42

گمشدگی کی کہانی – ایکسپریس اردو

[ad_1]

کے پی کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور ایک مرتبہ پھر کئی گھنٹے غائب رہنے کے بعد منظر عام پر آگئے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بار بھی غائب رہنے کی جو کہانی انھوں نے سنائی ہے اس پر کسی کو یقین نہیں آرہا ۔ اس سے پہلے بھی وہ سنگجانی کے جلسہ کے اگلے دن آٹھ گھنٹے غائب رہے تھے ۔ اور آٹھ گھنٹے غائب رہنے کے بعد وہ یہ بتانے سے قاصر تھے کہ وہ کہاں تھے، کس کے پاس تھے اور کیوں کسی کے رابطے میں نہیں تھے۔ اب بھی وہ چوبیس گھنٹے سے زائد غائب رہے ہیں۔ اچانک کے پی اسمبلی کے اجلاس میں پہنچ گئے اور انھوں نے کہا کہ وہ کہیں چھپے ہوئے تھے ، گرفتار نہیں تھے اور اب کٹھن راستوں کا سفر طے کرتے ہوئے کے پی اسمبلی پہنچ گئے ہیں۔ نہ پہلے ان کی بات کوئی ماننے کے لیے تیار تھا اور نہ ہی اب کوئی ان کی بات ماننے کے لیے تیار ہے۔

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ پشاور سے ڈی چوک کے لیے جلوس لے کر نکلنے والے گنڈا پور نے پنجاب حکومت اور اسلام آباد حکومت کی تمام رکاوٹیں عبور کر لیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت ان کو روکنے میں مکمل نا کام رہیں۔ انھوں نے مزاحمت کی ایسی حکمت عملی بنائی کہ دونوں حکومتوں کو شکست دے دی۔ آنسو گیس اور کنٹینر سمیت کوئی رکاوٹ ان کو نہیں روک سکی۔ وہ آگے بڑھتے گئے اور اسلام آباد میں داخل ہو گئے۔ ایک طرف وفاقی حکومت کا دعویٰ تھا کہ کسی کو ریڈ زون میں نہیں آنے دیں گے۔

دوسری طرف گنڈا پورکی پیش قدمی تھی۔ لیکن کسی کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ انھیں ڈی چوک سے پہلے چائنہ چوک سے یک دم کیا ہوا کہ انھوں نے جلوس کو چھوڑا اور وہ کے پی ہاؤس روانہ ہو گئے۔ جب وہ ڈی چوک کے اتنے قریب آگئے تھے تو انھیں ڈی چوک پہنچنے تک جلوس کو نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔ وہ منزل کے قریب تھے۔ کیوں انھوں نے جلوس کو چھوڑا اور اس کے بعد وفاقی حکومت جو جنگ ہار رہی تھی جیت گئی۔ ان کے، کے پی ہاؤس جانے سے وفاقی حکومت کو ہاری ہوئی جنگ جیتنے کا موقع مل گیا۔

غائب ہونے کے بعد منظر عام پر آنے کے بعد انھوں نے کے پی اسمبلی میں جو تقریر کی ہے اس میں انھوں نے اس سوال کا جواب نہیں دیا۔ تحریک انصاف میں ان کے حامی یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ وہ شاور لینے یعنی نہانے کے لیے کے پی ہاؤس گئے۔ وہ دو دن سے جلوس میں تھے اس لیے کپڑے بدلنا اور شاور لینا چاہتے تھے۔ میں یہ نہیں مانتا۔ وہ جس کنٹینر میں سوار تھے، اس میں باتھ روم موجود تھا، نہانے کا انتظام بھی موجود تھا، کپڑے بدلنے کا نظام بھی موجود تھا۔

گو کہ اس حوالے سے گنڈا پور کا باضابطہ موقف سامنے نہیں آیا۔ لیکن جو موقف ان کے حامی دے رہے ہیں وہ بھی درست نہیں۔ جب انھیں اندازہ تھا کہ وہ وفاقی حکومت کو شکست دیتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں تو جلوس میں شامل لوگ ہی ان کا دفاع تھے۔ کیا انھیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کو اکیلے دیکھ کر وفاقی حکومت ان پر حملہ کرے گی۔ انھیں گرفتار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس لیے انھوں نے جلوس کیوں چھوڑا۔ ایک ایسا سوال ہے جس کے جواب میں سب کہانی ہے۔ لیکن چونکہ وہ اس سوال کا جواب نہیں دے رہے تو کہانی بھی ادھوری ہے۔

