[ad_1]
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور پی ٹی آئی کے صدر چوہدری پرویز الٰہی قنے کہا ہے کہ سیاست کی کنجی اب عمران خان کے ہاتھ میں ہے۔ موجودہ عدم سیاسی استحکام پی ٹی آئی کا مینڈیٹ تسلیم نہ کیے جانے کا نتیجہ ہے، عوام بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔
پرویز الٰہی جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیر اعلیٰ پنجاب تھے جو جنرل پرویز کی تعریف کرتے ہوئے انھیں دس بار وردی میں صدر منتخب کرانے کے بیان دیتے تھے۔ چوہدری صاحب جب نواز شریف کی حکومت میں پنجاب اسمبلی کے اسپیکر تھے تو نواز شریف کی گجرات آمد پر نہ صرف چوہدریوں نے ان کا زبردست استقبال کرایا تھا اور ان کی گاڑی کندھوں پر اٹھوائی تھی اور بعد میں پرویز الٰہی کے وزیر اعظم نواز شریف سے سیاسی اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ شریف فیملی کی سیاسی مخالفت میں پہلے جنرل پرویز مشرف نے اور بعد میں عمران خان نے انھیں وزیر اعلیٰ بنوایا تھا۔
پرویز الٰہی نے نو سال جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے زیر سایہ سیاست کی ۔ بعد ازاں عمران خان نے انھیں پہلے پنجاب اسمبلی کا اسپیکر اور بعد میں وزیر اعلیٰ بنایا تھا جس کے بعد سے چوہدری پرویز الٰہی پی ٹی آئی کی سیاست کا حصہ بن گئے تھے جب کہ عمران خان کی سیاست کو عروج 2011 میں بعض قوتوں نے دیا تھا اور انھیں اقتدار میں لائے تھے مگر اپنی آئینی برطرفی کے بعد عمران خان چاہتے تھے کہ وہ قوتیں ان پر دوبارہ مہربان ہو جائیں اور سیاست میں ان کی حمایت جاری رکھیں جس کے عوض عمران خان ان کے مفادات پورے کرنے کے لیے راضی تھے۔
جنرل ایوب خان کے دور میں جنگ ستمبر کے بعد ایوب حکومت میں سالوں وفاقی وزیر رہنے والے ان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو تھے جب کہ اکتوبر 1958 میں جنرل ایوب خان کو مارشل لا لگانے کا موقعہ سیاستدانوں کے باہمی اختلافات اور دو گورنر جنرلوں غلام محمد اور اسکندر مرزا کی ہوس اقتدار کے باعث ملا تھا یہ دونوں بیورو کریٹ تھے جنھوں نے سیاسی حکومتیں چلنے ہی نہیں دی تھیں اور مختصر عرصے میں وزیر اعظم تبدیل کیے جاتے تھے اور جو سیاسی رہنما ان کے اشاروں پر چلتا تھا اسے وزیر اعظم بنا کر بے اختیار رکھا جاتا تھا۔ اسی وقت 1956 کا آئین بھی منظور ہوا تھا اور غلام محمد کے بعد اسکندر مرزا بااختیار صدر بن گئے تھے جس پر ملک میں سیاسی انتشار اسی طرح تھا جیسے آج ہے۔1971 میں ملک دولخت ہونے کی وجہ سے سیاستدانوں کی ہوس اقتدار تھی۔
شیخ مجیب نے مشرقی پاکستان میں اور بھٹو نے پنجاب و سندھ میں واضح اکثریت حاصل کی تھی مگر جنرل یحییٰ صدر رہنا چاہتے تھے مگر اس وقت ان کے ہاتھ میں سیاست کی کنجی نہیں تھی، اقتدار کی کنجی شیخ مجیب کے ہاتھ میں تھی جس نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کی سازش بھارت سے مل کر بنائی ہوئی تھی جس پر بھارتی مداخلت اور جنگ کے نتیجے میں بنگلہ دیش بن گیا اور شکست کے باعث یحییٰ خان کو فارغ کرکے زیڈ اے بھٹو کو وزیر اعظم بنایا گیا تھا اور 1977 میں بھٹو صاحب جنرل ضیا کے ہاتھوں اقتدار سے محروم کر دیے گئے اور اقتدار اور سیاست کی کنجی جنرل ضیا کے ہاتھ میں آئی اور آٹھ سال بعد انھوں نے غیر جماعتی الیکشن کرایا اور محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنایا تھا اور پنجاب سے نواز شریف پی پی کے مقابلے میں وزیر اعلیٰ بنے تھے۔
تین آمروں نے مسلسل سب سے زیادہ حکومت کی اور پہلی بار جنرل پرویز نے (ق) لیگ کی اسمبلی کی مدت پوری کرائی۔ سیاست میں بالاتروں کی سب سے زیادہ خوشامد عمران خان نے کی ۔ بالاتروں نے عمران خان پر اعتماد کر کے انھیں وزیر اعظم بنوایا تھا۔چوہدری پرویز الٰہی جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیر اعلیٰ بنے تھے اور 2008 میں ان کی صدارت میں وزارت عظمیٰ کے متمنی تھے ۔ کسی حکمران کے پاس سیاست کی کنجی نہیں تھی۔ سیاست کی کنجی ہمیشہ بالاتروں کے ہاتھ میں رہی۔ سیاست اور اڈیالہ کی کنجی اب بھی کہیں اور ہے۔
[ad_2]
Source link