31

کہیں آپ کا مِیک اَپ بھی ’ٹاکسک‘ تو نہیں؟

آپ نے یقیناً ’ٹاکسک ورک پلیس‘، ’ٹاکسک لوگوں‘ یا پھر ’ٹاکسک رشتہ داروں‘ کے بارے میں تو اکثر سنا ہی ہوگا، لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ روز مرہ کی بنیاد پر استعمال کیا جانے والا آپ کا میک اپ بھی کتنا ’ٹاکسک‘ ہو سکتا ہے!

بچپن میں تقریبا سب ہی بچیوں کو میک اپ کے استعمال پر پابندی یا سختی کا سامنا ہوتا تھا یا اب بھی ہوتا ہے۔ یقیناً میری طرح آپ نے بھی کبھی نہ کبھی نانی، دادی اور امی سے اس میک اپ استعمال کرنے پر ڈانٹ پڑنے کی وجہ سے یہ جاننے کی کوشش کی ہو کہ میک اپ کیوں استعمال نہیں کرنا چاہیے یا میک کا ہروقت یا زیادہ استعمال کیوں نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ یہ اصطلاح آپ کے لیے نئی ہو یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پہلے کبھی آپ نے اس حوالے سے کچھ جاننے کی کوشش کی ہو۔ ہم نے اکثر اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ میک کا زیادہ استعمال خواتین خصوصاً بچیوں کی نازک جلد کو متاثر کرتا ہے یا ان کی جلد کو خراب کر دیتا ہے۔

دراصل ٹاکسک میک اپ بھی ہماری جِلد پر ٹاکسک افراد کی طرح غیر محسوس طریقے سے اثر انداز ہوتا ہے۔ بہ ظاہر آپ کو آپ کو ’قاتلانہ تاثر‘ دینے والا میک آپ کے لیے عملاً جان لِیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

گذشتہ ہفتے امریکی اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر استعمال کیے جانے والے میک اپ یا خوب صورتی میں ا ضافہ کرنے والی کاسمیٹکس میں ایسے کیکمیکل کا استعمال کیا جاتا ہے، جو کاسمیٹکس کو انسانی جِلد پرزیادہ وقت تک لگے رہنے میں مدد دیتے ہیں۔ ان کیمیکل کے باعث میک اپ پر گرمی، پانی جیسے عوامل اثرانداز نہیں ہوتے اور یوں یہ میک اپ زیادہ ٹائم تک جِلد پر لگا رہتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ مختلف اشتہارات اور  کمپنیوں کے ذریعے کاسمیٹک کی صنعت اپنے صارفین کو اس بات پر قائل کرنے میں بھی کام یاب ہے، میک اپ کی تمام مصنوعات بالکل محفوظ ہیں اور ان کے انسانی جِلد پر کوئی مضر اثرات نہیں ہوتے، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

کاسمیٹک کی مصنوعات خاص طور آپ کی خوب صورت میں اضافہ کرنے والا میک اپ مختلف کیمیکلوں کا ایسا مرکب ہے، جو نہ صرف انسانی جِلد کے لیے ’سرطان‘ جیسی مہلک بیماری کا باعث بن سکتا ہے، بلکہ روز مرہ کی بنیاد پر ان مصنوعات کا زیادہ استعمال حاملہ خواتین میں بچوں کی پیدائش اور تولیدی عمل میں پیچیدہ مسائل کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق مطالعے کے دوران کاسمیٹک کی صنعت کے بہت سے مشہور نام ایسے بھی سامنے آئے، جو ہمیشہ میک اپ میں مضر صحت کیمیکل استعمال کرتے ہیں۔ یہ ایسے کیمیکل ہوتے ہیں، جو میک اپ کو زیادہ تر تک جلد پر رہنے میں مدد دیتے ہیں، جنھیں عموماً مستقل برقرار رہنے والے کیمیکل کہا جاتا ہے۔

ان کیمیکل میں (Filter Aided Sample Preparation) FASP جیسے کیمیکل شامل ہیں۔ ان میں سے تقریباً 12000 کیمیکل وہ ہیں، جو میک اپ کو گیریس، پانی، ہوا، گرمی اور دھوپ سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اب ظاہر ہے یہ وہ خصوصیات ہیں، جو ان کیمیکلوں کو کاسمیٹک کی صنعت کے لیے تو مفید بناتی ہیں، لیکن انسانی جلد پر ایسی کاسمیٹکس کے گہرے اور دیرپا اثرات مرتب ہیں۔

اس ہی رپورٹ میں 2021ء میں ہونے والی ایک تحقیق کا حوالے دیتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا کہ ’مستقل رہنے والے کیمیکل‘ یا پی ایف اے امریکا اور کینیڈا کی کاسمیٹک مصنوعات میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتے ہیں۔ تحقیق میں 231 کاسمیٹک کی مصنوعات کا جائزہ لیا گیا، جن میں آدھی سے زیادہ مصنوعات میں ’پی ایف اے‘ پائے گئے اور یہ وہ مصنوعات ہیں جو عام طور پر ہماری میک اپ کِٹ میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی پراڈکٹس ہیں جیسے کہ لپ اسٹک، آئی لائنر، کاجل، فاؤنڈیشن، کنسیلر، لپ بام، بلش، نیل پینٹ وغیرہ۔ یہ سب وہ کاسمیٹکس ہیں و خواتین روزانہ کی بنیاد پر دن میں ایک دو مرتبہ رور استعمال کر رہی ہوتی ہیں۔

ان کاسمیٹکس میں پائے جانے والے ’مستقل رہنے والے کیمیکل‘ یا ’پی ایف اے‘ سرطان کی نشوونما اور پچوں میں پیدائشی نقائص سے جڑے ہوئے ہیں، جن کے بارے میں ہم پہلے ہی بات کر چکے ہیں۔ لیکن یہ کیمیکل اس سے زیادہ پیچیدگیوں کا باعث بھی بن سکتے ہیں، جیسے جگر کے امراض تھائرائڈ ہارمونز کو خراب کرنے، یہاں تک کہ انسانی قوت مدافعت میں کمی کا بھی باعث ہو سکتے ہیں۔

تحقیق کا سب سے دل چسپ پہلو تب سامنے آیا، جب کاسمیٹک کی دنیا کے سب سے بڑے برانڈز سے نمونے لیے گئے، لیکن ان کمپنیوں کا براہ راست نام نہیں لیا گیا، جن کی مصنوعات میں ایسے اجزا پائے گئے تھے۔

اب ان برانڈز کا نام براہ راست تحقیق میں کیوں شامل نہیں کیا گیا، اس کی بھی وجوہات کافی دل چسپ ہیں۔ جیسے کاسمیٹکس کے بڑے برانڈ اپنے ممالک میں قانون سازی کے عمل میں ایک اہم رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں جب کاسمیٹکس میں کیمیکل کے استعمال پر کسی بھی قسم قانون سازی کے عمل میں کاسمیٹکس کی صنعت سے منسلک یہ افراد رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔

ان ممالک میں چوں کہ کاسمیٹک کمپنیز ایک طاقت وَر صنعت ہیں، لہٰذا یہی وجہ ہے کہ کاسمیٹک کی صنعت سے وابستہ لابیز کیمیکل کے استعمال پر پابندی کے حوالے سے ان ممالک کی قانون سازی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

گذشتہ سال کاسمیٹک سے دنیا بھر میں ہونے والی آمدنی کا تخمینا 100 بلین امریکی ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا، جب کہ کاسمیٹک مصنوعات کا حجم 290 بلین امریکی ڈالر کے قریب تھا۔ ایک اندازے کے مطابق 2028ء تک اس کے 400 بلین ڈالر سے زیادہ ہونے کا امکان ہے۔

امریکا میں کاسمیٹکس میں کمیکل کے استعمال کے حوالے سے قانون سازی کے مواقع ملے، لیکن ’کاسمیٹک لابی‘ کو کانگریس میں دو طرفہ اثر و رسوخ حاصل ہے، لہٰذا اس کے حوالے سے قانون سازی نہیں کی جا سکی اور نہ ہی مضر کیمیکل کے استعمال پر کوئی پابنی عائد کی گئی۔

اس حوالے سے معاملات یورپی یونین میں بہت بہتر نظر آتے ہیں۔ یورپی یونین میں کاسمیٹک میں ایسے کیمیکل کے استعمال کے حوالے سے قواعد و ضوابط کہیں سخت اور موثر ہیں۔ یورپی یونین نے صرف کاسمیٹک میں 1300 سے زیادہ کیمیکلوں پر پابندی عائد کی ہے، جب کہ امریکا نے صرف 11 پر پابندی عائد کی ہے۔

یورپی یونین نے کاسمیٹک میں استعمال ہونے والے ’کیمیکل فارملڈ ہائیڈ‘ پر پابندی لگائی، جو سرطان کا باعث بنتا ہے، لیکن امریکی نیل پالشوں اور بالوں کو مضبوط کرنے والے کاسمیٹک میں وہی عنصر وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ کاسمیٹک میں استعمال ہونے والا پیرابینز نامی کیمیکل تولیدی مسائل پیدا کر سکتا ہے، جن پر یورپی یونین میں پابندی ہے، لیکن وہ امریکا میں استعمال ہوتے ہیں۔

یورپی یونین ریگولیشن کے ذریعے اس طرح کے ’ٹاکسک‘ کیمیکلز کے استعمال کو روکنے میں اس طرح کام یاب ہے کہ کاسمیٹک برانڈ کواس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ اور تیار کنندگان کو یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ ان کی مصنوعات میں کسی قسم کا مضر صحت کیمیکل استعمال نہیں کیا گیا اور بیوٹی مصنوعات استعمال کے لیے محفوظ ہیں۔

امریکا میں اس طرح کے قواعد و ضوابط ضرور بنائے گئے ہیں، لیکن یہ صرف نئی کاسمیٹک مصنوعات پر لاگو ہوتا ہے، کئی دہائیوں سے مشہور کاسمیٹک کی مصنوعاتکے لیے یہ قانون لاگو نہیں ہوتا۔

جب کہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں پرانے مشہور ناموں کے کاسمیٹک خواتین کی کتنی بڑی تعداد نہ صرف استعمال کرتی ہے، بلکہ اس بات پر پختہ یقین رکھتی ہے کہ ان یہ کاسمیٹک نہ صرف ان کی خوب صورتی میں اضافہ کریں گے، بلکہ ان کی جِلد کو نکھرانے اور بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوں گے۔

پاکستانی خواتین لوکل کاسمیٹک مصنوعات استعمال نہیں کرتیں اور زیادہ تر عالمی برانڈز پر انحصار کرتی ہیں، جن میں زہریلے مادّوں کی موجودگی ثابت ہوتی ہے۔ سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس مسئلے کے بارے میں خواتین میں بہت کم یا نہ ہونے کے برابر آگاہی پائی جاتی ہے، لہٰذا کاسمیٹک مصنوعات کو محفوظ سمجھا جاتا ہے۔

خواتین کا عام خیال اور رجحان یہ ہی ہے کہ یہ بڑے اور مشہور برانڈز کے کاسمیٹک ہماری خوب صورتی کے بڑھانے کے ساتھ ساتھ اِسکن کیئر کا بھی کام سرانجام دیتے ہیں، جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ کیوں کہ جو کاسمیٹک خواتین استعمال کرتی ہیں وہ درحقیقت زہریلے مادوں کا مجموعہ ہے۔

تو پھر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کو کیا کرنا چاہیے؟ یقیناً ’ٹاکسک لوگوں‘ اور ’ٹاکسک دفاتر‘ کی طرح خواتین کو ان ’ٹاکسک کاسمیٹک‘ اور بیوٹی مصنوعات سے بھی دور رہنا ہے، جو نہ صرف آپ کی جلد کے لیے خرابی کا باعث بن سکتی ہیں، بلکہ دیگر امراض کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ کاسمیٹک خریدتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ پراڈکٹ کا لیبل ضرور چیک کریں، ایسے اجزا کے ساتھ مصنوعات سے پرہیز کریں، جو خالص قدرتی اجزا بنے ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، کیوں کہ ان دعوؤں کی کوئی تصدیق نہیں ہے۔ تو اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اس حوالے سے بھی محتاط رہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ ’قاتلِ‘ نظر آنے کے لیے استعمال کیا گیا میک اپ آپ ہی کا قاتل بن جائے۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں