31

ایک کتاب اور ایک شناسا

جب پشاور میں ٹی وی سینٹر قائم ہوا تو ساتھ ہی نئے مقامی پروڈیوسر بھی بھرتی ہوئے جن میں ایک عتیق صدیقی بھی تھا۔جس کے ساتھ ہماری جوڑی بن گئی اور کئی ڈرامے ہم نے ساتھ کیے۔اس کے ساتھ ہماری جوڑی بننے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ لالا وزیرمحمدصدیقی کا پوتا تھا۔اور لالا وزیرمحمد صدیقی کے ساتھ ہمارا روزنامہ شہباز کے دفتر میں بہت اٹھنا بیٹھنا تھا۔ سیڑھیوں میں ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جو لالا کے قبضے میں تھا، پیشے کے طور پر تو اخبارات و رسائل کی تقسیم سے وابستہ تھے لیکن شعراء وادباء کا ان کے کمرے میں ہجوم رہتا تھا۔

ان دنوں ہم ابھی تازہ واردان ہوئے تھے لیکن محترم احسان طالب کی وساطت سے ہم بھی’’بڑوں‘‘ کی مجلس میں شریک ہوجاتے تھے۔لالا خود شاعر و ادیب نہ تھے، اگر تھے بھی تو ہمیں علم نہیں تھا لیکن ان کے فرمودات ہمارے لیے بڑے قیمتی تھے جن میں اردو کے بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں کے بارے میں پوست کندہ اور چشم دید واقعات ہوتے تھے چنانچہ اس وقت کے بہت سارے شعراء اور ادیبوں کے بارے میں ایسا بہت کچھ جان گئے جو’’کتابوں‘‘ میں نہیں تھا، ان میں اخترشیرانی،عبدالحمید عدم،میراجی،ن م راشد، منٹو اور بہت سے ہندوستانیشاعر وادیب بھی تھے اور معلوماتی خزانہ رکھنے والے لالا وزیرمحمد صدیقی سے ہم نے بہت سنا،پایا اور محفوظ کیا۔

ٹی وی میں عتیق صدیقی کا ساتھ ہوا تو اس کی خوبی نے ہمیں بعد میں متاثر کیا۔وہ ڈرامے پر بے انتہا محنت کرتا تھا، اکثر لوکشن ڈھونڈتے ہوئے تھک جاتے لیکن عتیق اس وقت لگا رہتا جب اسے اپنے پسند کی لوکیشن مل نہیں جاتی۔خوب سے خوب تر کی تلاش میں وہ نہ بھوک پیاس کی پروا کرتا تھا نہ تھکان اور تکلیف کی۔لیکن ہمارا یہ ساتھ بہت ہی محتصر تھا اور بہت جلد وہ پاکستانی سیاست کے اس نزلے کا شکار ہوا جو ہمیشہ عضو ضعیف پر گرتا ہے۔ چند پروڈیوسروں کو نکال دیا گیا جن میں عتیق صدیقی بھی تھا۔ یوں ہمارا ساتھ چھوٹ گیا۔وقت کی آندھیاں چلتی رہیں ،گرے پتے اڑاتی رہیں۔

سنتے تھے کہ وہ امریکا چلا گیا ہے اور وہاں شفٹ ہوگیا ۔بعد میں حکومت بدلنے پر ،وہ نکالے گئے لوگ بحال ہوئے تو سننے آیا میں کہ عتیق بھی بحال ہو کر پروگرام مینجر کے عہدے پر لوٹ آیا۔لیکن اب آندھیاں ہمیں اڑالے گئی تھیں، اس لیے ملاقات نہیں ہوئی۔

آیا نہ راس نالہ دل کا اثر مجھے

اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے

لیکن یہ وقت بھی بہت محتصر تھا، بہت جلدی سننے میں آیا کہ استعفیٰ دے کر امریکا چلا گیا ہے۔