گنڈ اپور کا کہنا ہے کہ جب ان کی تلاش میں کے پی ہاؤس میں وفاقی حکومت کی پولیس اور رینجرز نے چھاپہ مارا تو وہ کے پی ہاؤس میں ہی تھے۔ وہ وہیں چھپے رہے اور اسلام آباد کی پولیس اور رینجرز کو نہیں ملے۔ یہ بات مانی نہیں جا سکتی۔ کے پی ہاؤس کوئی ایسی خفیہ جگہ نہیں جہاں کے بارے میں کسی کو معلوم نہ ہو۔ جب ان کے اسٹاف کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان کی گاڑیوں کو ناکارہ کر دیا گیا تو ان کو کیوں گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ بات سمجھ نہیں آئی۔ وہ باتھ روم میں چھپ گئے، اسٹور میں چھپ گئے، کسی خفیہ کمرے میں چھپ گئے۔ پرانے زمانے میں بادشاہ محل میں ایسے کمرے بناتے تھے جو خفیہ ہوتے اور اگر دشمن کی فوج آجائے تو وہ اس میں چھپ جاتے اور کافی عرصہ تک چھپے رہتے۔ لیکن یہ ممکن نہیں کہ کے پی ہاؤس میں ایسا کوئی کمرہ تھا۔ جہاں گنڈا پور چھپے ہوئے تھے۔ وہ کہاں تھے۔ ان کا جواب حقائق سے منافی ہے اور قابل یقین نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کی جیب میں ایک روپیہ نہیں تھا۔ وہ بڑی مشکل سے پشاور کے پی اسمبلی پہنچے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ بارہ اضلاع کا مشکل سفر کر کے وہ پشاور کے پی اسمبلی پہنچے ہیں۔ یہ مانا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد میں ان کی گرفتاری کی کوشش کی جا رہی تھی۔ لیکن وہ اسلام آباد سے کیسے نکلے۔ جب وہ کہتے ہیں وہ رات اسلام آباد میں ہی تھے۔ گرفتار بھی نہیں تھے تو دن کو جب وہ پشاور کے لیے نکلے تو انھیں پشاور میں پہنچنے کے لیے اتنا وقت کیوں لگ گیا۔ انھوں نے کونسا راستہ اختیار کیا۔ وہ کوئی ایسے اشتہاری نہیں تھے کہ بھیس بدل کر سفر کر رہے تھے۔ وہ وزیر اعلیٰ ہیں۔ جونہی کے پی کی حدود شروع ہوئی ۔ ان کی حکمرانی کا علاقہ شروع ہو گیا۔ انھوں نے کیوں اپنے عملے اور دفتر کو آگاہ نہیں کیا۔ وہ رات تک کہاں چھپے رہے۔کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ انھوں نے عملی طور پر دو راتوں کا حساب دینا ہے۔ لیکن وہ کچھ بات نہیں کر رہے۔ وہ کہیں سے بھی ایک کال کرتے تو گاڑیاں پہنچ جاتیں۔

دوسری طرف حکومت پہلے دن سے کہہ رہی ہے کہ ہم نے گرفتار نہیں کیا۔ لیکن سب کو شک تھا کہ گنڈا پور انھی کے پاس ہیں۔ کوئی وفاقی حکومت کا یہ موقف ماننے کے لیے تیار نہیں ۔ لیکن اب تو گنڈا پور بھی وہی بات کر رہے ہیں جو وفاقی حکومت کر رہی تھی۔ انھوں نے وفاقی حکومت کی تائید کر دی ہے۔ دونوں ایک ہی بات کر رہے ہیں۔ دونوں ایک ہی کہانی اور ایک ہی اسکرپٹ سنا رہے ہیں۔ اور مجھ سمیت کوئی بھی دونوں کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں۔

ایک بات نہایت معنی خیز ہے۔ اگر ہم تحریک انصاف کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو دیکھیں تو وہاں تحریک انصاف کی یہی پالیسی بتائی جا رہی ہے کہ احتجاج ختم نہیں کیا گیا۔ لوگوں کو ابھی بھی ڈی چوک پہنچنے کا کہا جا رہا ہے۔ جب تک میں یہ تحریر لکھ رہاہوں تب تک بھی تحریک انصاف کی طرف سے آفیشل طور پر احتجاج ختم کرنے کا نہیں کہا گیا۔ لیکن گنڈا پور نے منظر عام پر آنے کے بعد احتجاج ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ انھوں نے کہا ہم نے ڈی چوک تک پہنچنا تھا، ہم پہنچ گئے، ہم کامیاب ہو گئے۔ یعنی ان کے مطابق ہدف حاصل ہوگیا، اب مزید احتجاج کی کوئی ضرورت نہیں۔ انھوں نے دوبارہ ڈی چوک جانے کا نہ تو کوئی عندیہ دیا اور نہ ہی ایسا کوئی اعلان کیا۔ یقیناً ان کی تقریر وفاقی حکومت کے لیے اس لحاظ سے خوش آیند تھی۔

اطلاعات تو یہی تھیں کہ ڈی چوک پہنچ کر دھرنا دینا تھا۔ اگر گنڈا پور سار ے قافلے کے ساتھ ڈی چوک پہنچ جاتے تو دھرناہوتا۔ لیکن چونکہ وہ ایک چوک پہلے قافلے سے علیحدہ ہو گئے تو دھرنا نہیں ہو سکا۔ یہ تحریک انصاف کی بڑی ناکامی ہے۔ وہ منزل کے قریب پہنچ کر ہار گئے ہیں۔ لیکن کیا وہ گنڈاپور کی وجہ سے ہارے ہیں۔ آج گنڈا پور تحریک انصاف کا ہیرو ہے یا ولن۔ کچھ دوست ان کو ولن کہہ رہے ہیں۔ کچھ دوستوں کی رائے میں انھوں نے اپنے حصہ کا کام کیا۔ باقی سب کہاں تھے۔ انھوں نے کیا کیا ہے۔ اس کا بھی حساب ہونا چاہیے۔



[ad_2]

Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں