آدمی کی طرح زندگی گزارنے کی عادت ڈالی جائے۔ ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ خسارے میں جانے والے اداروں کا ہے۔ یہ ملکی معیشت پر اربوں روپے کا بوجھ ڈالے ہوئے ہیں، ایسے اداروں کی نجکاری کرنا ہوگی۔ اگرچہ یہ سیاسی طور پر غیر مقبول فیصلے ہیں لیکن اس کے بغیر ملک پٹری پر نہیں چڑھ سکتا۔ ہمیں سسٹم کی اوورہالنگ کی ضرورت ہے۔
حکومت کا سائز چھوٹا ہونا چاہیے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ ہم 6 وزارتوں کو ضم کرنے جا رہے ہیں، آئی پی پیز کے ساتھ بھی دوبارہ بات چیت ہو رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس پر کتنا کام ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ہر معاملے میں تاخیر معمول بن چکا ہے لیکن اب ہمارے پاس مزید تاخیر کا وقت نہیں ہے۔ اس وقت حالات سنگین اور غیر معمولی ہیں جن میں غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے۔ ہمیں قومیت اور حب الوطنی کے جذبے کو فروغ دینا ہے، اسی کے تحت آگے بڑھنا ہے۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ نجی شعبہ معاشی استحکام لا سکتا ہے لہٰذا کاروبار دوست پالیسیاں بنانا ہونگی۔ آئی ٹی انڈسٹری میں بہت پوٹینشل ہے، اسے فروغ دیکر ملک کا قرض اتارا جاسکتا ہے، اس پر کام کرنا ہوگا۔
راجہ حسن اختر
(نمائندہ بزنس کمیونٹی)
آئی ایم ایف تین سال کیلئے 5 فیصد شرح سود پر 7 ارب ڈالر کا پیکیج دے رہا ہے۔ میرے نزدیک یہ عارضی آکسیجن ہے، اس سے لانگ ٹرم فائدہ نظر نہیں آرہا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس کی شرائط کیا ہیں؟ کیا یہ 7 ارب ڈالر ان شرائط کے ہوتے ہیں ہوئے ہماری معیشت کو بہتر کر سکیں گے؟ آئی ایم ایف شرائط میں سب سے بڑی اور اہم شرط قومی فنانس کمیشن کے حوالے سے ہے، کمیشن کو ہٹ کیا گیا ہے ۔
پہلے وفاق آئی ایم ایف سے ڈیل کرتی تھی، اب پہلی مرتبہ وفاق کے ساتھ ساتھ صوبوں کو بھی انگیج کیا گیا ہے۔تعلیم، صحت، انکم سپورٹ پروگرام و دیگر منصوبوں سے عوام کو ریلیف ملتا تھا۔ صوبے بھی عوام کو سبسڈی دیتے تھے، اب آئی ایم ایف نے صوبوں کو یہ ریلیف دینے سے منع کر دیا ہے۔ میرے نزدیک اس پیکیج سے عام آدمی، تجارت، کاروبار، انڈسٹری، ایکسپورٹ، ہر چیز متاثر ہوگی، اب نئے ٹیکس لگیں گے اور بجلی و دیگر اشیاء مزید مہنگی ہوں گی جس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا، ایسے حالات میں ہماری صنعت کس طرح عالمی مارکیٹ کا مقابلہ کر سکتی ہے۔
حکومت کو شرائط تسلیم کرتے ہوئے عام آدمی کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ ٹریڈر 50 جبکہ تنخواہ دار افراد 40 فیصد ٹیکس دے رہے ہیں۔ صنعت بند ہوری ہے جبکہ تنخواہ دار طبقے کے پاس ضروریات زندگی کے پیسے نہیں، وہ ٹیکس کیسے دے گا۔ ہمارا بجٹ خسارہ ہے۔ خزانے میں 9 ارب ہیں وہ چین، متحدہ عرب امارات و دیگر کے ہیں۔ اب یہ آئی ایم ایف کا پیکیج ہے، یہ سب شارٹ ٹرم اقدامات ہیں،ا ن سے کبھی بھی ملک میں استحکام نہیں آسکتا۔ اگر ہم ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں تو خودانحصاری کی طرف بڑھنا ہوگا۔
اگر ایسا نہ کیا تو آئی ایم ایف پیکیج ہمیں مزید دلدل میں دھکیل دے گا۔ بدقسمتی سے ہماری انڈسٹری آخری سانسیں لے رہی ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، اگر حالات ایسے ہی جاری رہے تو امن و امان کی صورتحال پیدا ہوجائے گی لہٰذا سنگین مسائل سے بچنے اور ہمیں ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے سب کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ سب مل کر بیٹھیں اور ملک سے سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ہو، اسی سے ہی معاشی ترقی جڑی ہے۔ حکومت زرعی شعبے پر ٹیکس لگا رہی ہے۔
کاشتکار کو تو پہلے ہی اس کی فصل کا صحیح معاوضہ نہیں ملتا۔ مہنگی کھاد، کیڑے مار ادویات و دیگر سے کاشتکار پرپہلے ہی بوجھ بڑھ گیا ہے، مزید ٹیکس سے کاشکار ختم ہوجائے گا۔بدقسمتی سے حکومت اپنے اخراجات کم کرنے پر راضی نہیں، سرکاری دفاتر میں ایک سے بڑھ کر ایک سہولت حاصل ہے جبکہ عام آدمی سے قربانی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس طرح حالات کبھی بھی ٹھیک نہیں ہونگے۔ مقتدر قوتوں کو چاہیے کہ وہ باہم مشاورت سے ملک کو آگے بڑھانے کی پالیسی بنائیں۔ ایکسپورٹ، کاٹیج انڈسٹری اور زراعت کو فروغ دینے سے ملک میں معاشی استحکام لایا جاسکتا ہے، اس پر کام کیا جائے۔
[ad_2]
Source link