30

صنف نہیں، سوچ کے خلاف جنگ

آج کل پرانے وقتوں کے رسم ورواج کو دقیانوسی تصور کیا جاتا ہے، کیوں کہ آج کے تیز رفتار نئے دور میں نت نئی ایجادات وجود میں آرہی ہیں، سائنس داں نت نئے انکشافات کرنے میں مصروف ہیں، اس سب کے باوجود بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے حوالوں سے خواتین کو انھی مسائل کا سامنا ہے، جو آج سے بہت زمانے پہلے کے تھے۔ جیسے وہ آج بھی اپنے بنیادی حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں اور انھیں اپنی معاشرتی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے عالمی دن بھی منانا پڑتا ہے۔

جس پر دنیا بھر میں مختلف سیمیناروں کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس میں مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی خواتین، خواتین پر مسلسل ہونی والے ظلم و ذیادتی کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں، قراردادیں پیش کرتی ہیں انھیں حکومت سے شرف قبولیت بخشوانے کے لیے اقدامات کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

ایسے سمیناروں کی تقاریر میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ مرد عورتوں پر پر ظلم کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں، شادی سے انکار پر تیزاب گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں، ہراسانی اور عصمت دری کے واقعات پر خوف کے مارے بات نہیں ہوتی۔ عورتیں مجبوری میں جب پیشہ وارانہ سرگرمیوں میں حصہ لیں یا اپنے خواب پورے کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلیں، تب بھی ان کو مختلف مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

دوسری طرف ایسے مسائل سے نبرد آزما ہونے کی صدائیں بھی بلند ہوتی رہتی ہیں۔ جن کا عنوان یہ ہوتا ہے کہ ’’خواتین کو مردوں کے مقابلے کے حقوق دلوانا اور ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف جدوجہد کرنا‘‘ اگر اس مقصد کو پڑھا، سمجھا اور جانچا جائے، تو یہ سماج میں ایک مثبت سوچ کو پروان چڑھا سکتی ہے۔

مگرجو خواتین اس تحریک کا اب حصہ بن رہی ہیں وہ اس کی تعریف کو معاشرتی طور پر غلط رنگ دینے کی کوشش بھی کر رہی ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے آج لبرل خواتین ’فیمن ازم‘ کی آڑمیں جو تحریکیںچلا رہی ہیں، وہ اس میں خواتین کے جائز حقوق اور ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف جدوجہ لڑنے کے بہ جائے مردوں کے خلاف جنگ لڑ رہی ہیں، وہ مردوں کے بغیر رہنے کی سوچ کو ترویج دے رہی ہیں اور سماج کے ہر مرد کو ہی مکمل طور پر برا بھلا کہہ رہی ہیں!

سوال یہ پیدا ہوتا ہے ہر مرد کیسے برا ہوسکتا ہے؟ ہم اس معاشرہ میں رہتے ہیں، جہاں باپ، بھائی، شوہر اور بیٹا ایک گھنی چھاؤں بن کر ہمارے لیے کھڑے بھی ہوتے ہیں، کیا ہمیں ایسے مردوں کے خلاف بھی آواز اٹھانی ہے؟

دراصل ہمیں تو صرف اس سوچ کے خلاف آواز اٹھانی ہے، جو یہ سوچتی ہے کہ اگر عورت پڑھ لکھ گئی تو وہ باغی ہو جائے گی، اگر کمانے لگی تو ہمیں کمتر سمجھے گی، اگر اسے طلاق کا حق دیا توبے وجہ گھر برباد کر دے گی اور عمل سے بھی یہی ثابت کرنا ہے۔

وہ خواتین جو مردوں کے بغیر والے معاشرہ کو فروغ دینا چاہتی ہیں وہ اس بات سے نابلند ہی ہیں کہ ہم عورتیں کام یاب ہوتی ہیں، تو اس میں ہمارے باپ، بھائی، شوہر، بیٹے کا بھی ہاتھ ہوتا ہے، ہمیں تو اچھا لگتا ہے اپنے شوہر اور گھر والوں کے ساتھ زندگی گزارنا اور یہ بالکل فطری بات ہے۔

ہاں! اگر کوئی عورت یہ کہتی ہے کہ میرا شوہر مجھے مارتا ہے، مجھے اس کے ساتھ نہیں رہنا، یہ اس کا حق ہے اسے دیا جانا چاہیے، اگر وہ شادی سے انکار کرتی ہے اور مرد اسے انکار پر کوئی زور زبردستی کرتا ہے تو ایسے مرد کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

ہمیں آج اس فکر کو فروغ دینا ہے، نہ کہ ایک ایسی خواتین کے طبقہ کو جو آج ’فیمن ازم‘ کی تعریف سے نابلند ہو کر ’’اینٹی مین‘‘کی تحریک چلا کر پوری دنیا میں پاکستانی خواتین کا وہ چہرہ پیش کررہی ہیں، جو دراصل یہاں موجود ہی نہیں اور جو یہاں ہو بھی نہیں سکتا، اور ہم ایسا ہونے بھی نہیں دیں گے، کیوں کہ ہمیںمردوں کے نہیں مردوں کی منفی سوچ کے خلاف جنگ کرنی ہے اور جنگ ہمیشہ سوچ سے کی جاتی ہے صنف سے نہیں۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں