[ad_1]
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے پاکستان کے لیے 7 ارب ڈالر قرض کی منظوری بلاشبہ ایک حوصلہ افزا خبر ہے۔ قومی معیشت کی ڈوبتی سانسوں کو فی الحال کچھ ساعتوں کے لیے جیون کا ایک اور موقع مل گیا ہے۔ قرض کی منظوری میں پاک فوج کے سپہ سالارکے مثبت کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ چین سے لے کر سعودی عرب اور آئی ایم ایف تک اور قرض کی منظوری سے لے کر سابقہ قرضوں کی ری شیڈولنگ اور ضمانتوں تک منتخب حکمرانوں نے اپنی ذمے داریاں ادا کرنے میں ہرممکن حد تک مثبت کردار ادا کیا اس کے باوجود پاک فوج کے سربراہ کو بھی متحرک رہنا پڑا ہے۔
سیاست دانوں کو اقتدار میں آنے کا شوق تو چڑھا رہتا ہے لیکن وہ ملکی مسائل کو حل کرنے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتے۔ بلکہ ہر مسئلے کے حل کے لیے غیرمنتخب افراد کی جانب دیکھتے ہیں۔ خود فیصلے کرنے اور اقدامات اٹھانے کے بجائے ’’اشاروں‘‘ کے منتظر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سیاست عوام میں اپنا اعتماد کھو چکے ہیں۔ بے ساکھیوں کے سہارے اقتدار میں آنے کو اپنی شان سمجھتے ہیں۔ حکمرانوں کی نااہلیوں اور کمزور پالیسیوں کے باعث ہی آج ملک معاشی و سیاسی حوالے سے پاتال میں اترتا جا رہا ہے۔ قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ اور حکمرانوں کی ناقص منصوبہ بندی کے باعث ہی عالمی مالیاتی ادارے کو یہ موقع ملا کہ اس نے 7 ارب ڈالر کا قرضہ تو منظور کر لیا لیکن ساتھ کڑی شرائط بھی لگا دی ہیں۔
معاشی ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کی کڑی شرائط، جن میں این ایف سی ایوارڈ کا دوبارہ جائزہ لینا، توانائی پر سبسڈی کے خاتمے، زرعی شعبے، رئیل اسٹیٹ اور رئیل سیکٹرکو ٹیکس دائرے میں لانا اور ٹیکس نظام میں مزید اصلاحات کرنا جیسی سخت شرائط شامل ہیں، حکمرانوں کے لیے کڑی آزمائش ہیں۔ ان شرائط پر عمل درآمد سے عوام پر منفی اثرات مرتب ہوں۔ انھیں بجلی و گیس کے بحران، لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی جیسے بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، حکومت مہنگائی کم ہونے اور سنگل ڈیجٹ میں آنے کے جو بلند و بانگ دعوے کر رہی ہے وہ بھی مشکو ک ہے۔
وفاقی ادارہ شماریات کی تازہ رپورٹ نے مہنگائی کم کرنے اور سنگل ڈیجٹ میں آنے کے دعوؤں کی نفی کردی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مہنگائی میں تواتر کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور مہنگائی کی شرح 14 فی صد کے قریب پہنچ چکی ہے۔ حالیہ ہفتے میں 21 اشیا ضرورت، جو روز مرہ عام آدمی کے استعمال میں آتی ہیں، آٹا، چاول، دال، ادرک، لہسن، ٹماٹر، پیاز، چکن، سرسوں کا تیل وغیرہ مہنگی ہوگئی ہیں۔ یہ تمام چیزیں روزانہ کی خوراک کا لازمی حصہ ہیں۔ آئی ایم ایف شرائط پر عمل درآمد کے بعد مہنگائی و توانائی بحران اور عوامی مشکلات میں اضافے کے امکانات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
بجائے اس کے کہ حکومت معیشت کے استحکام، توانائی کے بحران اور عوام کو درپیش سب سے بڑے چیلنج مہنگائی کے خاتمے اور لوگوں کو قابل ذکر ریلیف فراہم کرنے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات اٹھائے اس نے اپنی تمام توانائیاں آئینی ترامیم منظور کرانے کے لیے وقف کردی ہیں۔ حکومت کو آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق تازہ فیصلے سے کے بعد وہ ایک مرتبہ پھر قومی اسمبلی و سینیٹ سے آئینی ترامیم منظورکرانے کی پوری کوشش کررہی ہے۔ بہرحال تاحال اس پر پارلیمنٹ میں کوئی بحث و مباحثہ ہو رہا ہے اور نہ ہی آئینی و قانونی ماہرین نے مجوزہ آئینی ترامیم کے مسودے کو دیکھا ہے اور نہ ہی میڈیا میں اس پر کوئی بحث ہوئی ہے۔
پی ٹی آئی اور جے یو آئی نے مجوزہ آئینی ترمیم پر اپنے شدید تحفظات کا اظہارکیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے آئینی ترامیم کی جلد بازی میں منظوری کے حکومتی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے فی الحال ملتوی کرنے کا مشورہ دیا ہے جب کہ پی ٹی آئی نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے مجوزہ آئینی ترمیم کے حوالے سے سڑکوں پر احتجاج کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسی حوالے سے ڈی چوک اسلام آباد، مینار پاکستان لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں پی ٹی آئی کارکنوں نے احتجاج کرتے ہوئے گرفتاریاں بھی دیں۔ پولیس نے کارکنوں کو احتجاج پر اکسانے کے جرم میں بانی پی ٹی آئی اور دیگر رہنماؤں و کارکنوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے ۔ کے پی کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے جذباتی طرز عمل نے صورت حال کو دو آتشہ کر دیا ہے۔ جب کہ کے پی کے میں گورنر راج کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔ بہرحال حکومت و اپوزیشن کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہے۔
[ad_2]
Source link