[ad_1]
دل کی بیماری خواتین میں بھی موت کی سب سے بڑی وجہ ہے، جو کسی بھی دوسری وجہ سے زیادہ جان لیتی ہے۔
وہ بیماریاں اور عوامل جو عورتوں پر زیادہ اثر کرتی ہیں، وہ دیر سے طبی امداد ملنا ہے، کیوں کہ خواتین ان علامات کو پہچان نہیں پاتیں یا پھر وہ علامات مختلف ہوتی ہیں، جو عام علامات ہیں، جو کہ ’دل کے دورے‘ کی ہوسکتی ہیں، جیسے سینے میں یا بازو میں درد ہونا اور اس کی لہر جبڑے کی طرف جانا۔۔۔ کہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر کوئی خاتون یہ خدشہ ظاہر بھی کرے، تو ان کے اردگرد لوگ اسے نظرانداز کرتے ہیں، یہاں تک کہ ہنگامی صورت حال میں بھی وہ اتنی مستعدی نہیں دکھاتے۔ ایسے بہت سے عوامل ہیں، جنھیں ملحوظ رکھاجائے تو خطرات کم ہوسکتے ہیں۔
خواتین میں کچھ عام بیماریوں میں دل کے ’والز‘ بند ہونا بھی ہیں۔ یہ آج کل نوجوان خواتین میں بھی اہم وجۂ موت ہے۔ خواتین کی زندگی کے مختلف مراحل میں ہارمونل تبدیلیاں ان کے دل پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں، جس میں دورانِ حمل دل کے پٹھوں کی کمزوری بھی ایک جان لیوا عارضہ ہے، جس کو ’پریگننسی پیری پارٹم کارڈیو مایوپیتھی‘ کہتے ہیں، اگر کسی کو پہلی دفعہ ہو اور وہ مکمل طور پر صحت مند نہیں ہوا ہو تو یہ خطرناک ہوسکتی ہے، ایک دفعہ ہونے کے بعد دوبارہ ہونے کے خدشات زیادہ ہوتے ہیں، جس کی وجہہ سے پھیپھڑوں میں پانی جانا، سانس پھولنا، دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی کی شکایت ہوتی ہے۔
’کارڈیو جینک شاک‘ میں بلیڈ پریشر خطرناک کی حد تک کم ہو جاتا ہے، مگر اس صورت حال میں مریض کے دل کی فعالیت اہمیت رکھتی ہے کہ یہ کیسی اور کتنی ہے؟
نیند کی کئی اقسام ہوتی ہیں، جس میں ہلکی درمیانی اور گہری نیند شامل ہے اور اسی کے حساب سے ہماری جسم کے اندر ہارمون خارج ہوتے ہیں، جس سے جسم کو آرام ملتا ہے اور ہمارے جسم کے اعضا اپنی بحالی کاکام سرانجام دیتے ہیں۔آپ کا جسم حالت سکون میں آجاتا ہے، اس میں ہماری پریشانی کو عمل دخل ہوتا ہے، جس سے ہمارا اسڑیس بڑھ جاتا ہے، نتیجتاً مختلف ذہنی و جسمانی عواض بڑھ جاتے ہیں، جن میں سر فہرست دل کی بیماریاں ہیں، اس کے علاوہ ڈیمنشایا انزائمر ہوسکتا ہے اور دل پر یہ سب سے زیادہ اثرانداز ہوتا ہے۔
خواتین اور بزرگوں میں دل کے دورے کی علامات مردوں سے کچھ مختلف ہوتی ہیں، دل کی دورے کی صورت میں سینے میں جلن ہوتی ہے، تھکن کا احساس ہوتا ہے، سانس لینے میں دقت ہونے لگتی ہے اور متلی جیسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ خواتین کو مردوں کی نسبت دل کے دورے کی ہلکی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ مردوں میں دل کے دورے کی علامات میں سینے میں تکلیف، جکڑن، گھبراہٹ اور بازوئوں، کمر، جبڑوں اور گردن میں تکلیف وغیرہ شامل ہیں۔ خواتین کو صرف سانس لینے میں دقت ہوتی ہے، غنودگی بھی طاری ہو سکتی ہے، اس کے علاوہ سینے میں معمولی تکلیف محسوس ہو سکتی ہے۔ خواتین میں دل کے دورے کی علامات جُدا ہونے کا سبب یہ خیال جاتا ہے کہ ان میں مردوں سے مختلف شریانوں میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ خواتین میں چھوٹی شریانوں میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے، جب کہ مردوں کی عموماً بڑی یا مرکزی شریانوں میں دوران خون میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
خواتین اور بزرگوں کو اکثر اسپتال لانے میں دیر ہوجاتی ہے اور طبی امداد دیر سے ملتی ہے پہلے خواتین میں دل کے دورے کی وجہہ سے شرح اموات زیادہ تھی مگر اب اسمیں کچھ کمی واقع ہوئی ہے۔
نوجوان خواتین میں اگر آپ ذہنی پریشانی کا زیادہ شکار ہیں، آپ کے خاندان میں دل کی بیماری پائی جاتی ہے، تو آپ کو خیال کرلینا چاہیے۔
’رومیٹک ہارٹ ڈیزیز‘ بھی دل کی ایک عام بیماری ہے، جس کا تعلق بچپن میں ہونے والی گلے کی بیماری سے ہے، جس کا ٹھیک طرح علاج نہیں کیا جائے، تو پھر وہ دل کے مختلف حصوں کو متاثر کرنے لگتی ہے، یہ ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک کی بیماری ہے۔ جیسے بچپن میں کسی وقت بچوں کو بخار، جوڑوں میں درد ہوا اور وہ ختم ہو گیا۔ اس کے بعد انھوں نے اس کو چھوڑ دیا، پھر 10، 15 سال بعد اس کے اثرات دل پر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کی علامات یہ ہوتی ہیں، عموماً کہ سانس لینے میں دشواری ہوگئی دل کی دھڑکن بہت تیز چل رہی ہوگی، سانس گھٹنے لگے گا، پائوں میں سوجن آجائے گی، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ دل کمزور ہونے لگتا ہے۔
ایسے ہی خواتین کو حمل کے آخری مہینوں سے زچگی کے چھے ماہ تک کچھ قلبی مسائل درپیش ہوسکتے ہیں۔ اس وقت دل کے پٹھے کمزور ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ یہ بہت خطرناک اور جان لیوا بیماری ہے، ہمارے ملک میں بھی کافی عام ہے، بہت سی خواتین میں بروقت تشخیض نہیں ہو پاتی، اس کے لاحق ہونے کے بعد زچگی میں ماں کی جان کو شدید خطرہ ہوتا ہے، اس لیے اس سے روک دیا جاتا ہے۔ ایک دفعہ اگر آپ کا دل متاثر ہوجاتا ہے، تو پھر یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ پہلے جیسا کام کر سکے، دس فی صد میں مکمل صحت یابی ہوتی ہے، اور وہ خواتین نارمل زندگی گزار سکتی ہیں، ورنہ اکثر خواتین کو ساری زندگی ادویات جاری رکھنی پڑتی ہیں۔
جن کو زیادہ غصہ آتاہے ان کا غصہ کرنے کے بعد دل کا دورہ پڑنے کی امکانات یہ بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ بالکل ایک حقیقت ہے کہ جن کو زیادہ غصہ آتا ہے، ایسی شخصیت کے حامل افراد دل کی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ دل کا دورہ پڑنے کی عمر اب چالیس سے کم ہوکر 25اور 20 سال کی عمرتک ہوگئی ہے، آپ سگریٹ نوشی کرنے والے فرد سے بھی دور رہیں، کیوں کہ دونوں صورتوں میں آپ اس کے مضر اثرات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ویسے اب خواتین میں بھی سگریٹ نوشی بڑھ رہی ہے، کچھ خواتین فیشن کے طور پر بھی سگریٹ نوشی کرتی ہیں۔
خواتین کو اپنے دل کی بہتر صحت کے لیے محتاط رہنا چاہیے، کیوں کہ خواتین اور بزرگوں میں دل کے دورے کی علامات روایتی نہیں ہوتیں، خواتین میں دل کی بیماری سرطان کے بعد موت کی دوسری بڑی وجہ ہے۔ تو آپ کو اپنے اپ کو خود بچانا ہے، اس سے اگر آپ کے خاندان میں آپ کے والدین میں یا آپ کے بہن بھائیوں میں کسی کو 50 سال کی عمر سے پہلے ’ہارٹ اٹیک‘ ہوا تھا، تو آپ کو دل کے عوارض کے زیادہ خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
کوئی دبلی خاتون اگر دل کے دورے کی علامات کا خدشہ ظاہر کر رہی ہے، یا ان علامات کی شکایت کر رہی ہے، تو اسے دبلا ہونے کی بنا پر یہ توجہ نہیں دی جائے گی کہ یہ دل کی تکلیف بھی ہوسکتی ہے، جب کہ یہ رویہ درست نہیں ہے، احتیاط کرنی چاہیے اور فوری طور پر ضروری جانچ کرلینی چاہیے، بہ صورت دیگر نقصان کا احتمال رہتا ہے۔ جب بھی کوئی دل کے مقام پر شدید درد یا دبائو کی شکایت کرے، تو دل کے حوالے سے ٹیسٹ کرانا ضروری ہے، اسے خود سے کوئی عام درد سمجھ کر نظرانداز نہ کیجیے۔
ایک خاتون اپنے دل کے دورے کی تفصیلات کے بارے میں بتاتی ہیں کہ مجھے مائیو کارڈیل انفیکشن ہوا تھا، اس میں آپ کے دل میں کوئی شریان ’بلاک‘ ہوتی ہیں، وہ کلیئر ہوتی ہیں، تو اپ کے خون کی جانچ سے پتا چل جاتا ہے کہ اپ کو دل کا دورہ پڑا ہے
ایسے امراض کی وجہ جینیاتی کے ساتھ طرزِ زندگی بھی ہے، جو خواتین ورزش نہیں کرتیں چاہے وزن زیادہ نہ ہو، اس کے باوجود فعال زندگی ضروری ہے۔ یہی نہیں سونے جاگنے کا طریق متاثر ہو تب بھی دل متاثر ہونے لگتا ہے۔
بچوں کی پیدائش کے بعد جو ’پوسٹ پارٹم ڈپریشن‘ ہوتا ہے، اس کو سمجھا ہی نہیں جاتا بلکہ بہت سے گھروں میں اسے سستی اور بعض وقت تو بے رحمی سے’بہانے‘ قرار دے دیے جاتے ہیں، جب کہ اس مرحلے پر ماں کی ہارمون کی تبدیلیوں کا خیال نہ کیا جائے، تو مسائل پیچیدہ ہونے لگتے ہیں۔ اگر یہ نگہ داشت نہ ہو تو اس کے نتیجے میں ڈپریشن اور ڈپریشن سے دل کے مسائل ہونے لگتے ہیں۔ ایک اور بات پوسٹ پارٹم ڈپریشن سے متعلق یہ ہوتی ہے کہ جو آپ کے پچھلے ’ٹراماز‘ ہوتے ہیں، وہ بھی زچگی کے دوران شدید ہونے لگتے ہیں، کیوں کہ ہارمونل تبدیلیاں اتنی بلند ہوتی ہیں کہ اپ کو پچھلی اور پرانی باتیں اور غم یا حادثہ زیادہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ پوسٹ پارٹم ڈپریشن میں اس لیے اس کے لیے ’نفسیاتی مدد‘ کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔
’ٹراما‘ کے بعد سائیکولوجیکل ہیلپ کو بھی ہمارے ہاں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی، یعنی کہ اگر کسی کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے، اس کی بھی صرف طبی امداد ہوتی ہے اور کوئی کائونسلنگ نہیں ہوتی کہ مریض بیماری یا عارضے کا سن کر ہی آدھا ہوجائے یا اس صدمے کو ذہن پر سوار کر کے اپنی طبیعت اور خراب کرلے۔
[ad_2]
Source link