خود اپنے سے ملنے کا بھی یارا نہ تھا مجھ میں

میں بھیڑ میں گم ہوگیا تنہائی کے ڈر سے

اس کا تو ہمیں پتہ نہیں کہ اس کے خانہ دل میں ہماری کوئی یاد تھی بھی نہیں۔بلکہ نہیں تھی ورنہ ہم تو امریکا نہیں جاسکتے لیکن وہ تو آتا رہتا تھا، ہم سنتے رہتے تھے ظہور اعوان اور کچھ دوسرے لوگوں کے کالموں میں اس کا ذکر پڑھتے رہے۔اور اب اس کے کالموں کا یہ مجموعہ’’تقویم‘‘ بتا رہا ہے کہ میدان بدل گئے تھے لیکن اس کے ’’اظہار‘‘ کا توسن برابر دوڑتا رہا۔

دل میں پھر گریہ نے اک شور اٹھایا غالب

آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سو طوفاں نکلا

کتاب ہمیں اس نے خود نہیں بھیجی ہے بلکہ ناصرعلی سید نے بجھوائی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اس کی یاداشت سے مکمل طور پر ایرئیز یا ڈیلیٹ ہوچکے ہیں لیکن کوئی بات نہیں ہمارے ساتھ ایسا ہمیشہ ہوتا رہا ہے۔اس لیے اکثر ہم ہی

تو مجھے بھول گیا ہو تو پتہ بتلاوں

کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا

ہم اس کی کتاب کا ذکر کررہے تھے تو اس میں سب سے بڑی سفارش بجائے خود یہ کتاب ہے ’’تقویم‘‘ ان کالموں کا مجموعہ ہے جو عتیق صدیقی نے لکھے اور مختلف اخباروں میں چھپے اور ان کالموں کا موضوع وہ قیامت ہے جو اس خطے پر لگ بھگ چالیس سال پہلے ٹوٹی تھی، ٹوٹتی رہی اور آج تک ٹوٹ رہی ہے۔ وہ قیامت جس میں پاکستان اور افغانستان پر طرح طرح کے عذاب ٹوٹے اور ٹوٹتے رہے۔

اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا، یورپ،امریکا، پاکستان، افغانستان،ہندوستان بلکہ ساری دنیا نے اس پر بہت کچھ لکھا ہے لیکن عتیق صدیقی وہ کالم نگار ہے جس نے اس المیے پر قطعی غیرجانبدار ہوکر لکھا ہے۔اس کتاب کا موضوع تو’’افغان جنگ کے بیس سال‘‘ ہے لیکن تذکرہ چالیس پچاس کا اس میں ہوا ہے۔اس کتاب کو ہم اگر ایک حمام کہیں تو زیادہ موزوں ہوگا کیونکہ امریکا اور اس کی حکومتی مشینری،سیاست دان افسران اور دانشور ہی ننگے نہیں بلکہ امریکا کی انسان دوستی،امن پسندی اور سیاست بھی ننگی نظر آتی ہے۔ ساتھ ہی پاکستانی حکمرانوں اور افغانستان کے شاہ پرستوں اور جہادیوں کی بزدلی، لالچ وہوس اور بے حمیتی بھی برہنہ تن دکھائی دیتی ہے۔

قومے فروختندوچہ ارزاں فروخت

عتیق صدیقی کا کمال یہ ہے کہ وہ صرف ’’ہوائیاں‘‘ نہیں اڑاتا بلکہ ہر بات باقاعدہ با ثبوت اور باحوالہ کہتا ہے ۔امریکی پاکستانی اور افغانستانی لیڈروں کے ’’بیانوں‘‘ کی روشنی میں کہتا ہے وہ باثبوت ان قلابازیوں منافقوں اور ذلالتوں کا ذکر کرتا ہے۔امریکا گرجتا رہا اور یہ سر جھکائے حضور حضور کرتے رہے۔

وہ بے درد سے سرکاٹے امیر اور میں کیوں اس سے

حضور آہستہ آہستہ،جناب آہستہ آہستہ

جہاں میرے اپنے نظریات کا تعلق ہے ان جنگوں کے بارے میں تو وہ میں تسلسل سے بتاتا رہوں کہ حقیقت صرف ایک ہے اسلحہ فروشی۔اور فروشی اور فروشی۔باقی سب مایا ہے ۔





Source link

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں